کچھ فکری روایات کے بارے میں


جمشید اقبال کی شخصیت پر بات کرنا، گویا سورج کو چراغ دکھلانے والی بات ہے۔ اور خاص طور پر جب بات کرنے والا ہم ایسا کم علم انسان ہو تب تو مشکل اور بڑھ جاتی ہے کہ کیا کہا جائے ایسے شخص کے بارے میں جس کے حلم، علم، فکری شعور، ابلاغ پر عبور، دانشوری، انداز دلبری، اور کسی بھی طرح کے تصنع سے عاری عاجزی و انکساری پر بات کرنے کے لئے کوئی تمثیل ہی نہ بن پائے۔ بس احمد فراز سے مستعار لیا ہوا یہ شعر ان کی نذر ہے۔

میں اس کا نام نہ لوں، پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
جمشید صاحب کی ہمہ جہتی شخصیت ایک ہی ہستی میں لمبے قافلے کی مانند ہے۔
رہنما بھی، راہ رو، بھی رہبر منزل بھی ہے
ایک ہی ہستی میں لمبا قافلہ اچھا لگا

چاہے وہ قیام امن کے لئے کوششوں کا تذکرہ ہو، یا رواداری تحریک کا بیان، پرانی اور خاص طور پر پاکستانی موسیقی کا ذوق ہو یا فلسفیانہ موشگافیوں کا شوق۔ ان کی شخصیت کے وہ پہلو ہیں جو انہیں محض ایک خشک مزاج دانشور یا فلسفی کی بجائے ایک رنگا رنگ اور انسانیت دوست شخصیت کا روپ عطا کرتے ہیں۔ ایک نہایت اعلی پائے کے عالم، اور فلسفے کے میدان کے شہ سوار ہونے کے باوجود مجھ ایسے ایک عامی کو بھی اتنا مان دیتے ہیں کہ نہ صرف اپنی کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر اختر علی سید، وجاہت مسعود، حاشر ابن ارشاد، فرنود عالم، اور عثمان قاضی صاحب ایسے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ ہی اس حقیر، پر تقصیر کا نام بھی اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں۔

بلکہ، ایک عدد نسخہ اپنے آٹو گراف کے ساتھ ہمیں مرحمت بھی فرما دیتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے تو ہم خود کو واقعی کچھ چیز سمجھنے لگتے ہیں مگر پھر اگلے ہی لمحے ہمیں اپنی کم علمی کا پھر سے ادراک ہوتے ہی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جمشید صاحب تو انسان دوست اور دوست پرور انسان ہیں سو انہوں نے دوستی نبھانے میں ہم پر یہ عنایت کر دی ورنہ من آنم کہ من دانم۔

”فکری روایات“ جمشید صاحب کی پہلی کتاب ہے جو انسانی فکر کے عہد بہ عہد ارتقا کا بیان اور دنیا کے مختلف معاشروں اور تہذیبوں کی فکری روایات کا جائزہ ہے۔ جمشید صاحب کے اپنے الفاظ میں، فکری روایات کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ جس طرح ہر زبان و مذہب کی ترجمانی کا بنیادی حق اس مذہب کو ماننے اور اس زبان کو مادری زبان کے طور پر بولنے والے کو ہے، اسی طرح کسی بھی فکری روایت کی ترجمانی بھی وہی کر سکتا ہے جس نے دنیا کو اسی روایت کی آنکھ سے دیکھا اور جس میں وہ ایسے جیا جیسے مچھلی سمندر میں جیتی ہے۔

اس کتاب کا ایک اور مقصد طاقت ور کے پھیلائے گئے اس پروپیگنڈے کا ابطال ہے کہ فلسفیانہ، تنقیدی، اور اعلی درجے کے افکار کا آغاز کسی ایک خاص روایت یا تہذیب سے ہوا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسفیانہ طرز فکر بھی زبان اور موسیقی کی طرح عالم گیر اور زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غار کے دور کا انسان بھی نہ صرف فن کار تھا بلکہ فلسفیانہ طرز فکر کا بانی بھی۔ امید ہے کہ یہ کتاب پڑھ کر قاری بہت سے فکری تعصبات سے آزاد ہو جائے گا اور دنیا کو مچھلی کی آنکھ یعنی اندر کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دے گا۔

قحط الرجال کے شکار اس معاشرے میں جمشید اقبال صاحب جیسے لوگ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہوں نے اپنے علم و فضل کی روشنی سے ہمارے لئے نشان منزل کو روشن کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم اپنے قلوب و اذہان کو کشادہ کریں، اپنے سے مختلف تہذیبوں، معاشروں، اور مذاہب کے ساتھ یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کر کے بین الاقوامی امن کے لئے راہ ہموار کریں۔ کہنے کو یہ کام ایک انسان کے بس کی بات نہیں، مگر کہتے ہیں نا کہ قطرہ قطرہ بہم شود دریا۔ اور ایک بار پھر فراز ہی کے الفاظ میں :

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

جمشید صاحب۔ اس انمول تحفے کے لئے آپ کا شکریہ۔ صد بار۔ ہزار بار۔ آپ کی محبت اور عنایت کا کوئی بدل نہیں۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments