تبدیلی سر کار کا چراغ بجھنے والا ہے


وزیراعظم پاکستان کی دھونس، دھمکی اور دھماکا ایک شکست خوردہ آدمی کی آخری چیخ تھی۔ ان کی سب و شتم کی زہرناکی ہارے ہوئے جواری کی دہائی تھی۔ ان کی جھنجھلاہٹ، تلملاہٹ اور گھبراہٹ عزت سادات کی نیلامی کے بعد کا واویلا تھا۔ ان کا غصہ اور قہر ناکی کا اسلوب لٹیا ڈبونے والے بد قسمت آدمی کا سیاپا تھا۔ ان کا شور شرابا اور چیخ پکار اپنی زندگی کی جمع پونجی لٹنے والے سوداگر کا نالہ و شیون تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے نیچے سے کرسی کھینچی جا رہی ہے۔

اب وہ بنی گالا کی روحانی طاقتوں کی ہدایت پر اگلی جمعرات تک کالا لباس زیب تن کریں یا ہر روز کالے بکروں کا صدقہ دیں، شہزاد اکبر کو قربانی کا بکرا بنائیں یا گورنر پنجاب کو نواز شریف سے ملاقات کی پاداش اور اختیارات کے بڑھتے مطالبات پر گورنری سے چلتا کریں۔ بیساکھیوں پر کھڑے وزیراعظم کا پتا صاف ہونے والا ہے۔

مشیر احتساب پر ان کا غصہ بیکار ہے کیونکہ عدلیہ، پولیس، ایف آئی اے، ایف بی آئی، عدلیہ اور مقتدر اداروں کی مکمل سپورٹ کے باوجود نون لیگ کی قیادت پر ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا تو شہزاد اکبر بیچارہ کیا کرتا۔ اس نے نواز شریف کے چار کروڑ کے لندن کے فلیٹوں کے سودے سے کرپشن ڈھونڈتے ڈھونڈتے ملک کے تقریباً نو سو ارب روپے اڑا دیے۔ پچھلی جمعرات کو ہی شہزاد اکبر نے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے کہ وہ شہباز شریف، ان کے خاندان اور نون لیگی قیادت کے کسی فرد پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکے، لہٰذا ان کا استعفا قبول کیا جائے۔

وزیراعظم پر دیکھا اور ان دیکھا دباوٴ ہے اور آنے والے دنوں میں اس دباوٴ میں مزید اضافہ ہو گا اور گورنر پنجاب سمیت وہ لوگ فارغ ہوں گے جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ گورنر صاحب نے بھی مستقبل میں اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانے یا جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مل کر سیاسی بساط بچھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اگلا الیکشن سانگلہ ہل سے لڑنا چاہتے ہیں جہاں ان کی برادری کے کچھ لوگوں نے ان کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

فصلی پرندے بھی اڑان بھرنے والے ہیں۔ اتحادیوں کے تیور بھی بدلے بدلے سے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے جن پتوں پر تکیہ تھا وہ بھی ہوا دینے لگے ہیں۔ پشاور والی ”سرکار“ کا کانٹا بھی نکلا چاہتا ہے۔ عوامی غیض و غضب بھی انتہاوٴں کو چھو رہا ہے۔ اپوزیشن بھی کچھ جلال میں دکھائی دے رہی ہے۔ مہنگائی بھی آئے دن بڑھتی جا رہی ہے۔ میڈیا کے جغادری اور درباری اینکرز بھی اقبال جرم کر رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے۔

وزیراعظم بد لے ہوئے سیاسی حالات کا ذمہ دار جن کو سمجھ رہے ہیں، انہیں دھمکیاں اور تڑیاں لگانے لگے ہیں۔ اگر مجھے نکالا گیا تو میں سڑکوں پر آ کر زیادہ ”خطرے ناک“ ہو جاوں گا۔ واجبی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس دھمکی کا روئے سخن کس طرف ہے۔ عوام کی طرف تو ہو نہیں سکتا وہ بیچارے پہلے ہی نڈھال اور خستہ حال ہیں۔ اپوزیشن اس لیے مخاطب نہیں لگتی کہ وہ تو چار سال سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ نواز شریف اور نون لیگ کی قیادت بھی ہدف نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ بھی ایک مدت سے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ لے دے کے اسٹیبلشمنٹ ہی باقی بچتی ہے وزیراعظم جسے دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر مجھ سے اقتدار چھینا گیا تو میں سب راز فاش کر دوں گا۔

دھمکی اور دھونس اپنی جگہ مگر وزیراعظم اور ان کے ہالی موالی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب وہ ”اکیلے“ سڑکوں پر نکلنے کے قابل نہیں۔ وہ کوئی اور مخلوق تھی جن کی ”امداد غیبی“ کے طفیل انہوں نے مینار پاکستان بھی بھر لیا تھا اور ایک سو چھبیس دن کا دھرنا بھی دے دیا تھا۔ اب وہ بغیر پروٹوکول پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں تو انہیں اپنی ”مقبولیت“ کا اندازہ ہو جائے گا۔ وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جن کو وہ دھمکیاں دے رہے ہیں وہ ان کا چھوٹا سا وار بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

وہ محترمہ بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف کی طرح سخت جان اور سیاسی بصیرت سے مالا مال نہیں جو اس قدر مظالم سہ کر بھی نہ صرف سیاسی میدان میں استقامت سے ڈٹے رہتے ہیں بلکہ دو دو تین تین بار وزارت عظمٰی کے منصب پر بھی فائز ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی جڑیں عوام میں ہیں جبکہ عمران خان مقتدرہ کی نرسری میں اگایا جانے والا کمزور اور ننھا پودا ہے جو مرغ دست آموز تو بن سکتا ہے مگر نواز شریف کی طرح مقتدرہ کو واشگاف انداز میں للکار نے کی ہمت نہیں رکھتا۔ بجھنے سے پہلے چراغ کی لو تیز ہو جاتی ہے۔ ”تباہ دیلی“ سرکار کا چراغ بھی گل ہونے سے پہلے پھڑ پھڑا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments