میں بھی ایک بیٹی ہوں


چیف منسٹر صاحب آپ کی بھی کوئی بیٹی ہوگی؟
گورنر صاحب آپ کو بھی اللہ نے بیٹی دی ہوگی؟

ہائی کورٹ والوں کے بھی بیٹیاں ہوں گی اور جو سب سے بڑی کورٹ ہے اس میں انصاف کرنے والوں کے گھروں میں بھی یقیناً بیٹیاں ہوں گی۔

میرا باپ تو اب نہیں ہے لیکن میں اس کی بیٹی ضرور ہوں۔ ہمارے گوٹھ میں ایک کی بیٹی سارے گوٹھ کی بیٹی ہوتی ہے۔ اس کا دکھ سارے گوٹھ کا دکھ ہوتا ہے۔

کیا حکومت کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ گاؤں، گوٹھ، شہر میں رہنے والی ساری بیٹیوں کو اپنی سمجھے اگر وہ ہماری حفاظت نہیں کر سکتی تو ہمیں انصاف تو دے سکتی ہے اگر دے نہیں سکتی تو دلوانے میں مدد تو کر سکتی ہے۔

یہ کیسی حکومت ہے جسے یہ ہی پتا نہیں کہ اس کی حکومت میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ جو ووٹ مانگنے آتے ہیں اور ہمارے ووٹ سے جیت کر ادھر اسمبلی میں جاتے ہیں کیا میں اور میرے بچے ان کی ذمہ داری نہیں؟ ان میں سے کسی کو فرصت نہیں کہ میری بات سنے، میرے یتیم بچوں کے سر پے ہاتھ رکھے، میرے شوہر کے قاتلوں کو پکڑنے میں آگے آئے، انصاف کے لئے آواز اٹھائے، آپ لوگ بتاؤ انصاف کیسے ملے گا؟ قاتل دوبئی میں بیٹھا ہے اور کورٹ میں کوئی آتا نہیں۔

کیا غریب کے لئے کوئی نظام نہیں؟ کوئی انصاف نہیں؟ میں کہاں جاؤں؟ کسی کو میرے چار بچوں پر رحم نہیں آتا؟ میں ان کو کیسے بڑا کروں گی؟ کیا کروں گی؟

مجھے کوئی شوق نہیں ہے ادھر آ کے بات کرنے کا، لوگوں سے ملنے کا، سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو بات کرنی بھی نہیں آتی، لوگوں کے کیسے کیسے نام ہیں، کوئی گورنر ہے، کوئی منسٹر ہے، کوئی جج ہے، اتنے لوگ ہیں لیکن کوئی بات نہیں کرتا، کوئی انصاف نہیں دلاتا۔

مجھے بتائیں کہاں جاؤں؟
کس سے انصاف کی بھیک مانگوں؟

میرے شوہر کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے غلط بات پر آواز اٹھائی تھی۔ کسی کا خون نہیں کیا تھا جو ظالموں نے اس کو مار ڈالا۔

یہ کیسے لوگ ہیں؟
ان کے پاس دل نہیں ہوتا؟
ان کے بچے نہیں ہوتے؟
کسی کے سر کی چادر اتارتے ہوئے ان کا کلیجہ نہیں پھٹتا؟
آپ لوگ مشورہ دو میں کس کے پاس جاؤں؟

میں تو کبھی اپنے گوٹھ سے باہر نہیں نکلی اب ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہوں۔ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں انصاف دے دو اور بچوں کا مستقبل محفوظ کردو۔

یہ کسی فلم یا ڈرامے کے ڈائی لاگ نہیں ہیں۔

یہ ایک نوعمر لڑکی کے لہو لہان دل کی وہ آہیں ہیں جو الفاظ کی صورت میں رک رک کے اس کی لڑکھڑاتی زبان سے نکل رہی تھیں اور آنکھوں سے برس رہی تھیں۔ ہر چند لمحے بعد وہ آواز پر قابو پانے کی کوشش کرتی تھی آنکھیں رگڑتی تھی اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے بات کو دہراتی تھی۔

یہ نوعمر لڑکی شیریں جوکھیو ہے جسے دو ماہ بائیس دن قبل ناظم جوکھیو کی بیوہ ہونے کا داغ لگا ہے۔ اپنی ساس کے ساتھ پریس کانفرنس میں نقاب میں چہرہ چھپائے بنا کسی جانب دیکھے ایک طرف کو گردن ڈھلکائے وہ بول رہی تھی اور خوب بول رہی تھی۔

اس کی ہر بات کا اختتام اس بات پر ہوتا تھا کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں؟

جس روانی سے وہ بول رہی تھی کسی کو کچھ کہنے سننے کی ہمت نہ تھی۔ اوروں کی طرح میں بھی سن رہی تھی اور آنکھوں میں آئی نمی کو بار بار صاف کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

کیا واقعی ہم اس اکیسویں صدی کا حصہ ہیں؟
کیا ہمارے ہاں جمہوریت ہے؟
کیا ہمارے ہاں عدالتیں ہیں؟
اگر عدالتیں ہیں تو وہاں منصف ہوتے ہیں؟
اگر منصف ہوتے ہیں تو انصاف ہوتا ہے؟

اگر انصاف ہوتا ہے تو یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک نوعمر لڑکی کو بیوہ اور چار معصوم بچوں کو یتیم ہوئے دو ماہ بائیس دن کا عرصہ گزر گیا لیکن کسی عدالت میں اس کی کوئی سنوائی نہیں۔

کہاں ہیں وہ سارے انصاف کے رکھوالے اور ٹھیکیدار جن کو محنتانہ ہی انصاف دینے اور دلوانے کا ملتا ہے؟
کیا ان کے کان نہیں کہ کوئی جوں رینگ سکے؟
کیا واقعی ان کے آنگنوں میں بیٹی نام کی کوئی چڑیا نہیں چہچہاتی؟
کیا ان کے دل بنجر اور دماغ کیکر ہیں؟

سوچتے سوچتے اور آنکھوں کی نمی کو رگڑتے رگڑتے میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ”کہاں ہے وہ زمین آسمان کا مالک؟ جس نے انصاف کا وعدہ کیا ہے، جو سچ اور حق کا ساتھ دینے کا درس دیتا ہے، جو مظلوموں کا ساتھی اور یتیموں بیواؤں کا رکھوالا ہے“

جو سب کی شہ رگ سے قریب تر ہے اور بار بار کہتا ہے تم مانگو میں دوں گا۔
وہ بے نیاز ناظم جوکھیو کی بیوہ، بچوں اور ماں کی شہ رگ کے قریب کیا کر رہا ہے؟
کیا اسے ان کی خاموش آہیں سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟ اسے رحم کیوں نہیں آتا؟

کیا وہ دو سو سترہ زخموں سے چور چور ناظم جوکھیو کی شہ رگ کے قریب نہیں تھا؟ اگر تھا تو اس نے انصاف کیوں نہیں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments