میڈیا، سیاست اور جمہوریت


بدقسمتی سے پاکستانی سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اداروں کی بالادستی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کی کہانیاں یا ان کی عملی شکل ہمیں حقیقی عوامی ترقی و خوشحالی کے مقابلے میں میڈیا کے محاذ پر زیادہ سرگرم یا پرجوش نظر آتی ہے۔ مسئلہ محض الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک نئی جہت سوشل میڈیا پر بھی سیاست کا غلبہ ہے۔ جو لڑائی یا سیاسی جدوجہد عوامی مفادات کے تناظر میں بنیادی طور پر سیاسی محاذ یا میدان یا اداروں کی سطح پر عوامی طاقت سے لڑی جانی چاہیے تھی اس کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔

بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سمیت اہل دانش کا سیاسی میدان اب میڈیا کا میدان بن گیا ہے۔ میڈیا کے اس میدان میں محاذ آرائی، الزام تراشی پر مبنی سیاست، کردار کشی، ٹکراؤ یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے کا ایجنڈے کو بالادستی حاصل ہے۔ ریٹنگ پر مبنی میڈیا کی سیاسی مجبوری ہے کہ اسے اپنے معاملات کو چلانے کے لیے ”ہنگامہ آرائی“ درکار ہوتی ہے اور ان کے لیے بحران کا پیدا ہونا یا اس بحران کو خود سے پیدا کرنا ان کی سیاسی مجبوری بن گئی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر ٹاک شوز کو دیکھیں یا اخبارات میں چھپنے والی خبریں، کالم، فیچر یا اداریے یا سوشل میڈیا پر جاری سیاسی جنگ تو بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست ہے۔ سیاست یا جمہوریت ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس کو مستحکم کیے بغیر ہم یقینی طور پر ترقی کے عمل میں زیادہ مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ میڈیا میں سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نام پر ہو رہا ہے کیا وہ واقعی سیاست اور جمہوریت کی خدمت ہے یا ہم جان بوجھ کر جمہوریت اور سیاست کو تماشا بنانے کے کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔

جب سیاست یا جمہوریت کا عمل غیر سنجیدہ موضوعات یا شخصی یا ذاتیات پر مبنی منفی سیاست کا حصہ بن کر چلے گی تو اس کے نتیجہ میں کیسے جمہوری عمل کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ میڈیا میں جاری سیاسی جنگ شخصیت یا جماعتی رنگ میں ڈھل گئی ہے۔ اسی لیے یہاں سیاست، جمہوریت اور اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا شخصیات کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔

میڈیا میں مجموعی طور پر دیکھیں تو سیاست کا غلبہ ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس محاذ پر بہت زیادہ سیاست کے کھیل میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سنجیدہ مسائل پیچھے چلے گئے ہیں اور بالخصوص سماجی مسائل جن میں تعلیم، صحت، صاف پانی، بڑھتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک، ماحولیات، سیاسی، و سماجی رویے یا طرز عمل، محرومی کی سیاست سے جڑے معاملات پیچھے چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ نان ایشوز نے لے لی ہے۔ اسی طرح جو داخلی اور علاقائی یا خارجی سطح پر پاکستان سے جڑے مسائل ہیں یا جو معیشت جیسے اہم سنجیدہ مسائل پر بات چیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے مزاحیہ پروگراموں میں بھی مزاح سے زیادہ سیاست آ گئی ہے اور سب پر ہی ہم نے سیاست رنگ غالب کر دیا ہے۔

سیاسی فریقین کو جو لڑائی سیاسی یا قانونی میدان میں لڑی جانی چاہیے تھی وہ لڑائی عملی طور پر میڈیا کے میدان کا حصہ بن گئی ہے۔ اس طرز کی سیاست میں سچ، حقائق اور شواہد سے زیادہ مخالفانہ مہم یا پروپیگینڈا پر مبنی سیاست ہوتی ہے۔ وہ معاملات جو عدالتوں میں زیر سماعت ہیں یا جو عدالتوں کا ہی استحقاق ہے اس پر بھی اہل سیاست میڈیا کو اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی اور قانونی بیانیہ میں جان کم ہوتی ہے یا اس کی صحت درست نہیں تو ایسے میں رائے عامہ کی سطح پر اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف اپنی اپنی پسند کے بیانیہ کی ترویج ہوتی ہے۔

میڈیا میں جاری سیاسی مباحث کو دیکھیں تو فوری طور پر ایک ہی سوچ سمجھ آتی ہے یا پاکستان برباد یا ڈوب چکا ہے یا پاکستان ترقی اور خوشحالی کے تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ کوئی توازن پر مبنی بیانیہ سیاست سیاست دانوں کا ایجنڈا نہیں اور ایسے لگتا ہے کہ اہل سیاست میڈیا پر جاری مباحث کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔

اس وقت بھی دیکھیں جتنے بھی حکومت یا حزب اختلاف کے تناظر میں مختلف نوعیت کے سیکنڈل سامنے آتے ہیں ان کا سیاسی میدان میڈیا ہی ہے۔ اس کا مقصد اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف رائے عامہ پر اثرانداز ہونا ہے۔ جب سیاست دانوں کو کہا جاتا ہے کہ یہ لڑائی یا تو آپ پارلیمنٹ میں لڑیں یا سیاسی میدان ہو یا قانون سے جڑے ادارے ہوں مگر سیاست دان اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان کو لگتا ہے کہ میڈیا میں مخالفین کے خلاف کھیل کھیل کر مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ جو کچھ ہم ویڈیوز، آڈیوز میں سن رہے ہیں یا دیکھ رہے ہیں اور جس انداز میں یہ تمام مواد سوشل میڈیا پر بطور تشہیر استعمال ہو رہا ہے اس کا مقصد مخالفین کو بدنام کرنا اور اپنے مخصوص سیاسی عزائم کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اس نقطہ پر متفق نظر آتی ہیں کہ مخالفین کے خلاف جو کچھ بھی کرنا ہے چاہے اس کی بنیاد سچ یا جھوٹ پر مبنی ہو یہ ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پر جب سیاست اصول، نظریے، مثبت سوچ اور فکر سمیت عوامی مفاد سے خالی ہو تو سیاسی منظرنامہ یہ ہی بنتا ہے جو آج سیاست اور میڈیا پر غالب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں جو بھی فریق اپنا بیانیہ پیش کرتا ہے وہ اس کا بیانیہ کم بلکہ اپنی مخصوص جماعت اور وہ بھی جماعتی قیادت کا بیانیہ ہوتا ہے۔ اہل سیاست سے جڑے فریقین نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنی قیادت کے دفاع کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں۔

اصولی طور پر تو سیاست اور جمہوریت کو میڈیا کی مدد سے قومی مسائل کے حل میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ جو مسائل ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر موجود ہیں ان کا احاطہ کر کے ایک ایسی سیاست اور جمہوریت کو آگے بڑھایا جاتا جو واقعی ریاست یا قومی ضرورت بنتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کافی درست ہو گا کہ ہم مجموعی طور پر میڈیا میں پیدا کردہ محاذ آرائی کے کھیل کی بنیاد پر مسائل کے حل کی بجائے مسائل کو بگاڑنے کے کھیل کا زیادہ حصہ بن گئے ہیں۔

اسی طرح میڈیا سے جڑے افراد بھی بدقسمتی سے سیاسی فریق بنتے جا رہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ان کا اور سیاسی قیادت کے عزائم کچھ ایک جیسے ہو گئے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سیاست میں جن افراد کے خلاف چاہے وہ کتنے ہی طاقت ور ہی کیوں نہ ہوں جو کرپشن اور بدعنوانی سے جڑے الزامات ہیں ان کا جواب وہ خود دینے کی بجائے اپنی اپنی جماعتوں کو میڈیا کی مدد سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ الزامات کی نوعیت سیاسی جماعتوں پر نہیں بلکہ افراد پر ہوتی ہے اور اس کا جواب بھی سیاسی جماعتوں کی بجائے افراد کی جانب سے ہی آنا چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاست، جمہوریت اور میڈیا کے باہمی تعلق میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو سکے گا؟ کیا جو مسائل ریاست اور قومی سیاست یا معاشرہ کو درپیش ہیں اس میں ہماری سیاست اور جمہوریت واقعی کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہتی ہے؟ کیونکہ جو طور طریقہ اس وقت ہم نے اختیار کیا ہوا ہے وہ واقعی سنجیدہ نوعیت کا سنگین مسئلہ ہے۔ اس کا حل یہ ہی ہے کہ سول سوسائٹی، میڈیا میں موجود سنجیدہ افراد اور اہل دانش کا بڑا طبقہ اس موجودہ سیاست اور جمہوریت کے کھیل کو چیلنج کریں۔

کیونکہ جب تک ہم ایک بڑی مزاحمت جو سیاسی بنیاد پر ہو اور قانونی دائرہ کار میں ہو نہیں پیدا کریں گے سیاست اور جمہوریت کا قبلہ درست نہیں ہو سکے گا۔ سیاسی جماعتوں میں بھی اچھے لوگ ہیں ان کو بھی خاموشی کی بجائے اپنی آواز کو کسی نہ کسی شکل میں اٹھانا ہو گا۔ کیونکہ جو انداز سیاست اور جمہوریت میڈیا کی مدد سے سجائی جا رہی ہے وہ کسی بھی طور پر ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں سیاست، جمہوریت اور میڈیا کے محاذ پر نئے رولز آف گیم اختیار کرنے ہوں گے تاکہ ہم اپنی سیاست، جمہوریت اور عوامی مفاد پر مبنی سیاست کے قبلہ کو درست سمیت کی طرف موڑ سکیں۔ کیونکہ موجودہ کھیل عام لوگوں کو سیاست اور جمہوریت کے ساتھ جوڑنے کی بجائے ان کو لاتعلق کر رہا ہے جو بڑا خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments