کان سے دل تک آواز کا سفر


مادیت کے اس دور میں وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھ کے اس کی حرکت کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ کہا جاتا ہے اس کے لیے وقت ہی نہیں۔ انسان کی آماجگاہ معاشرہ ہے۔ معاشرہ کا لفظ ”عشرت“ سے ہے جس کے مطلب ”زندگی“ کے ہیں۔ ایک ایسا ماحول جہاں انسان کئی ایک رشتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ جس میں اصل انسان، اس کے والدین ہیں جن سے وہ فطری و قدرتی طور پہ جڑا ہوتا ہے۔ جن سے حسی و جسمانی قلبی و فکری ناتا ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں بہن، بھائی پھر شریک حیات ان سے مستزاد اجداد ددھیال و ننیھال و اولاد پوتا و پوتی نواسہ و نواسی سے مل کر ایک خاندان اور خاندان سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ انسان ایک ایسے ادارے کو جوائن کرتا ہے جہاں جزوی طور پر وہ اپنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور ظاہر کرنے میں وقت گزارتا ہے۔ جہاں استاذ وہم جماعت کی صورت میں اسے ایسے رشتے ملتے ہیں جو رفتہ رفتہ اسے افراد و زمانہ سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کتاب کا ساتھ بھی میسر آتا ہے اور اس کے ساتھ سے وہ تازگی اور جدا ہونے پہ قلق یعنی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ پھر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی جاب نیچر کی بناء پہ منسلک ہونے والے کولیگز، ملاقاتی ہوتے ہیں۔

ان میں سے ہر ایک کے سکھ، دکھ میں شریک ہو کر انسان تسکین محسوس کرتا ہے۔ اسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے وابستگی اتنی نہیں ہوتی لیکن ایک جیسی طرز زندگی چال چلن روایات و اقدار و مسکن و موطن ہونے کی بناء پہ ہر انسان دوسرے انسان سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے زبان دان انسان کے انسان کہے جانے کی وجہ ”ایک دوسرے سے مانوس ہونا“ بیان کرتے ہیں۔ جب مخلص و وفا شعار رشتے بچھڑتے ہیں تو دل غمزدہ اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں۔ یہی دور و نزدیک سے باہم انسان کو انسان سے منسلک کرنے والی وجہ جسے ”احساس“ کہا جاتا ہے جو دل کے غمزدہ اور آنکھوں کے اشکبار ہونے کا سبب بنتا ہے۔

انسان کی زندگی میں دو اہم چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ خوشی اور غمی۔ خوشی کا دوسرا نام مطمئن رہنا ہے، اپنے آپ میں اپنی حالت میں اپنی کیفیت میں۔ جس نے سپرد کر دیا وہ سپرد کر دیا گیا۔ اس کا اپنا آپ رب کے حوالے ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف آنسو تو لگتا ہے کہ شاید رونے سے ختم ہو جائیں گے رونے سے انسان ہلکان ہو جاتا ہے لیکن دکھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے اپنے آپ کو سنبھالیں کہ آپ سے بڑھ کر آپ کے روبرو آپ کے آنسو پونچھنے والا انسانوں میں کوئی نہیں ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھنے میں انسان ایسے ہی رشتوں سے توقع لگائے بیٹھا ہوتا ہے حالانکہ آپ کے غم درد اور تکلیف میں طنز کرنے والے بے شمار ہوتے ہیں پر کوئی اپنا نہیں ہوتا جو اس غم کو بانٹ لے۔ جو ہمت دے آسرا بنے، ہم غم اور ہم دم بنے۔ ایسے میں بھول جانا تو تب انسان کے بس میں ہو جب انسان خود کسی کو یاد رکھے یاد تو ایک انسان کو خود اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ لیکن آپ جان لیں کہ یہ کرب کا وقت قلیل ہے، بس اگلے ہی لمحے، لمحہ بدلنے والا ہے۔ اللہ سے اپنے لئے رحمت اور سکون ضرور مانگیں۔ اپنے اور دوسروں کے لئے بہتری اور اسی بہتری میں راضی رہنے کی توفیق بھی مانگیں، راستہ بس ایک ہی ہے۔ اللہ کا

اور انسانوں سے دل برداشتہ ہو کر انسان اسی کے سامنے پہنچتا ہے جو پہنچ جائے وہ کامیاب ہوتا ہے اس کا دکھ بھی سکھ بن جاتا ہے۔ غم نہ کریں۔ غموں کو سنبھالنے والا رب ہے۔ یقین رکھیں وہ آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کے غم میں بھی اور خوشی میں بھی۔

انسان اس دنیا میں اضافی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی انسان ایک عرصہ یوں سمجھتا رہتا ہے کہ اس کا وجود گھر والوں خاندان اور اس دنیا کے لیے اضافی ہے۔ ہرگز نہیں اضافی تو اس دنیا میں کوئی چیز بھی نہیں وہ بھی کائنات میں خوبصورتی کا سبب ہے چاہے وہ انمول موتی ہو یا کم تر ذرہ۔ موتی تو اپنا وجود منوا جاتا ہے اور دوسری طرف کم تر ذرہ بھی ہے جو انمول موتی کے اس دنیا میں باقی رہنے اس کی خوبصورتی اور چمک دمک جسے دیکھ کے لوگ اس کی طرف لپکتے ہیں ان سب خوبیوں کے لیے موتی کو کم تر ذرے کی ضرورت ہر صورت میں رہتی ہے۔

یاد رکھیں رشتوں کی بنیاد نفع و نقصان پہ نہیں احساس باہمی محبت پہ رکھی گئی ہے۔ جب سے ہم نے رشتوں کو نفع و نقصان کی جمع تفریق میں ڈھالا ہے۔ خاندانوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ خاندانی احترام نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ محفلیں تنہائیوں کی نظر ہو گئیں۔ اپنے اپنے نہ رہے بیگانے سے ہو گئے۔ وہ پل جو ان کے بغیر مشکل سے گزرتا تھا اب تیز رفتار ہوا کے جھونکے کی مانند گزر رہا ہے۔ یہ اپنوں سے شکوہ نہیں بلکہ یاد ماضی ہے جو کبھی کھلکھلاتا ہستا بستا آشیانہ ہوتا تھا۔

اب کہا جاتا ہے ترجیحات بدل گئی ہیں تو کسی کے پاس وقت نہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ دنیا میں ترقی ہوئی ہے اور مہینوں کا کام لمحوں میں ہوجاتا ہے۔ مگر وہ اپنے جن سے موروثی تعلق تھا ان کا ناتا یکسر کیسے ٹوٹ گیا۔ کیا خون سفید ہو گئے ہیں اور اپنے اپنے نہیں رہے۔ محبت بہت خوبصورت جذبہ ہے اور پاکیزہ رشتے کا ایک احساس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ دل کا ٹوٹنا رب سے جڑنا ہے۔ کیونکہ دل میں تو اللہ بستا ہے۔

وہ تمہیں توڑنا نہیں چاہتا بس اپنے قریب کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس لیے تمہیں لوگوں سے دور کرتا ہے تاکہ تم ٹوٹ کر چکنا چور نہ ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لیے بکھر کر نہ رہ جاؤ۔ اس لیے کچھ رکاوٹیں اس لیے ڈالی جاتی ہیں کہ کچھ آزمائشیں اس لیے آتی ہیں تاکہ تم ایسے لوگوں سے جڑو جو مخلص ہوں۔ جنہیں احساس ہو۔ جن کو آپ کی قدر نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ ان کو آپ سے دور کر دیتا ہے۔ وہ آپ کی مخلصی کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ تمہاری شدت سے واقف ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے جو تم پر بیت رہی ہوتی ہے۔ بے شک وقتی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سانس ابھی رک جائے اور زندگی قضا ہو جائے۔

پیاس کہتی ہے کہ اب ریت نچوڑی جائے اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے بہترین ہوتے ہیں۔ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ کبھی بھی کچھ بھی غلط نہیں کرتا۔ شیطان ورغلاتا ہے۔ اور مایوسی کے اندھیرے میں چھوڑ دیتا ہے۔ بس اس ذات پر یقین رکھنا چاہیے۔ جو اس پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے فیصلے مانتا ہے۔ وہ کمال کا ایمان رکھتا ہے۔ اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments