شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھی

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق


شاہ جہاں
شاہجہاں کی تاج پوشی 14 فروری 1628 کو ہوئی تھی
ہندوستانی مصنفین عام طور پر 1628 میں آج کے دن پانچویں مغل بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہونے والے شہاب الدین محمد خرم المعروف شاہ جہاں کو ایک مثالی مسلم بادشاہ قرار دیتے ہیں کہ مغل دربار کی شان و شوکت ان کے دور میں اپنے عروج کو پہنچی لیکن انھوں نے ایسے اثرات بھی چھوڑے جو بالآخر سلطنتِ مغلیہ کے زوال کا باعث بنے۔

مغل بادشاہ جہانگیر اور راجپوت شہزادی من متی (لقب بلقیس مکانی بیگم) کے بیٹے شاہ جہاں اپنے دادا اکبر اعظم کی حکومت کے 36 ویں سال میں پانچ جنوری 1592 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت لاہور مغل سلطنت کا دار السلطنت تھا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم 1586 سے مغل شاہی خاندان کے ساتھ یہیں مقیم تھے۔

پیدائش کے چھٹے روز جہانگیر نے اپنے والد جلال الدین اکبر کو دعوت دی کہ وہ نوزائیدہ بچے کا نام تجویز کریں۔ شہنشاہ اکبر نے بچے کا نام خرم رکھا اور اپنی بے اولاد بیوی رقیہ سلطان بیگم کے حوالے کر دیا کہ وہ اِس کی تربیت کریں۔ شاہ جہاں ابتدائی ایام سے ہوش سنبھالنے تک اور ہوش سنبھالنے کے بعد تین سال تک رقیہ سلطان بیگم کے زیرسایہ پروان چڑھتے رہے۔

ڈاکٹر بنارسی پرساد سکسینہ لکھتے ہیں شاہ جہاں کا ذہن اپنے والد کی نسبت عملی تھا۔ ذہن تیز اور حافظہ غیر معمولی تھا۔ تفصیل پسندی کی خاص صلاحیت تھی جو مرتے دم تک اُن کے ساتھ رہی۔

سواری اور تیغ زنی کی مشقیں بھی کیں اور روزانہ ورزش اُن کا معمول بن گئی۔ وہ تیر کمان اور بندوق کے استعمال کے ماہر تھے۔ ان کی آواز شیریں تھی، فصاحت کے ساتھ فارسی زبان بولنے پر قدرت حاصل تھی۔

تخت کے ممکنہ وارثوں کا قتل

جہانگیر تین نومبر 1605 کو مغل شہنشاہ بنے۔ اِس تخت نشینی کے ساتھ ہی ان کے پہلے بیٹے خسرو مرزا کی بغاوت شروع ہو گئی۔ تزکِ جہانگیری میں لکھا ہے کہ خسرو نے لاہور کا محاصرہ کر لیا جس کا دفاع دلاور خان نے کیا۔

جہانگیر جلد ہی ایک بڑی فوج کے ساتھ لاہور پہنچے اور بھیرووال کی لڑائی میں خسرو کو شکست ہوئی۔ خسرو اور ان کے ساتھیوں نے کابل کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، لیکن چناب کو عبور کرتے ہوئے جہانگیر کی فوج کے ہاتھوں پکڑے گئے۔

خسرو کو سب سے پہلے دہلی لایا گیا، جہاں انھیں ہاتھی پر شاندار انداز میں بٹھا کر چاندنی چوک تک لے جایا گیا۔ گلی کے دونوں طرف ان کا ساتھ دینے والوں کو نیزوں پر پرویا گیا۔ خسرو یہ بھیانک منظر دیکھنے اور ان لوگوں کی چیخ پکار سننے پر مجبور تھے۔ یہ عمل متعدد بار دہرایا گیا۔

ودیا دھرمہاجن اور ایلیسن بینکس فاینڈلی کے مطابق خسرو کی آنکھیں پھوڑ کر آگرہ میں قید کر دیا گیا۔ تاہم ان کی بینائی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ 1616 سے 1620 تک وہ شاہ جہاں کے سسر اور ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کی تحویل میں رہے۔ 1620 میں انھیں شاہ جہاں کی تحویل میں دے دیا گیا اور 26 جنوری 1622 کو شاہ جہاں کے حکم پر خسرو کو دکن میں قتل کر دیا گیا۔

آر پی ترپاٹھی اپنی کتاب ’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘ میں لکھتے ہیں کہ گلا گھٹوا کر مارا گیا مگر مشہور یہ کیا گیا کہ وہ قولنج کے درد سے مرے۔

شاہ جہاں کو سرخ خیمہ نصب کرنے کی اجازت

خسرو کی بغاوت ختم کر کے جہانگیر نے لاہور میں قیام کیا۔ ڈاکٹر بنارسی پرساد سکسینہ لکھتے ہیں کہ قیامِ لاہور کے دوران ہی شاہ جہاں کو 21 مارچ 1607 کو پہلا فوجی منصب یعنی ہشت ہزاری ذات اور پنج ہزاری سوار مع طومان، تیغ و طبل و علم تفویض ہوئے۔

نومبر 1607میں شاہ جہاں کو اُجین کی جاگیر اور حصار فیروزہ کی سرکار دی گئی۔ اِس کے علاوہ شہنشاہ جہانگیر کی طرف سے شہزادے کو یہ اجازت دِی گئی کہ وہ سرخ خیمہ نصب کرسکتا ہے (یہ اجازت خصوصاً سب سے بڑے شہزادے کو دی جاتی تھی)۔

شاہ جہان اور انکی بیگم ممتاز

شاہ جہان اور انکی بیگم ممتاز

اِن اعزازات کے علاوہ ایک شاہی مہر اُن کے سپرد کر دی گئی اور حکم دِیا گیا کہ جملہ فرامین اور پروانوں پر اُن کی مہر ضرور ثبت ہونی چاہیے۔ 27 مارچ 1612 کو ملکہ نور جہاں کے مشورے پر شہنشاہ جہانگیر نے شاہ جہاں کو 12 ہزار ذات اور پانچ ہزار سوار کا منصب عطا کیا۔

ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں نے نور جہاں سے تب رنجش رکھنا شروع کی جب ملکہ نے اپنے سابقہ شوہر سے پیدا ہونے والی بیٹی لاڈلی بیگم کو جہانگیر کے سب سے چھوٹے بیٹے شہریار سے 1620 میں بیاہ دیا۔ یہ بات قدرتی طور پر فرض کر لی گئی کہ ملکہ اب اپنا اثر و رسوخ اپنے داماد کی طرفداری میں استعمال کریں گی۔

بینی پرشاد نے لکھا کہ ’شاہ جہاں کے دوسرے بڑے بھائی پرویز مرزا 37 سال کی عمر میں شراب نوشی اور عیش و عشرت کی کثرت سے تباہ ہو چکے تھے۔ سنہ 1626 میں پرویز شدید بیمار تھے۔ ان کی موت 38 سال کی عمر میں ہوئی۔ ایک اور وارث کے راستے سے ہٹ جانے پر فوری طور پر شاہ جہاں کے ہاتھوں زہر دیے جانے کا شبہ کیا گیا۔ سنہ 1622 میں خرم جانشینی جیتنے کے لیے پرجوش بغاوت کرتے رہے۔ سنہ 1625 میں جہانگیر سے صلح کرنے تک سلطنت میں بے اثر گھومتے رہے۔‘

ترپاٹھی نے بہت سے واقعات لکھے جن سے پتا چلتا ہے کہ شاہ جہاں زیادہ تر بغاوت پر آمادہ رہے۔ جہانگیر نے ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’اس نامبارک شخص نے اپنی سلطنت کے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار رکھی ہے۔‘

جہانگیر کی وفات اور چار شہزادوں کا قتل

جہانگیر کی وفات کے وقت شاہ جہاں جُنَّار (یا جُنَّیر) کے مقام پر تھے۔ جی پی ٹیلر نے لکھا کہ جہانگیر کی وفات کے بعد شاہ جہاں کے سسر آصف خان نے اُن کے بھائی خسرو مرزا کے بیٹے داور بخش کو تخت پر بطور مغل شہنشاہ بٹھا دِیا۔

جہانگیر کی وفات کے وقت ترپاٹھی کے مطابق شہزادہ شہریار لاہورمیں اپنے بالوں کے گرنے کا علاج کروا رہے تھے۔ ’لاہورمیں شہریار نے اپنی حماقت کے سبب خود کو شہنشاہ مشہور کر دیا اور اپنے نام کے سکے جاری کروا دیے۔ امرا اور سپاہیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے 15 دن کے مختصر عرصے میں ان میں 70 لاکھ روپے تقسیم کر دیے۔‘

ادھر جی پی ٹیلر کے مطابق داور بخش کے لیے مسند عارضی ثابت ہوئی اور جب خاندان کے دوسرے شہزادے یعنی دانیال مرزا کے بیٹے ہوشنگ مرزا، طہماسپ اور طہمورث شاہ جہاں کے زیرِ عتاب آئے تو آصف خان نے داور بخش کو ایران فرار ہو جانے کا موقع دے دیا۔

لیکن یہ موقع اُن کے لیے پائیدار ثابت نہ ہو سکا اور اسی دوران لاہور میں 30 دسمبر 1627 کو شاہ جہاں کو مغل شہنشاہ تسلیم کر لیا گیا اور 23 جنوری 1628 کو شاہ جہاں کے حکم پر لاہور میں چاروں شہزادوں کو قتل کر دیا گیا۔

ترپاٹھی کہتے ہیں: ’آصف خان نے شاہ جہاں کی خواہش پر شہزادوں کو قتل کروا دیا اور لاہور میں شاہ جہاں کا خطبہ پڑھوایا۔ شاہ جہاں نے اپنے وحشیانہ اور شیطانی فعل قتل و غارت گری سے ایک ایسی خطرناک رسم کی بنیاد ڈال دی جس نے بابر کے خاندان کی قوت اور مغل سلطنت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا تھا۔ اگرچہ اور لوگ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھنے کو زندہ نہ رہے لیکن شاہ جہاں نے اپنے کیے کا پھل ضرور پایا۔‘

مہنگی تاج پوشی اور شاہ جہاں کے روزمرہ کے معمولات

ترپاٹھی لکھتے ہیں: ’آخرکار بھائیوں، عزیزوں اوربھتیجوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر شاہ جہاں آگرہ میں تخت نشین ہوئے۔ تخت نشین ہو کر سجدے کی رسم کو ختم کر دیا۔ اپنا نیا سنہ شروع کیا۔ اپنی تاج پوشی کے موقع پر ایک کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کیے۔ اس رقم میں سے 30 لاکھ امرا کو ملی اور باقی تحفوں کی شکل میں شاہی خاندان کے حصہ میں آیا۔ نور جہاں کے لیے دو لاکھ روپے کی سالانہ پنشن مقرر کر دی گئی۔‘

ملا محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہاں نامہ میں شاہ جہاں کی تخت نشینی کے بعد اُن کے روزمرہ کے معمولات پر مفصل بیان لکھا ہے۔

’شاہ جہاں طلوع آفتاب سے دو گھنٹے قبل بیدار ہوتے، خود وضو کر کے خلوت گاہ سے متصل مسجد میں فجر کی نمازِ سنت اور پھر نماز فرض ادا کرتے۔ اِس کے بعد دعائیں اور وظائف ادا کرتے اور اِس تسبیح خوانی سے فراغت کے بعد حرم سرا میں آ جاتے تھے۔

طلوع آفتاب کے وقت دریائے جمنا کے رُخ مشرقی دریچے میں جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو درشن دیتے تھے۔ اُس وقت ہر شخص کورنش بجا لاتا اور ہر مظلوم کو بلا روک ٹوک کے شہنشاہ سے عرض کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ پھر جھروکے سے اُٹھ کر دربارِ خاص و عام میں آ جاتے اور اِس ایوان کے دروازوں پر ہیبت ناک داروغے پہرے پر موجود ہوتے تھے جو بغیر کسی اجازت کے کسی فرد کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔

’اِس ایوان میں وزرا مختلف ملکی و مالی مہمات انجام دینے والے اشخاص جمع ہوتے تھے اور معاملاتِ حکومت شہنشاہ کے گوش گزار کرتے تھے۔ اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد صوبیداروں کی درخواستیں دیکھنا ہوتی تھیں اور اِن درخواستوں پر مہر ثبت کرنا ہوتی تھی۔

اِس ایوان میں پانچ گھڑی قیام کے بعد اُٹھ کر نشیمن چلے جاتے جہاں مقربوں یا امرا کے سوا کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں دیوانِ مالِ خالصہ محالات کے آمد و خرچ کی تفصیل اور جاگیرداروں کی تنخواہ کا حساب شہنشاہ کو پیش کیا جاتا تھا۔

اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد جواہرات دیکھنے، گانا سننے یا تعمیرات کے متعلق احکامات جاری کرنے میں وقت بسر ہوتا تھا۔ اِس کے بعد شاہ جہاں شاہ برج میں چلے جاتے جہاں نشست محض چار یا پانچ گھڑی ہوتی تھی۔ شاہ برج میں شہزادے یا وزیر اعظم ہی ملاقات کر سکتے تھے۔

فوٹو

شاہجہان کے دربار کی خیالی تصویر

دوپہر بارہ بجے محل سرا میں آتے اور کھانا تناول کرنے کے بعد قیلولہ اور قیلولہ کے بعد نمازِ ظہر کی ادائیگی ہوتی تھی۔ ظہر کے بعد ملکہ ممتاز محل کے ذریعے سے بیوہ اور بے سہارا خواتین کی امداد کرنی ہوتی تھی کہ اُنھیں نقد و جنس یا اراضی عطا کی جائے۔

نمازِ عصر کے بعد نشیمن جانا ہوتا تھا اور نمازِ مغرب سے چار گھڑی بعد تک اُمور دین و دنیا میں وقت صرف ہوتا تھا۔ اِسی نشست میں کبھی کبھار شہنشاہ ہندی موسیقاروں سے راگ بھی سن لیا کرتے تھے۔

اِس نشست کے بعد نمازِ عشا کی ادائیگی اور اُس کے بعد محل سرائے شاہی میں چلے جانا معمول تھا۔ شب کے وقت پردے کے پیچھے سے اشخاص خواب گاہ میں شخصیات کی سوانح عمریاں، واقعات تاریخ اور زمانہ ٔ ماضی کے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ لباس ہمیشہ معطر رہتا تھا اور نشست بخور یا روح افزا عطریات سے معطر رہتی تھی۔‘

معمار شہنشاہ

شاہ جہاں میں تعمیر کا جذبہ ایسا تھا کہ معمار شہنشاہ معروف ہوئے۔ اپنے پہلے دارالحکومت آگرہ میں دو عظیم مساجد، موتی مسجد اور جامع مسجد کے ساتھ ساتھ تاج محل کے نام سے مشہور مقبرہ کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔

تاج محل ان کے دور حکومت کا شاہکار ہے جو انھوں نے اپنی تینوں رانیوں میں پسندیدہ ترین، ارجمند (ممتاز محل؛ آصف خان کی بیٹی، ملکہ نور جہاں کی بھتیجی اور اورنگ زیب کی والدہ) کی یاد میں تعمیر کیا۔

شادی کے محض 19 برس بعد چودھویں زچگی کے دوران 38 برس کی عمر میں 17 جون 1631 کو ممتاز محل کی وفات جریان خون کے باعث ہوئی تھی۔

اپنے دوسرے دارالحکومت دہلی میں، شاہ جہاں نے ایک بہت بڑا قلعہ دار محل، لال قلعہ اور ساتھ ہی ہندوستان کی بہترین مساجد میں سے ایک جامع مسجد تعمیر کروائے۔ لاہور کا شالامار باغ بھی ان ہی کے دور میں بنا۔

یہ بھی پڑھیے

’تاج محل مغل لٹیروں کی نشانی ہے‘

نور جہاں: مغل ملکہ جو حقوق نسواں کی علمبردار کہلائيں

بادشاہ اورنگزیب اور ان کے بارے میں پھیلی ’غلط فہمیاں‘

فنونِ لطیفہ کے فروغ کا دور

شاہ جہاں جہانگیر یا اپنے دادا اکبر سے زیادہ لیکن اپنے بیٹے اورنگ زیب سے کم راسخ العقیدہ تھے۔ وہ اپنی ہندو رعایا کے لیے نسبتاً روادار حکمران ثابت ہوئے۔

شاہ جہاں کا دور ادبی سرگرمیوں، مصوری اور خطاطی کے فنون کے فروغ کا دور تھا۔ فنون کے تاریخ دان میلو بیچ کے مطابق ’وہ زیورات کے ماہر کے طور پر مشہور تھے۔ انھیں فنون لطیفہ کے لیے فرصت میسر تھی اور شاید وہ خود بھی جواہرات تراشتے تھے۔ ان کے زیورات کا مجموعہ شاید دنیا میں سب سے شاندار تھا۔‘

قحط سے دو لاکھ افراد کی موت

شاہ جہاں کی حکومت کے چوتھے اور پانچویں سال مغل ریاستوں دکن اور گجرات میں قحط پڑا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں جس سے لاکھوں افراد قلت خوراک کے باعث ہلاک ہوئے۔

عبدالحمید لاہوری نے اس قحط کی ہولناکیوں کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’ہاتھ کھانے کی بھیک مانگنے کو بڑھے ہوئے تھے۔ ایک مدت تک کتے کا گوشت بکرے کے گوشت کے عوض بیچا گیا اور مردوں کی ہڈیوں ملا آٹا فروخت کیا گیا۔‘

قحط کی تفصیلی تصویر ایک انگریز سیاح پیٹر منڈی نے بھی پیش کی جس نے تجارتی سرگرمیوں کے لیے سورت سے آگرہ اور پٹنہ کا سفر کیا تھا۔

’سورت میں بیماری اتنی جان لیوا تھی کہ 21 انگریز تاجروں میں سے 17 مر گئے۔ سورت اور برہان پور کے درمیان راستے کا ایک بڑا حصہ زمینی تھا۔ قصبوں میں مردوں کو ’ایڑیوں کے سہارے باہر گھسیٹا جاتا تھا اور وہاں چھوڑ دیا جاتا تھا کہ راستہ آدھا روکا جاتا تھا۔‘

اس دوران برہان پور میں شاہ جہاں کا پڑاؤ ہر قسم کے عیش و آرام کے سامان سے بھرا ہوا تھا۔ لاہوری کے مطابق شہنشاہ نے چند کچن کھولے اور 20 ہفتے کے عرصے میں ڈیڑھ لاکھ روپے خیرات میں دے دیے۔ شاہ جہاں نے زمینی محصول کے تخمینہ کا گیارہواں حصہ بھی واپس کر دیا۔

مہمات

شاہ جہاں اپنی 30 سالہ حکومت کے دوران لگ بھگ 15 سال کسی نہ کسی مہم کے لیے دارالسلطنت سے باہر رہے۔

جون 1631 سے اکتوبر 1632 تک چار مہینوں کے محاصرہ کے بعد پرتگالیوں سے دریائے ہُگلِی کی بندرگاہ چھین لی گئی جن پر اُن کا کافی عرصہ سے قبضہ چلا آ رہا تھا۔

شاہ جہاں کا دور حکومت دکنی ریاستوں کے خلاف کامیابیوں کے لیے قابل ذکر تھا۔ سنہ 1636 تک احمد نگر کا الحاق ہو چکا تھا اور گولکنڈا اور بیجا پور کو خراج پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ مغل اقتدار کو شمال مغرب میں بھی عارضی طور پر بڑھا دیا گیا۔

1638 میں قندھار کے فارسی گورنر علی مردان خان نے اس قلعے کو مغلوں کے حوالے کر دیا۔ 1646 میں مغل افواج نے بدخشاں اور بلخ پر قبضہ کر لیا لیکن 1647 میں بلخ کو چھوڑ دیا گیا اور 1649، 1652 اور 1653 میں اسے دوبارہ فتح کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

ایرانیوں نے 1649 میں قندھار پر دوبارہ قبضہ کیا۔ بلخ اور بدخشاں کی مہمات اور قندھار کی بازیابی کی کوششوں نے سلطنت کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا۔

بیماری اور معزولی

ستمبر 1657 میں شاہ جہاں بیمار ہو گئے۔

ملا محمد صالح کمبوہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے صوبوں میں امن و امان تھا کہ اچانک شاہ جہاں کی علالت نے ملک کی سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دِیا۔

16 ستمبر 1657 کو شاہ جہاں پیشاب رکنے کے عارضے میں مبتلاہوئے۔ اِسی سبب پاؤں میں وَرم نے مرض کو بڑھا دِیا۔ علاج معالجہ جاری رہا مگر مرض جوں کا توں رہا۔

علاج سے نو دن بعد شاہ جہاں نے بستر علالت سے دربار میں قصر شاہی کے جھروکے سے درشن کروایا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اورنگزیب واقعی ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟

داراشکوہ: شاہ جہاں کا لاڈلا ’مفکر، شاعر اور صوفی‘ ولی عہد

جہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنی

جانشینی کی جدوجہد اور اورنگ زیب کی جیت

باپ کے بیمار ہونے کے بعد شاہ جہاں کے چار بیٹوں، دارا شکوہ، مراد بخش، شاہ شجاع اور اورنگ زیب کے درمیان جانشینی کے لیے جدوجہد ہوئی۔ اس سیاسی چپقلش میں اورنگ زیب فاتح رہے۔

انھوں نے 1658 میں خود کو شہنشاہ قرار دیا اور شاہ جہاں کو 1666 میں ان کی موت تک آگرہ کے قلعے میں قید رکھا۔

روایت ہے کہ اورنگ زیب نے حکم دیا کہ ان کے والد کو ان کی پسند کی صرف ایک خوراک کی اجازت ہو گی اور شاہ جہاں نے چنوں کا انتخاب کیا۔

ابراہام ایرالی اپنی کتاب دی مغل تھرون میں لکھتے ہیں کہ اورنگ زیب کے ہاتھوں معزول ہونے پر بیٹے نے شاہ جہاں پر طنز کیا کہ ’تم اب بھی خسرو اور پرویز کی یاد کو کیسے مانتے ہو، جنھیں تم نے اپنے تخت سنبھالنے سے پہلے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور جنھوں نے تمہیں کسی قسم کی چوٹ نہیں پہنچائی تھی؟‘

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بنیادی ذمہ دار

ہریش چندر کے مطابق شاہ جہاں کےدور میں مالیاتی وصولیاں مغلیہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں لیکن اشوتوش آڈیچیا اور ڈاکٹر انشل شرما کی تحقیق ہے کہ شہنشاہ کا اسراف سے بھرپور طرز زندگی، آرٹ اور فن تعمیر کے فروغ کے لیے بھاری اخراجات، ٹیکسوں کے لیے بہت زیادہ دباؤ اور فوج اور شاہی عمال کی بڑھتی ہوئی بدعنوانی نے شاہ جہاں کے دور حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد شدید مالی کساد بازاری پیدا کی۔

بہت سے مؤرخین کی رائے ہے کہ ان وجوہات کی بنا پر شاہ جہاں کو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کا بنیادی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

مؤرخ ڈاکٹر اے ایل سریواستو نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں کے دور کو آرٹ اور فن تعمیر کے حوالے سے ہندوستانی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا جا سکتا ہے تاہم ان کی رائے ہے کہ شاہ جہاں کے دور میں انتظامیہ بدعنوان اور اشرافیہ لالچی ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر ایس آر شرما کے مطابق شاہ جہاں نے بحیثیت حکمران قومی وسائل کو پانی کی طرح بہایا۔ اخراجات پورا کرنے کے لیے لوگوں کو بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

’شاہ جہاں: مغل سلطنت کا عروج و زوال‘ میں فرگس نکول نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں وہ شخص ہے جس نے تخلیقی صلاحیتوں کو مغل بادشاہوں میں عروج پر پہنچایا۔ تاریخ میں انھیں اس طرح یاد کیا جاتا ہے مگر یہی بادشاہ مغل سلطنت کے زوال کا ذمہ دار بھی تھا۔

تاج محل

انڈیا میں جتنے سیاح آتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی تاج محل کو دیکھنے کے لیے بھی آتے ہیں

’تاریخی مغالطے: شاہ جہاں کا دور: سنہری دور‘ کے عنوان سے کی جانے والی رخسانہ افتخار کی تحقیق بتاتی ہے کہ ’شاہ جہاں کے دور حکومت میں سلطنت کی مجموعی آمدنی کا 36.5 فیصد 68 شہزادوں اور امیروں کو تفویض کیا گیا۔ مزید 25 فیصد 587 افسران کو۔ گویا سلطنت کی کل 22 کروڑ روپے آمدن کا 62 فیصد 665 افراد کے تصرف میں تھا۔ چنانچہ یہ دور بادشاہوں، شہزادوں یا ان افراد کے لیے سنہری دور تھا جبکہ ہندوستان کی رعایا، اس ریاست کے حقیقی متولی، روٹی کے ٹکڑے سے بھی محروم رہے۔‘

فرانس کے طبی ماہر فرانسس برنیئر 1658 سے 1670 تک ہندوستان میں رہے۔ یہ شاہ جہاں کا آخری زمانہ تھا۔ برنیئر نے ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671 میں پیرس سے چھپا۔

برنیئر نے لکھا تھا کہ ’بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔

’ہندوستان میں مڈل کلاس طبقہ سرے سے موجود نہیں، ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امرا محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی۔ جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments