پرانی دلی، میرا ایک رومانس: اندرون دلی اور اندرون لاہور دو جڑواں شہر


1996 ء میں دہلی کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

مجھے پرانے شہروں سے ایک فطرتی انس ہے۔ اسی لیے مجھے پرانی گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر کر بے حد خوشی ہوتی ہے اور میں تصور میں خود کو صدیوں پیچھے لے جاتا ہوں۔ جب کبھی میں نے دہلی کے متعلق سوچا تو اسے دیکھنے کی خواہش حد سے زیادہ بڑھ گئی کیونکہ دہلی کی بات ہی کچھ اور ہے۔

دہلی میں میرا دوسرا دن تھا۔ میں جس کمپنی کی دعوت پر بھارت آیا تھا اس کمپنی کے مالک کا نام درشن چوہدری تھا۔ ان کا دفتر پرانی دلی میں تھا۔ آج ہمارا پروگرام ان کے دفتر جانے کا تھا۔ شرما صاحب مجھے لے کر ان کے پاس چلے گئے۔ تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں کیمیکلز کی ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی۔

جب آپ ایک دفعہ اندرون دلی چلے جائیں اور تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو یہ محسوس بھی نہیں ہو گا کہ آپ لاہور میں نہیں ہیں۔ آپ صرف یہ فرق محسوس کریں گے کہ اندرون دلی کے اکثر لوگ آپ کو اردو بولتے نظر آئیں گے، جبکہ اندرون لاہور میں آپ کو زیادہ تر لوگ پنجابی میں بات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ کو کوئی اور فرق محسوس بھی نہیں ہو گا۔ فرق ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ دونوں شہر صدیوں تک ایک جیسے حکمرانوں کے تحت ہی رہے ہیں۔ اس لیے دونوں شہروں کے طرز تعمیر اور بود و باش میں بے حد مماثلت ہے۔

کیمیکلز کی مارکیٹ بالکل لاہور کی اکبری منڈی کی طرح ہے، جہاں بے شمار دفاتر ہیں اور لوگ کیمیکلز کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ میں درشن چودھری کے دفتر چلا گیا وہ ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ لیکن اس میں کام بہت زیادہ ہوتا تھا۔ ان سے ہونے والی بات چیت انتہائی دلچسپ ہے۔ وہاں درشن چودھری کے برادر نسبتی، کنہیا لال بھی موجود تھے۔ ان سے ہونے والی گفتگو کی چند اہم باتیں میں آپ کے سامنے ضرور رکھنا چاہوں گا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ جب 1984 ء میں اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد دہلی میں کئی ہزار بے گناہ سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت ہی اندوہناک واقعہ ہے جسے بھلانا خاص طور پر سکھوں کے لیے تو ممکن نہیں ہے۔ ادھر پنجاب میں رہنے والے ہندو بھی اچھی خاصی مشکل کا شکار ہو گئے۔ کنہیا لال نے بتایا کہ ان کا خاندان پنجابی ہے اور چندی گڑھ کے پاس ان کی رہائش تھی۔ جب سکھوں کو دہلی میں قتل کیا گیا انھیں بھی پنجاب میں سکھوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا اور بہت سارے ہندوؤں کو سکھوں نے قتل کر دیا۔

ایسی صورتحال میں جو ہندو اس قابل تھا کہ وہ نقل مکانی کر سکے اس نے پنجاب چھوڑ دیا۔ ہمارا کاروبار پہلے سے ہی دہلی میں تھا اور ہمارے کچھ رشتہ دار بھی یہاں دہلی میں رہتے تھے۔ اسی لیے ہم پنجاب چھوڑ کر دہلی میں آ گئے مگر ہمارا دل ابھی بھی پنجاب میں ہی ہے جہاں ہم صدیوں سے رہ رہے تھے۔ ہم اب بھی اپنے گھروں میں پنجابی زبان ہی بولتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بے شمار واقعات سنائے اور سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی میں ہجرت کا کوئی واقعہ سنتا ہوں تو مجھے اپنے بزرگوں کی ہجرت کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کئی بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح بے گناہ لوگ پنجاب میں بھی مارے گئے۔ نہ سکھوں کا کوئی لیڈر مرا، نا ہی کوئی ہندوؤں کا لیڈر۔ مرے تو بیچارے عام بے گناہ لوگ۔

کنہیا لال ایک پڑھے لکھے آدمی تھے۔ انھوں نے جو بات 1996 میں کہی اب 2020 میں سچ ثابت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں (جن کو وہ محمڈن کہتے تھے ) کی آبادی میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں اکثریت غریب لوگوں کی ہے جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ جب کہ ہندو لوگوں کی اکثریت امیر ہے اور وہ کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ آنے والے وقتوں میں محمڈن کی تعداد بڑھ جائے گی اور ہندو آہستہ آہستہ اقلیت میں چلے جائیں گے۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ محمڈن معاشی ترقی کریں تا کہ وہ کم بچے پیدا کرنے کی طرف مائل ہوں۔ آج بھارت کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اور ہندو جس خوف کا اظہار کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے یہ بات ایک پڑھے لکھے ہندو سے پچیس سال پہلے سنی تھی۔

پرانی دلی در اصل وہ علاقہ ہے جسے شاہ جہاں نے 1639 ء میں آباد کیا اور آگرہ سے اپنا تخت اس علاقہ میں منتقل کیا۔ یہ بالکل اندرون لاہور ہی کی طرح کا ایک علاقہ ہے۔ اس علاقے کے ساتھ ایک مسجد اور قلعہ بھی ہے، بالکل اسی طرح لاہور میں بھی اندرون لاہور کے ساتھ ایک مسجد اور قلعہ ہے۔ یاد رہے کہ مغلوں نے مختلف ادوار میں، دلی، لاہور اور آگرہ، تینوں شہروں کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ شاہ جہاں نے دلی شہر کے چاروں طرف ایک بلند دیوار بنائی تھی جس میں کئی دروازے تھے۔ میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ مغلوں نے جہاں بھی شہر تعمیر کیے وہ اکثر دریاؤں کے کناروں پر ہیں، مثلاً ً لاہور راوی کے کنارے پر ، آگرہ اور دہلی جمنا کے کنارے، وغیرہ وغیرہ۔

یاد رہے مغلوں سے پہلے سلاطین دہلی، تغلق اور سوری بھی اس علاقے میں رہے ہیں لیکن انھوں نے باقاعدہ شہر کو آباد نہیں کیا۔ دلی شہر کو آباد کرنے کا سہرا شاہجہاں کے سر ہی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دلی کو آباد کرنے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے مگر شاہجہاں نے اسے باقاعدہ ترقی دی۔

دہلی میں موجود مشہور عمارتوں کا ذکر میں آئندہ صفحات میں کروں گا۔ فی الحال اتنا ہی بتانا مقصود ہے کہ مغلوں نے آخری وقت تک دلی کو ہی اپنا دارالحکومت بنایا اور بعد ازاں جب انگریزوں نے اس علاقہ کو فتح کیا تو انھوں نے بھی 1911 ء میں پرانی دلی کے ساتھ نیا شہر آباد کر کے اپنے تمام دفاتر اس نئے علاقہ میں منتقل کر لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments