فسٹولا: خواتین کا درد دوہرا



پاکستان میں زچگی کے دوران فسٹولا یا زچگی نالورن جیسی پیچیدگی کا شکارخواتین کو شدید نوعیت کی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ انہیں گھروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے اور خاندان تک سے الگ کر دیا جاتا ہے۔

30 سالہ ریحانہ قادر داد کو امید تھی کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے گی اور اپنی پسند کے شعبے میں کام کر سکے گی، تاہم تیسرے بچے کی پیدائش کے دوران زچگی نالورن کا شکار ہو جانے کی وجہ سے ان کے تمام خواب بکھر گئے۔

پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علی مہر نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والی داد، ان ہزاروں خواتین میں سے ایک ہیں، جو دوران پیدائش، پیدائش کی نالی اور بلیڈر کے زخمی ہو جانے کا شکار ہو جاتی ہیں۔

یہ درد فقط جسمانی حد تک محدود نہیں رہتا۔ اس تکلیف میں متبلا خواتین کو پاکستان میں عموماﹰ تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں سماجی سطح پر جیسے اچھوت بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔

سن 2012 میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والی داد کو امید تھی کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکتے گی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے داد نے کہا، ”شادی گو کہ خوشی کا موقع ہوتا ہے، لیکن میرے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔‘‘

داد کے مطابق ان کا شوہر گالیاں دیتا ہے اور بعض اوقات مار پیٹ بھی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے خاندان کے احترام کے لیے وہ اپنے شوہر کے ناروا سلوک کو برداشت کرتی رہیں، تاہم گزشتہ برس نومبر میں تیسرے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی، ایک نیا موڑ پیدا ہو گیا۔

”میری سرجری پیچیدہ تھی۔ مجھے ایک قریبی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں نرس نے میرا کیس خراب کر دیا اور نتیجتاﹰ بہت زیادہ خون بہنے لگا اور شدید نوعیت کا درد شروع ہو گیا۔‘‘

اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے داد نے مزید بتایا، ”مجھے معلوم نہیں تھا میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے شوہر کو بتاتی رہی تھی کہ مجھے انفیکشن ہے اور مجھے فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ میں نے جب اپنے شوہر کو بتایا تو اس نے میری عزتی کی اور مجھے لاتیں اور گھونسے مارے۔‘‘

داد کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں تھا فسٹولا کس پیچیدگی کا نام ہے، تاہم ان کے گاؤں میں ٹھیک ایسا ہی مسئلہ ایک اور خاتون کو بھی لاحق تھا۔

داد کے مطابق کئی افراد نے انہیں طعنے دینا شروع کر دیے، ”میں جہاں بھی جاتی تھی، سب عجیب نگاہوں سے میرا تعاقب کرتے تھے۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے، نازیبا جملے کستے تھے اور کہتے تھے کہ میں کبھی دوبارہ ایک مکمل عورت نہیں بن سکتی اور کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی مجھے اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔‘‘

داد نے بتایا، ”پیشاب خطا ہوتے دیکھتے تو وہ مجھ پر قہقہے لگاتے۔

داد کے والد نے اس موقع پر علاج کے لیے اضافی مدد کی پیش کش کی، ”وہ مجھے سندھ اور پنجاب میں مختلف جگہوں پر لے گئی۔ بس ڈرائیور تک انہیں گالیاں دیتے تھے کہ مجھے پبلک ٹرانسپورٹ میں کیوں بٹھایا۔ وہ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے سب خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔‘‘

ایک خاتون ڈاکٹر نے داد کو دیکھنے کے بعد بتایا کہ ان کا علاج کوہی گوٹھ ویمن ہسپتال کراچی میں ممکن ہے۔ اس کے بعد ان کے اہل خانہ انہیں فوری طور کراچی لے گئے جہاں مارچ 2021 میں ان کا کامیاب آپریشن ہوا۔ ”اب میں مکمل طور پر صحت مند ہوں اور مڈوائف کورس کر رہی ہوں تاکہ اس مسئلے سے متعلق آگہی میں اضافہ ہوا۔‘‘

داد نے بتایا کہ وہ اس بیماری کی قیمت اب بھی ادا کر رہی ہیں، جہاں ان کے شوہر نے ان سے دو بچے چھین لیے ہیں اور انہوں نے کئی ماہ سے اپنے بچے نہیں دیکھے۔‘‘

داد کا علاج کرنے والے ہسپتال میں بہ طور گائیناکالوجسٹ اور سرجن ڈاکٹر ثنا اشفاق کے مطابق، ”داد اس مسئلے کی شکار کئی پاکستانی خواتین میں سے ایک ہے۔ ایسی خواتین کی عمریں اٹھارہ سے پینتیس برس کے درمیان ہوتی ہیں اور یہ اپنے خاندان سے الگ کر دی جاتی ہیں اور انہیں سماجی مسائل سمیت تضحیک اور طعنوں کا سامنا رہتا ہے۔‘‘

بشکریہ: ایسا خان( ع ت، ع ب)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments