اپنی آنکھ کا شہتیر


تیس جنوری بروز اتوار 2022 ؁ پشاور میں دو پادریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا جس میں ایک پادری صاحب سراج ولیم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا اور دوسرا شدید زخمی ہو گیا۔ میڈیا کے مطابق دہشت گرد گھات لگائے قریب ایک چھوٹے چرچ سے عبادت ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے جیسے ہی یہ لوگ چرچ سے باہر نکلے تو دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ یہ اس سال کا کوئی تیسرا یا چوتھا واقعہ ہے اس سے پہلے کوئٹہ میں ہمارے دس فوجی جوان شہید ہو گئے ہیں۔

حیرت اس بات کہ ہمارے وزیراعظم اس سے پہلے ہی مغرب کی دہری پالیسیوں اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے ٹویٹ کر چکے تھے اور چینی صحافتی وفد کو کشمیر سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کو زیر بحث لا چکے تھے۔ سوائے چین میں ہونے والے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے۔ دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا اندازہ کر لیں کہ انہیں باقی ہر جگہ ظلم نظر آتا ہے اور اپنے ملک میں جیسے دودھ کی نہریں بہتی ہیں، یہ صاحب پوری دنیا کو اسلامو فوبیا کا بھاشن تو ایسے دے رہے ہیں جیسے ہمارا اولین مسئلہ ء یہی ہے۔

خدا را دنیا کو پنے بھاشن سے نہیں اپنے عمل سے بتائیں کہ ہماری اخلاقیات کیا ہے۔ جب دہشت گردوں کو گود میں بٹھائے پھریں گے تو دنیا اتنی بے خبر بھی نہیں، انہیں سب نظر آتا ہے۔ سر آپ کی یہ دوغلی پالیسی زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ امن چاہتے ہیں تو امن قائم کریں۔ بات صرف اقلیتوں تک محدود نہیں ملک کے تمام شہری بھی اس کا شکار ہیں۔ جن لوگوں سے آپ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں وہ ہمارے لوگوں کے، ہمارے فوجی جوانوں کے، ہماری فورسز کے اور ہمارے معصوم بچوں یعنی اے پی ایس کے قاتل ہیں۔ سانپ سے دوستی کر کے آپ ڈسے نہ جائیں یہ ممکن ہی نہیں۔ اب یہ ڈرامہ بند ہونا چاہیے کہ یہ راء کر رہی ہے اور طاغوتی طاقتیں کر رہی ہے۔ اگر یہ دہشت گردی راء اور طاغوتی طاقتیں کر رہی ہیں تو آپ ان دہشت گردوں کو دہشت گرد کہنے کے لیے تیار نہیں آپ کیوں ان کو گود میں بٹھائے دودھ پلا رہے ہیں۔

آپ کی ان انتہاپسند پالیسیوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ نہ آپ کے ملک میں اقلیتیں محفوظ ہیں نہ عام امن پسند شہری۔ جس ارطغرل کو آپ نے اپنی پگڑی کا ترلا بنایا تھا وہ تو ہمارے دشمن سے بغلگیر ہو رہا ہے بلکہ اب تو موصوف اسرائیل سے بھی رومانس فرما رہے ہیں۔ نا جانے آپ کب سمجھیں گے سب سے پہلے پاکستان۔ مزید مذہبی کارڈ استعمال کرنا بند کریں، ملکی مفاد میں سوچیں۔ اپنی ایک بوٹی کی خاطر پورا کٹا حلال کرنے کی کوشش مت کریں۔

آپ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ جہاں تک کشمیر کی آزادی کا تعلق ہے تو وہ مذہبی کارڈ سے نہیں، خالصاً انسانی حقوق کی بنیاد پر کسی کنارے لگے گا۔ اپنا ملک درست ہو نہیں رہا چلے ہیں دنیا کو سمجھانے۔ میرے محترم دنیا فقیروں کو فیصلہ سازی میں نہیں لیتے اور ہم تو ویسے بھی مقروض قوم ہیں اور دنیا کی امامت کرنے کے قابل ہی نہیں پہلے معیشت بہتر کریں پھر امامت کے بارے میں سوچیں۔ اگر آپ کے اپنے ملک میں سب سے کمزور طبقہ محفوظ نہیں تو آپ بھی محفوظ نہیں۔ انڈیا میں جو ظلم مسلمانوں اور مسیحوں پر ہو رہا ہے پاکستان میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہو رہا ہے۔

پاکستان میں کم ہی کوئی ادارہ ہو گا جہاں کسی غیر مسلم کو ستایا نہ جاتا ہو۔ پہلے تو اسے دیکھ کر ایسے حیرت کا اظہار ہوتا ہے جیسے وہ خدا نخواستہ کوئی غیرملکی ہے پھر چند دنوں بعد اسے کوئی نہ کوئی مومن دعوت دے دیتا ہے اور گر وہ بیچارہ دعوت سے کسی عذر یا بہانے سے انکار کر دے تو اسے اس کی سیٹ سے ہٹانے کے پراپیگنڈے شروع ہو جاتے ہیں۔ آئے دن ایسے شکایات موصول ہوتی ہیں۔ میرے وزیراعظم صاحب اس رویے کو کس فوبیا میں ڈالیں گے۔

جس کا سب سے زیادہ شکار غیر مسلم بچیاں ہو رہی ہیں۔ والدین بچارے چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ بلاشبہ ملک کے ستانوے فیصد لوگ مسلمان ہیں اور انہیں اپنے دین کے حوالہ سے سیکھنا چاہیے لیکن باقی تین فیصد کو جبراً سکھانے کی کوشش تو نہ کریں۔ ملک میں سب گھٹن کا شکار ہیں آپ اگر واقعی ملک پاکستان کو مغرب سے اچھا سمجھتے ہیں تو ان سے اچھا بن کر بھی دکھائیں۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا نکالنے سے پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی چیک کر لیں۔

آپ کے اپنے ملک میں آپ کی اپنی اکثریت رہنا پسند نہیں کر رہے باہر سے سیاحوں کا آنا ویسے ہی ناممکن ہے اور وجوہات آپ کو بھی معلوم ہیں۔ اگر ملک میں امن اور خوشحالی ہوتو کس کا دل چاہتا ہے وہ ملک چھوڑ کر جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغرب میں اتنا ہی اسلامو فوبیا ہے تو غیر ممالک کی ایمبیسیاں ہمارے ملک چھوڑنے والے لوگوں سے بھری کیوں پڑی ہیں۔

صاحب! جان سب کو پیاری ہوتی ہے جہاں ہر طرف موت لاش بانٹ رہی ہو وہاں مردے رہ رہے ہوتے ہیں زندہ نہیں۔ باقی آپ نے چھوٹا سا تو کام کرنا ہے۔ وہ ہے منافقت سے باہر آ کر اور سچ جان کر رہنا ہے اور سچ یہ ہے ملک میں انتہاپسندی، دہشت گردی اور بدحالی، جس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں یعنی آپ کی پالیسیاں، جو آگ پر تیل ڈالنے کام کر رہی ہیں۔ پلیز پلیز پلیز۔ ہمیں ہمارا پرامن پاکستان لوٹا دیجئے۔ بائیس کروڑ عوام آپ کے احسان مند ہوں گے ۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments