بابا فرید اور بابا نانک کا سانجھا گاؤں


جنوری کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی دوپہر تھی۔ سورج نرم روئی جیسے بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔ ہلکی حرارت بھری کرنیں سورج سے سنہری رنگ کی جھولیاں بھر کر کھیتوں میں اگے سرسوں کے پھولوں کے دامن میں انڈیل رہی تھیں۔ گندم کے سبز پودوں پہ اوس کی لڑیوں میں پروئے سبھی قطرے جگمگا رہے تھے۔ جیسے سورج گگن سے اتر کر ایک ایک قطرے میں طلوع ہو گیا ہو۔

ہم پاکپتن سے مغرب کی جانب نکلتی ایک پختہ سڑک پہ نکلے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ریل کی پٹڑی بچھی چلی جاتی ہے۔ سردی سے سکڑے بدن کو سکون پہنچاتی ہلکی دھوپ، دور بہت دور جاتی ریل کی پٹڑی، ہر طرف کھلے سرسوں کے دل کش پھول، کسانوں کی امنگوں بھرے گندم کے لہلہاتے کھیت اور ان سب کے بیچ میں ہمارا ننھا سا سفر۔ کتنا خوب صورت سفر تھا۔

سفر اس لیے بھی حسین تھا کہ ہماری منزل شہر سے چار کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں تھی جہاں بابا گرو نانک اور بابا فرید کی ملاقات ہوئی تھی۔ گاؤں کا نام ہے ’ٹبہ نانک سر‘ ۔

ٹیلے پہ آباد یہ چھوٹی سی بستی ہے لیکن اس کو اعزاز بڑا نصیب ہوا ہے۔ پندرہویں صدی کے آخری حصے میں سکھ دھرم کے بانی بابا گرو نانک اپنے مسلمان ساتھی بھائی مردانا کے ہمراہ خانقاہ بابا فریدالدین پہ حاضری دینے پاکپتن آئے تھے۔ انہوں نے پاکپتن کے قریب جنگل میں اسی ٹبے پہ بسرام کیا۔ رباب بجا کر رب کے گن گائے تو بھجن کے رسیلے الفاظ جنگل سے لکڑیاں چنتے کسی لکڑ ہارے کے دل میں اتر گئے۔

لکڑ ہارے نے بابا فرید خانقاہ کے گدی نشین شیخ ابراہیم (جن کو فرید ثانی بھی کہا جاتا ہے ) کو جا کر بتایا کہ ون، جنڈ، کیکر، بیری، اکانہہ، شریہنہ، کریوں، جھاڑیوں اور بوٹیوں سے بھرے ویرانے میں کسی فقیر نے اپنے دل کے تار رب سے جوڑ رکھے ہیں۔ جنگل بیابان میں صدا گونج رہی ہے کہ رب ایک ہے اور ہم سب اسی کے بندے ہیں۔

شیخ ابراہیم فرید ثانی بابا نانک سے اس ٹیلے پہ ملے اور بابا فرید کے اشلوک سانجھے کیے۔ بابا گرو نانک ان اشعار سے بے حد متاثر ہوئے۔ ’ٹبہ نانک سر‘ کو یہی شرف حاصل ہے کہ اس جگہ مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے قریب آئے۔ ’اشلوک شیخ فرید‘ سکھ مذہب کا ایک انگ بن گئے۔

مٹی کے اس ٹیلے پہ محبت، امن اور انسان دوستی کی ایسی داستان نے جنم لیا جو آج بھی کروڑوں لوگوں کو سرشار کر رہی ہے۔ اس تاریخی واقعے کا گواہ ون کا ایک پرانا درخت گردوارے کے پہلو میں آج بھی موجود ہے۔ بول سکتا تو ہر آنے والے کو خدا کے متلاشی فقیروں اور درویشوں کی کئی داستانیں سناتا۔

جس جگہ بابا گرو نانک اور شیخ ابراہیم کی ملاقات ہوئی تھی وہاں خوبصورت گردوارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ بادامی رنگ کی چھوٹی سی چوکور عمارت پہ گنبد کا تاج سجا ہے۔ دھوپ کی سنہری کرنیں آسمان سے اتر کر اس کے رنگ کو اور بھی اجلا کر رہی تھیں۔ چار دیواری میں چھوٹا سا دروازہ نصب ہے جس پہ تالا لگا رہتا ہے۔ چابی ایک باریش شخص غلام مصطفی کے پاس ہوتی ہے جو گردوارے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب کوئی گردوارے میں جانے کی تمنا لیے ٹبے پہ آتا ہے تو چابی لے کر آ جاتے ہیں۔ ساہیوال کے کوئی سکھ سردار اس کی سانبھ سنبھال پہ خرچ کرتے ہیں۔

امریکہ سے آئے ڈاکٹر دلویر سنگھ پنوں (تاریخ دان اور The Sikh Heritage Beyond Borders کے مصنف) بھی ’ٹبہ نانک سر‘ یاترا پہ آئے۔ ان کے مطابق اس گردوارے کو وہ مقام حاصل ہے جو اور کسی بھی گردوارے کا نصیب نہیں۔ گرنتھ صاحب میں پڑھے جانے والے شیخ فرید جی کے اشلوک اسی مقام پر بابا گرو نانک کی سماعتوں تک پہنچے اور پھر دلوں میں اتر گئے۔

گردوارے سے ملحقہ بٹوارے سے پہلے کی ایک دو منزلہ پرانی عمارت ہے جو گردوارے کا حصہ تھی۔ عمارت تو مٹی ہو رہی ہے لیکن کھنڈرات پتا دیتے ہیں کہ کبھی بہت شاندار عمارت رہی ہو گی۔ سنتالیس سے قبل اس علاقے میں بستے سکھوں نے اس گردوارے کو کتنا دل کش اور پر رونق بنایا تھا۔ رب اور رب کے بندوں کی پریت لیے اس گردوارے میں کتنے ہی درویش صفت لوگ آتے ہوں گے۔ ماتھا ٹیکتے ہوں گے اور لنگر تقسیم کرتے ہوں گے۔ اب وہی عمارت ویران ہو چکی ہے۔ وقت نے دراڑیں کھینچ دیں اور درو دیوار اکھڑ گئے۔ جہاں آشائیں دل میں پالے لوگ دعائیں مانگتے تھے اب اسی صحن میں بندھی بھینسیں رنگتی ہیں اور بکریاں منمناتی ہیں۔

سن سنتالیس میں گردوارے میں دعائیں مانگنے والوں کو جانیں بچا کر سرحد سے پار جانا پڑا۔ جب مرادیں مانگنے والے نا رہے تو شاید ان گردواروں اور مندروں میں بسے خدا بھی اپنے پجاریوں کی طرف ہجرت کر گئے اور ان عمارتوں کو ویرانی دان کر گئے۔

گردوارے کی دیواروں پہ پرانی تحریریں آج بھی موجود ہیں۔ سیاہی پھیکی پڑ چکی اور الفاظ ٹوٹ چکے ہیں۔ گرمکھی ویسے بھی مقامی لوگوں کے لیے اجنبی ٹھہری۔ لہذا یہ تحریریں گونگی ہیں اور لمبی چپ سادھے کھڑی ہیں۔ جب انڈیا سے کوئی سکھ سردار آتے ہیں تو پھر یہ بکھرے ٹوٹے الفاظ بولنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر دلویر سنگھ پنوں نے ایک تحریر کا مطلب بتایا کہ ’جس نے رب کو جان لیا وہ کامیاب ہو گیا‘

بابا گرو نانک، بابا فرید اور شیخ ابراہیم ایسے صوفی منش رب کو ڈھونڈنے کے لیے ہی جنگل بیلے پھرا کرتے تھے۔ اب یہ رب جانے یا وہ صوفی جانیں کہ انہیں رب ملا یا نہیں۔

فریدا کالے میڈے کپڑے کالا میڈا ویس
گناہیں بھریا میں پھراں لوک کہن درویش

ڈاکٹر دلویر نے دیوار سے چمٹے کچھ اور الفاظ جوڑ لیے۔ مطلب کچھ یوں نکلا ’سیوک کو سیوا بن آئی‘ ۔ یعنی اچھے کام بندے سے رب ہی کرواتا ہے۔

رب نے گاؤں والوں سے اچھا کام یہ کروایا کہ ٹبہ نانک سر کا نام نہیں بدلا۔ تقسیم سے اب تک کتنے ہی ناموں کو ہم نے دیس سے نکال دیا ہے۔ یہاں سے کچھ ہی دور ہندوستان میں ڈیری فارمنگ کے بانی اور انگریز حکومت سے سر کا خطاب پانے والے، انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی بہو مانیکا گاندھی کے نانا سر داتار سنگھ کے گاؤں ’چک داتار سنگھ‘ کو ہم نے ’مراد چشتی‘ میں بدل دیا ہے۔

گردوارے کی خستہ دیوار پہ ٹنگے ادھ مٹے لفظوں نے پھر سرگوشی کی کہ ’جس کی تار رب سے جڑ جائے اس کی دھن دھن ہے‘ ۔

فریدا جے توں عقل لطیف ہیں کالے لیکھ نا لیکھ
اپنے گریبان میں سر نیواں کر کے ویکھ

مٹی کے اس بڑے ڈھیر اور چھوٹے گاؤں کو ایک اور بڑی فضیلت ملی ہے۔ گردوارے سے ملحقہ ایک مسجد ہے اور دیوار سانجھی ہے۔ اسی جگہ پہ بابا فرید اور بابا گرو نانک کی سانجھ قائم ہوئی تھی۔ مسجد اور گردوارے کی یہ سانجھی دیوار سکھ اور مسلمانوں کی سانجھ کی علامت ہے۔ گردوارے میں سکھ یاتری گرنتھ صاحب کا پاٹھ کرتے ہیں، ماتھا ٹیکتے ہیں اور اشلوک گاتے ہیں۔ وہیں اس کے پہلو ہی سے اذان کی صدا بلند ہوتی ہے، سجدے ہوتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔ مسجد اور گردوارے دونوں کی گود میں بابا فرید کی اولاد سے بابا فتح اللہ شاہ نوری کی چھوٹی سی خانقاہ ہے۔ امیدوں کے سوکھے شجر پہ بور اور پھل لگنے کی تمنائیں لیے لوگ اس خانقاہ پہ مٹی کے دیے جلاتے ہیں۔

گردوارے کا بادامی گنبد، درگاہ کا سبز گنبد اور مسجد کے خوبصورت مینار ایک ساتھ دل کش منظر بناتے ہیں۔ ارے واہ، کیا نظارہ ہے! ۔

خدا کے یہ گھر اور درویشوں کے یہ ڈیرے دیکھ کے لگتا ہے جیسے خدا اسی ٹبے کی چوٹی پہ بستا ہو۔ تبھی تو خدا کو ڈھونڈنے والے یہاں کھنچے آئے۔ خاک کے اس ٹبے کو کیسا مقام نصیب ہوا۔

فریدا خاک نا نندیے خاک جیڈ نا کوئی
جیوندیاں پیراں تلے تے مریاں اوپر ہوئے

’ٹبہ نانک سر‘ مسلمانوں اور سکھوں کا سانجھا مسکن ہے۔ مسجد اور گردوارے میں چھوٹی سے دیوار ہے تو کیا ہوا۔ پڑوس تو ہے۔ صدیوں پرانا ساتھ تو ہے۔ بابا فرید اور بابا گرو نانک کے سنجوگ سے پھوٹی محبت اور ہمدردی میں کوئی دیوار نہیں۔

فریدا رکھی سکھی کھائی کے ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرائی چوپڑی تے نا ترسائیں جی

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments