ایڈیٹر کی ڈائری


کئی برس پہلے، بطور ڈائجسٹ ایڈیٹر، ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جس اہم چیز سے میرا، سب سے پہلے واسطہ پڑا، وہ رائٹرز کے، ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودے تھے۔ بیشتر کہانیاں ایسی تھیں کہ ان میں کہانی ڈھونڈنا آسان کام نہیں تھا۔ یوں سمجھیں کہ الفاظ کا ڈھیر ہوتا تھا، جس میں سے جملے خود بنانے پڑتے تھے۔

ایک نامور خاتون لکھاری کی تحریر میں پیراگراف تو کیا، کوما یا فل سٹاپ بھی نہیں ہوتا تھا۔ گویا وہ کہانی نہیں الفاظ کی ایک ٹرین تھی جو پشاور سے چلتی تھی اور کراچی پہنچ کر دم لیتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہی میں اس قابل ہو گیا کہ ڈاک کے لفافے پر لکھا پتہ دیکھ کر ہینڈ رائیٹنگ پہچان لوں اور سمجھ جاؤں کہ یہ کہانی کس کی ہے اور لفافہ کھولنے کے بعد مجھ پر کیا بیتنے والی ہے۔ تحریر شناسی کا یہی فن میرا کمپوزر بھی سیکھ چکا تھا۔

ایک روز کمپوزر نے پوسٹ مین سے ڈاک وصول کی۔ اس نے ساری ڈاک وہیں میز پر چھوڑ دی اور ایک لفافہ اٹھا کر میرے پاس لے آیا۔ اس نے بند لفافہ میرے سامنے رکھ دیا اور سرگوشی کے سے انداز میں بولا:

”ان صاحب کی نئی کہانی آ گئی ہے۔“
” کن کی؟“ میں بالکل انجان بن گیا۔ حالانکہ میں لفافے پر پتا دیکھتے ہی ہینڈ رائیٹنگ پہچان گیا تھا۔

” وہی صاحب جو ہاتھ کی بجائے پاؤں سے لکھتے ہیں۔ فل اسٹاپ کی جگہ گول دائرہ بناتے ہیں اور پھر رنگ برنگی پنسلوں سے ان میں بچوں کی طرح رنگ بھی بھرتے ہیں۔“

تو پھر، اب تم کیا چاہتے ہو؟ ”میں نے بحث کو سمیٹا۔“
”سچی بات ہے، اگر آپ نے ان کی کہانی کمپوز کروانی ہے تو میں کل چھٹی کروں گا۔“
” وہ کس خوشی میں بھئی؟“ میں اس کی دھمکی سن کر سٹپٹا گیا۔

”ان کی کہانی کمپوز کرنے کے بعد میں ذہنی اور جسمانی طور پر اس قابل نہیں رہتا کہ اگلے چوبیس گھنٹے مزید کوئی کام کر سکوں۔“ اس نے رو دینے والے لہجے میں کہا تو میں بھی اس کا دکھ سمجھ گیا۔

لیکن ایک ایڈیٹر کا کام تو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ عملہ ہو یا لکھاری سب اس کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ وہ کسی لکھاری کی محنت کو صرف خراب لکھائی کی وجہ سے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال سکتا۔

اگر بات خواتین رائٹرز کے مسودوں کی، کی جائے تو ان پر سالن کے داغ ہونا ہمارے لیے چونکا دینے والی بات نہیں رہی تھی۔ سب سے دلچسپ واقعہ تو اس روز پیش آیا جب ایک خاتون رائٹر کے مسودے میں سے ڈبل روٹی کا سلائس برآمد ہوا۔ رابطہ ہونے پر جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا:

”صبح کے وقت گھر میں بہت نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے۔ کچن میں لفافہ بند کر کے صاحب کو دینا تھا کہ دفتر جاتے ہوئے پوسٹ کر دیں۔ شاید جلدی میں سلائس بچے کے ٹفن کی بجائے لفافے میں ڈال دیا ہو۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔“

میں نے ان کی بات توجہ سے سنی اور جواب دیا:

”معذرت کیسی! میں نے تو یہ کہنا تھا کہ آئندہ جب بھی سلائس بھیجیں جام ضرور لگا دیا کریں۔ چائے ہمارے آفس میں ہی بن جاتی ہے۔ لہٰذا کبھی کبھار دن میں دو، بار ناشتہ کر لینے میں بھی حرج نہیں۔“

اس پر وہ اتنا ہنسیں کہ اگلے ہی روز ایک کیک تیار کر کے اپنے ملازم کے ہاتھ دفتر بھجوا دیا۔

ایڈیٹری کے دوران ایسے مہربانوں سے بھی رابطہ رہا، جو اکثر فون کر کے پوچھتے تھے کہ ہماری کہانی کب شائع ہو گی۔ جب ان سے یہ دریافت کیا جاتا کہ آپ نے کہانی کس نام سے اور کب ارسال کی تھی تو جواب ملتا:

”ابھی بھیجی نہیں۔ ایک دو دن میں مکمل ہو جائے گی تو پوسٹ کر دیں گے۔ بس ویسے ہی پوچھنا تھا کہ اشاعت میں زیادہ تاخیر تو نہیں ہو گی۔“ وہ اس معصومیت سے کہتے کہ ہم سر پکڑ کر رہ جاتے۔

ایک اور اہم بات یہ تھی کہ رائٹرز کا چوبیس گھنٹے میں جب دل چاہتا تھا بنا گھڑی دیکھے اپنی کہانی بارے معلوم کرنے کے لیے فون کر لیتے تھے۔ ان میں اکثریت نو آموز لکھاریوں کی ہوتی تھی۔ ہم نے کئی بار ڈائجسٹ میں درخواست کی تھی کہ صرف دفتری اوقات میں رابطہ کیا جائے مگر ان کی محبت کم ہونے میں نہ آتی تھی۔

ایک صاحب اکثر رات کو، ایک دو بجے فون کر کے اپنی کہانی بارے پوچھا کرتے تھے اور بعض اوقات تو آدھی کہانی فون پر ہی سنا دیا کرتے تھے۔ وہ اپنی بات کا آغاز ہمیشہ اس انداز میں کرتے تھے :

” بھئی ایڈیٹر صاحب! آپ سو تو نہیں رہے تھے؟“
”آپ نے صرف یہ معلوم کے لیے مجھے جگایا ہے؟“ میں ان سے پوچھتا۔
” کمال ہے آپ اتنی جلدی سو جاتے ہیں۔“ وہ کھسیانی ہنسی ہنس دیتے۔
وہ اکثر یہی سوال کرتے تھے اور میں بھی یہی جواب دیتا تھا۔ ایک رات انھوں نے کہا:
” بھئی آپ تو بہت جلدی سو جاتے ہیں۔ میں آپ کو دن میں فون کروں گا۔ پھر لمبی گپ شپ ہو گئی۔“

یہ کہہ کر انھوں نے رابطہ منقطع کر دیا لیکن صبح پانچ بجے ان کا دوبارہ فون آ گیا اور بات کچھ یوں شروع کی:

” کمال ہے آپ ابھی تک سو رہے ہیں۔ یعنی ہم رات کو فون کر لیں تب بھی آپ سو رہے ہوتے ہیں اور صبح نمبر ملا لیں تب بھی آپ کی آنکھ نہیں کھلتی۔“

”آپ کس وقت سوتے ہیں؟“ میں نے ان سے پوچھا کیا تو وہ فون پر جمائی لیتے ہوئے بولے :
” ابھی کچھ دیر تک گھر جا کر سو جاؤں گا۔“
”اس وقت آپ کہاں ہیں؟“ میں نے مشکوک لہجے میں سوال کیا۔

”ابھی تو میں ڈیوٹی پر ہوں۔ ایک فیکٹری میں ٹیلی فون آپریٹر کی جاب ہے۔ نائٹ شفٹ میں کام کرتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ رات کو ہی دوستوں کی خیریت معلوم کر لی جائے۔“

میں شکر گزار ہوں کہ انھوں نے رات کو تاخیر سے اور صبح جلدی فون کرنے کا راز خود ہی بتا دیا، ورنہ شاید میں یہی سوچ کر پریشان رہتا کہ آخر کیا وجہ ہے! جب بھی وہ فون کرتے ہیں میں سو رہا ہوتا ہوں۔

ایڈیٹر کی زندگی ایسے بے شمار دلچسپ واقعات سے بھرپور ہوتی ہے۔ وہ ادب سے محبت کرتا ہے تو ادیب بھی اس کے دل میں بستے ہیں۔ وہ کبھی اپنے ان رائٹرز کے خلوص کو فراموش نہیں کر پاتا، جو دن رات اسے یاد رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments