احمدیوں کی برادری اور آبادی


بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں احمدیوں کی آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں احمدیوں پر مظالم کے حالیہ واقعات کا ذکر ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد اور عہدے داروں کے بیانات کے مطابق ملک بھر میں احمدی مخالف پراپیگنڈے کی بھرمار ہے اور معتدل پاکستانی طبقہ کی طرف سے بھی خاموشی طاری ہے۔ میں نے سیربین کی وڈیو رپورٹ فیس بک میں کھولی تو دیکھا کہ چار گھنٹے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے تھے اور چار ہزار کمنٹ بھی موجود تھے۔ میں نے تبصروں پر نظر ڈالی تو حسب توقع 99 فیصد تبصرے احمدیوں کی تکفیر پر مبنی تھے۔

جب سے جنرل ضیاء نے اپنے آمرانہ دور میں احمدی مخالف قوانین جاری کیے تبھی سے ملک سے احمدیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر عام لوگوں میں ایک عجیب رائے پائی جاتی ہے کہ احمدی بیرون ملک ہجرت کے لئے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے اسائلم کے کیس پاس ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کی عدلیہ کے سامنے پاکستانی قوانین کے الفاظ ظلم ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جج کو صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ کیا درخواست کنندہ واقعی احمدی ہے۔ ہمارے پاکستانی قارئین کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ یورپ میں اسائلم کی درخواست دینے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو خود کو احمدی ظاہر کرتے ہیں لیکن ہوتے نہیں۔

بی بی سی کو جماعت احمدیہ کو ایک مذہبی فرقہ کے طور پر پیش کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ عرصہ سے ان کی رپورٹوں میں جماعت احمدیہ کو ’برادری‘ لکھا جا رہا ہے۔ برادری کا لفظ یہ بات عیاں کرتا ہے کہ احمدی ایک علاقے یا نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، یا ان کے سیاسی اور سماجی نظریات بالکل یکساں ہیں۔ پاکستان میں یہ تاثر اس لئے عام ہے کیوں کہ جماعت احمدیہ کو پنجابی کلچر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد کی یکجائی کسی زبان، نسل یا علاقے کی مرہون منت نہیں بلکہ ان کے نظام خلافت سے وابستہ ہے جس کے مرید ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

راقم کا ذاتی مشاہدہ ہے، اس وقت احمدیوں کی اکثر تعداد افریقہ سے تعلق رکھتی ہے اور برصغیر کے باہر دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہر نسل کے احمدی آباد ہیں۔ معلوم نہیں بی بی سی کی صحافتی زبان میں احمدیوں کو ’مسلمان‘ لکھنا کیوں حرام سمجھا جاتا ہے اور اگر فرقہ کا لفظ استعمال ہو تو اس سے کون سا قانون ٹوٹتا ہے؟ ضیاء دور کے قوانین کے سامنے دنیا کا سب سے بڑا صحافتی ادارہ بے بس ہے یا رپورٹ لکھنے والے صحافی ڈرتے ہیں؟

سوشل میڈیا کا دور ہے۔ نوجوان ذہنوں میں ایسا شور و غوغا برپا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ مجھے یقین ہے کہ چنگیز خان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے محصور شہروں کے لوگ اسے پراگندہ خیال نہ ہوتے ہوں گے جس طرح دور حاضر کی صوتی و تصویری یلغار سے ہماری نئی نسل ہلکان ہو رہی ہے۔ نفرت اور بغض کے انبار لگے ہیں اور بدزبانی کی ایسی رو چل پڑی ہے کہ کسی سے شائستہ اور بامعنی گفتگو کی توقع نہیں رہی۔ حیف کہ جو نسل ضیاء دور کی مذہبی نرگسیت سے بچ نکلی تھی وہ انٹرنیٹ کے نیم ملاؤں اور فیک نیوز کا شکار ہو چکی ہے۔ بے حسی کی حد ہے کہ بی بی سی کی رپورٹ میں ایک معصوم جان کے بہیمانہ قتل کا قصہ سنایا جا رہا تھا اور نیچے کمنٹ سیکشن میں مقتول کے قتل پر اطمینان اور انبساط کا اظہار کثرت سے ہو رہا تھا۔

شاید بی بی سی کی رپورٹ سے تعصب زدہ ذہنوں کو یہ غلط تاثر مل رہا ہو کہ احمدیوں کی یہ ہجرت پاکستان کے قوانین درست ہونے کی دلیل ہے۔ جنرل ضیاء کا صدارتی آرڈینینس ’امتناع قادیانیت‘ آرڈینینس کہلاتا ہے جس کی رو سے احمدی خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے۔ یہی احمدی پاکستان سے ہجرت کرتے ہی مذہبی آزادی حاصل کر لیتے ہیں اور ان کو اپنا دین ظاہر کرنے پر کوئی قدغن نہیں۔ کئی معروف علماء یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان قوانین نے احمدیت کی تبلیغ کو دنیا بھر میں پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں چند لاکھ احمدیوں کی آبادی میں قدرے کمی واقع ہونا قابل فکر ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ’احمدی برادری‘ کو وسیع سے وسیع تر کرتا جا رہے۔ اس برادری کو بعد از ہجرت ایسی عالمی مواخات میسر ہے جو آج سے صدیوں پہلے عرب کے ریگزاروں میں ایک ہجرت کے بعد دیکھی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments