باپسی سدھوا کی کتاب : دیئر لینگوئج آف لو (Their Language of Love)


”دیئر لینگوئج آف لو“ ، باپسی سدھوا کی طویل کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ سدھوا کی پہلی زبان گجراتی ہے، دوسری زبان اردو اور تیسری زبان انگریزی ہے۔ مگر ان کا جملہ ادبی کام انگریزی میں ہے۔ جزیات نگاری، منظر کشی اور احساسات کو الفاظ دینے میں سدھوا ید طولٰی رکھتی ہیں۔ ”دیئر لینگوئج آف لو“ میں آٹھ طویل کہانیاں ہیں۔ جو طوالت کے باوجود اپنے اندر ریڈبیلیٹی کی صفت رکھتی ہیں۔

سدھوا بنیادی طور پر ناول نگار ہیں۔ اس لئے ان کی اکثر کہانیاں طوالت کی طرف مائل نظر آتی ہیں۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے خود بھی کتاب کے آغاز میں کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنی ایک طویل کہانی ”بریکنگ اٹ اپ“ کا کینوس پھیلا کر ”این امیرکن بریٹ“ نامی ناول بھی بنا چکی ہیں۔

”جنٹل مینلی وار“ کتاب میں موجود پہلی لانگ سٹوری ہے۔ یہ کہانی، پاکستان اور بھارت کے مابین سترہ دنوں پر محیط جنگ ستمبر 1965 ء کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ انھوں نے جنگ کے آغاز سے لے کر آخر تک کا، آنکھوں دیکھا حال تمام جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہانی میں کچھ دلچسپ واقعات بھی ملتے ہیں :

اس کہانی کے آغاز میں وہ راولپنڈی چھاؤنی میں موجود سٹیٹ گیسٹ ہاؤس (موجودہ آرمی ہاؤس) میں ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ عمارت حکومتی تسلط میں آنے سے قبل ”بروری لاج“ کہلاتی تھی اور 1960 کی دہائی کے آغاز میں ایوان صدر کے لئے ریکوزیشن ہو کر سٹیٹ گیسٹ ہاؤس بن گئی۔ اس وقت پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے تازہ تازہ راولپنڈی منتقل ہوا تھا۔ اسلام آباد میں ابھی زیر تعمیر تھا۔ یہ عمارت سٹیٹ گیسٹ ہاؤس بننے سے قبل باپسی سدھوا کے خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ یہ پارسی خاندان اس وقت پاکستان میں قائم واحد بروری کے مالک تھے۔

اس کہانی میں سدھوا جنگ کے آغاز کے دنوں کے ایک واقعے کا ذکر کرتی ہیں : کمانڈر ان چیف اور صدر جنرل ایوب خان نے ان کے خاندان کو بالمشافہ ملاقات کے لئے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں دعوت دے رکھی تھی۔ جب سدھوا، اپنی والدہ سارہ بائی اور بھائی رستم کے ساتھ طے شدہ وقت پر سٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچیں تو کافی انتظار کے با وجود بھی ان کی جنرل ایوب خان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس اثناء میں یہ لوگ اپنے گزشتہ گھر کے لاؤنج میں بیٹھے ان تصاویر کو دیکھتے رہے جو اس وقت تک تبدیل نہ ہوئیں تھیں۔

کافی انتظار کے بعد جنرل ایوب خان کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو نمودار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارتی مہمانوں کو بتایا کہ جنرل ایوب خان ایک ضروری جنگی اجلاس میں مصروف ہیں اور ملنے سے معذرت کی ہے۔ اس پر باپسی کی والدہ جن کو بھٹو نے مسز سیٹھی کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ دس لاکھ روپے کا چیک جنگی فنڈ میں پنڈی بروری کی جانب سے پیش کیا۔ بھٹو نے جب اتنی خطیر رقم کا چیک دیکھا تو ایک خوشگوار حیرت سے دو چار ہو گئے اور کہا کہ وہ صدر مملکت کو ان کے اس سخاوت بھرے عمل سے بذات خود آگاہ کریں گے۔ بھٹو نے کھڑے کھڑے شکریہ ادا کیا اور پھر وہ بھی شدید مصروفیت کا بنا کر رخصت ہو گئے۔ اور سدھوا وغیرہ اپنے پرانے مسکن کے در و دیوار کو دیکھتے ہوئے اور پرانی یادوں کی اداسی لئے واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔ یہ سدھوا کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوسری ملاقات تھی۔

سدھوا، ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتی ہیں :

”میں نے بھٹو کو پہلی دفعہ پنجاب کلب لاہور کے میخانے میں دیکھا تھا۔ سندھ کے ایک جاگیردار کا بیٹا، بھٹو ان دنوں ایک پلے بوائے کی شہرت رکھتا تھا۔ اس کے بارے میں جو اور باتیں گردش کر رہی تھیں ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ بھٹو شدید سیاسی عزائم رکھتا تھا۔ جس شام میرا بھٹو سے تعارف کروایا گیا اس وقت بھٹو پنجاب کلب کے میخانے میں کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اس کا چہرہ ہماری جانب تھا اس کے پاؤں سٹول کی کراس بار پر تھے اور اس کا ایک بازو ایک مے نوش دوست کے کندھے پر تھا۔

وہ اس وقت مشتاق نگاہوں کا مرکز نگاہ تھا۔ اس کا چہرہ بادہ نوشی سے روشن تھا اور اس کی آنکھوں سے امبر جیسی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس کے تین سال بعد میں نے بھٹو کو دوبارہ دیکھا اس دفعہ ہماری ملاقات بروری لاج راولپنڈی میں، یکسر مختلف حالات میں ہوئی۔ یہ 1965 ء کی جنگ کا زمانہ تھا۔ درمیانی عرصے میں مسٹر بھٹو جنرل ایوب خان کی مارشل لاء کابینہ میں ایک سمارٹ وزیر خارجہ بن چکے تھے۔ “

سدھوا اس جنگ کو ”جنٹل مینلی وار“ اس لئے کہتی ہیں کیونکہ دونوں اطراف کے مقاصد پورے نہ ہو سکے اور جنگ بھی سترہ دن کے مختصر عرصے میں اختتام پذیر ہو گئی۔

جنگی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنگ 1965 ء اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی شرارت اور جنرل ایوب خان کا ملٹری بلنڈر تھا۔ ہمارے نصاب کی کتابوں میں موجود یہ سبق حقائق پر مبنی نہیں : ”6 ستمبر 1965 ء کو بزدل دشمن نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر لاہور پر حملہ کر دیا جو لاہور میں موجود ہماری افواج پسپا کر دیا تھا۔“

اس کے بر عکس حقیقت کچھ یوں ہے کہ 6 اگست 1965 ء کو پاکستانی افواج لائن آف کنٹرول عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو چکی تھیں۔ یہ مقامات لائن آف کنٹرول پر ٹیٹوال، اوڑی اور پونچھ، جبکہ ورکنگ باؤنڈری پر چھمب سیکٹر تھے۔ اس پیش قدمی کو روکنے کے لئے ہندوستانی فوجی قیادت نے ایک خطرناک چال چلی۔ انھوں نے کشمیر سیکٹرز پر پاکستانی فوجی دباؤ کم کرنے کے لئے پنجاب میں یک بعد دیگرے لاہور اور سیالکوٹ پر جنگی محاذ کھولنے کا فیصلہ کیا۔

شہر لاہور کی خوش قسمتی کہ 6 ستمبر کو لاہور پر حملہ آور ہونے والی بھارتی سپاہ نے بی آر بی نہر کے اس پار مزید پیش قدمی روک دی۔ بھارتی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ نہر عبور کرنے کی صورت میں بھارتی افواج، پاکستانی فوج کی جانب سے ”ڈبل انولیپمنٹ“ کا شکار ہو جائیں گی۔ اور پسپائی کی صورت میں واپس ہندوستان کی جانب جانے کے لئے بی آر بی نہر پر قائم پل ناکافی تھا۔ بھارتی افواج کے کمانڈروں کے خیال میں پاکستانی فوج بھارتی افواج کو گھیرا ڈالنے کے لئے تاک لگا کر بیٹھی تھیں۔

مگر حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ کسی بھی انٹیلی جنس ذرائع کی مستند خبر کے بغیر ایسا سمجھ لینا بھارتیوں کو بہت مہنگا پڑا۔ انھوں نے بہت بڑا ملٹری بلنڈر کر دیا تھا۔ انھوں نے پاکستانی افواج کو اپنے دفاع کی تیاری کے لئے پورا ایک دن اور ایک رات دے دی تھی۔ یوں پاکستان کی طرف سے لاہور کی حفاظت پر مامور فوج اپنی پوزیشن پر پہنچ گئی۔ بھارتی سپاہ کو اپنی غلطی کا ادراک ہوا۔ انھوں نے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کی مگر پاکستانی دفاع میں دراڑ نہ ڈال سکیں۔

البتہ سیالکوٹ سیکٹر پر دونوں اطراف سے ٹینکوں کی ایک بھرپور جنگ ہوئی۔ مگر وہاں بھی کسی طرف کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ یوں یہ شریفانہ جنگ سترہ دن کی قلیل مدت میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی مداخلت پر ایک سیز فائر کے ذریعے بے نتیجہ اختتام پذیر ہوئی اور بھارتی فوجی قیادت کا جم خانہ لاہور میں چیئرز کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

گہرے احساسات کو الفاظ دینے کا فن اور کہانی کے بیچ کہانی بیان کرنے کے رمز سے سدھوا خوب واقف ہیں۔ باپسی سدھوا کی نو تصنیفات ہیں۔ انھوں نے پہلا ناول، دا کرو ایٹرز، 1978 ء میں لکھا تھا۔ ان کے مشہور ناولوں میں، دا برائڈ، واٹر اور اومنی بس شامل ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب، لینڈ سکیپ آف رائٹنگ، 2018 ء میں چھپی۔ چونکہ ان کی کہانیوں کے جملہ کردار خواتین ہیں شاید اس لئے سدھوا فیمینسٹ رائٹر کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں ادب، ادب ہوتا ہے۔ اس کو تذکیر و تانیث کے خانوں میں بانٹنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی کہانیوں کے پلاٹ اصلی واقعات اور اپنی ذاتی زندگی میں پیش آنے والے واقعات سے نمودار ہوتے ہیں۔ اس وجہ ان کی تخلیق کردہ کہانیوں کی عالم گیریت کسی قدر متاثر بھی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments