میں چپ نہیں رہوں گی


مجھے شراب اور شراب پینے والے دونوں سے نفرت ہے۔ شراب پی کر انسان اشرف المخلوقات کے درجے سے لڑھک کر قعر معزلت میں آ گرتا ہے۔ حیوان سے بدتر ہوجاتا ہے۔ پدر سری معاشرے کا مرد تو یونہی خود کو مختار کل سمجھتا ہے اس دختر رز کے خمار میں تو فرعون ہی بن جاتا ہے۔ میں نے یہ فرعونیت اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ میری خالہ مراد بی بی کے اوپر قہر ڈھاتی بربریت، میری بڑی بہن نازاتون کے تن ناز پر برستی رذالت کی قمچیاں، اور ان سب کے پیچھے ان کے سرتاج کی نشے کی کہانیاں، اور نشہ ہرن ہونے بعد جھوٹی توبہ کی لن ترانیاں۔ میں اپنی ماں سے الجھتی آخر خالہ اور بہن اس زیادتی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتیں۔

اماں ہمیشہ آہ بھر کر کہتیں ”نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے“ ۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا مظلوم کی فریاد شنیدہ ہو سکتی ہے، ظالم کا باتھ روکا جاسکتا ہے، بس اس کے لیے 1100 ڈائل کرنا ہو گا وزارت سماجی خدمات کی یہ ہاٹ لائن فار ڈومیسٹک وایولینس دست ظالم کی مستی و جوش کو صلب کرنے کے لئے اور خاک بہ سر، خوں بداماں مظلوم عورت کی دادرسی کے لئے شروع کی گئی ہے۔ عمان میں گھریلو تشدد کے لئے علیحدہ سے قانون موجود نہیں کیونکہ ماضی میں اس قباحت کی موجودگی سے اغماض کیا گیا۔

سماجی تنظیمیں گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کے لئے پیہم برسر پیکار ہیں۔ فی الوقت بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل 20، 37 اور 266 کے تحت تشدد کے خلاف رپورٹ کی جا سکتی ہے جس کے تحت کسی شخص کو دوسرے پر تشدد کی اجازت نہیں۔ یہ باتیں مجھے ایک سماجی تنظیم کی نمائندہ خاتون نے بتائیں۔ اس نے کہا کہ ایک اربن کراس سیکشنل اسٹڈی کے مطابق 29 فیصد عمانی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ وہ خواتین پر گھریلو تشدد پر سروے پر مشتمل سوالنامے تقسیم کر رہی تھیں۔

یہ تشدد جسمانی کے علاوہ نفسیاتی جبر یا مالی ضرر بھی ہو سکتا ہے۔ اس سروے کے نتائج مخصوص قانون سازی کے لئے مدد گار شہادت فراہم کر سکتے تھے۔ یہ سوالنامے شناخت ظاہر کیے بغیر پر کیے جا سکتے تھے۔ میں نے اپنی خالہ اور بہن کی جانب سے سوالنامے کے جوابات لکھے اور پرجوش ہو کر انہیں بتایا کہ ڈبل ون ڈبل زیرو ان کا چارہ گر ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میری ماں نے خالہ اور بہن کو ایسا کوئی قدم اٹھانے سے باز رہنے کی تاکید کی۔ انہوں نے کہا

”گھر کی بات باہر نہیں اچھالی جاتی اور پھر جس شوہر کو سزا دلائی کیا وہ اپنے گھر میں رکھے گا۔ ایسی عاقبت نا اندیشی وہ کرے جسے گھر نہ بسانا ہو اور بچوں کی زندگی برباد کرنی ہو۔“

پر کیے گئے فارم واپس کرتے ہوئے میں نے مایوسی سے سماجی تنظیم کی نمائندہ کو یہ بات بتائی تو اس نے افسردگی سے کہا کہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین میں سے صرف چھ فیصد رپورٹ کرتی ہیں۔ کچھ اسے مردوں کا حق سمجھتی ہیں کچھ بچے چھین لئے جانے اور معاشی مسائل سے خوفزدہ ہو کر ایسا کرتی ہیں۔ اسٹڈی کے مطابق گھریلو تشدد کے محرکات میں مردوں کی شراب نوشی، کم تعلیم اور عورتوں کا معاشی طور پر مردوں پر انحصار شامل ہیں ”۔ ہم آگہی کا علم بلند کیے رکھیں گے اور عورت کی تعلیم اور معاشی خود انحصاری کے لئے کام کرتے رہیں گے۔“ اس نے کہا۔ عمانی حکومت جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف بہت متحرک ہے۔ عمان میں جینڈر ایکویلٹی انڈیکس 3۔ 0 ہے جو بہت سے عرب ممالک سے بہتر ہے

میں نے سوچ لیا میری زندگی میں مرد کے گھمنڈ کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ میں نے تعلیم حاصل کی اور ملازمت کر کے معاشی خود انحصاری حاصل کی۔

ایک روز فارغ وقت میں انٹرنیٹ پر مشغول تھی کہ ایک فرینڈ ریکوئسٹ موصول ہوئی۔ ہینڈسم گھبرو نوجوان کی آئی ڈی پر دل یوں دھڑکا کہ انگلی کو کنفرم کا بٹن دبانے سے نہ روک سکی۔ بہرام سے باتیں ہونے لگیں۔ باتیں جن میں جادو تھا۔ جادو بھی وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جب یہ جادو بغاوت بنکر اماں کے سامنے تن کر کھڑا ہوا تو اماں کے تو مانو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اماں پرانے زمانے کے خیالات رکھتی تھیں انہیں امید نہیں تھی کہ یوں اپنا بر منتخب کر کے فیصلہ صادر کردوں گی۔

بہرام بھی ہماری طرح بلوچ تھا اور تربت پاکستان سے تعلق رکھتا تھا جہاں میری اماں کے کچھ رشتے دار تھے۔ تھوڑی سی چھان پھٹک کے بعد والدین کو بظاہر اس رشتے میں کوئی قباحت نظر نہ آئی اور یوں بہرام سے میری شادی ہو گئی۔ بہرام خوشی خوشی بیاہ کر مسقط چلا آیا۔ اس کا خیال تھا نیشنیلٹی مل جائے گی تو وارے نیارے ہوجائیں گے لیکن اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جب اسے پتہ چلا کہ یہ سہولت صرف مردوں کو حاصل ہے کہ ان کی ازواج کو نیشنلٹی دی جاتی ہے۔

شاید اس لئے کہ قاعدے کے مطابق لڑکیوں کو بیاہ کر پیا دیس جانا ہوتا ہے، پیا دیس بدل کر نہیں اتا۔ بدقسمتی سے بہرام کی حسب خواہش نوکری کی کوشش بار آور نہ ہو سکی۔ میرے باپ نے ایک چھوٹا سا فلیٹ اور ایک ڈھابہ ہوٹل بہرام کو لے کر دیا۔ بہرام کو یہ معمولی ہوٹل پسند نہ آیا۔ وہ گریجوئیٹ تھا اور آلو کے پراٹھے اور انڈا گھٹالا جیسی چیزیں بیچنا اس کے تئیں شایان شان نہیں تھا۔ وہ اکثر ڈھابے سے غائب رہتا۔ جانے کہاں جاتا۔

راتوں کو دیر سے گھر اتا۔ خوبصورت خوابوں والی زندگی بہت جلد اپنا عبایہ اتار کر پھینک چکی تھی۔ اور تلخ حقیقتیں بے پردہ مقابل کھڑی تھیں۔ بسورتے دن تھے اور تڑپتی راتیں تھیں۔ اس بیزاریت میں میری ننھی بسمہ نے مسکراہٹیں بکھیریں اور زندگی کو معنویت بخشی۔ بسمہ ہفتے بھر کی تھی کہ رات گئے بہرام شراب کے نشے میں دھت گھر میں داخل ہوا۔ وہ بمشکل لڑکھڑاتا ہوا اور خود کو بمشکل گھسیٹتا ہوا بیڈ روم کے دروازے تک پہنچا اور دہلیز پر لڑھک گیا۔

قے اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ اس کے گھنگھریالے بال قے میں لتھڑ کر اس کے چہرے کو آلودہ کر رہے تھے مگر اسے کوئی ہوش نہیں تھا وہ نہ جانے کیا اول فول بک رہا تھا۔ اور در سے اٹھانے کی کوشش میں مجھے ایک دھپا بھی مار دیا تھا۔ بد مستی کا یہ مظاہرہ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اپنی گائناکالوجسٹ کو فون کر ڈالا۔ ڈاکٹر تو ہے، شاید کوئی حل بتا سکے۔ رات کے دو بجے نیند سے جگا کر جب میں نے مسئلہ بتایا تو اس نے معذرت کی کہ وہ اس شعبے سے نابلد ہے۔

البتہ ایک عورت ہونے کے ناتے مشورہ دے سکتی ہے۔ میرے استفسار پر اس نے کہا ”بیلن اٹھا کر سر پر دے مارو، ہوش ٹھکانے آ جائیں گے“ ۔ مشورہ تو صائب تھا مگر گھریلو تشدد کے خلاف نظریات ہونے کے باعث میں نے عمل نہیں کیا۔ بس پانی میں لیموں گھول کر پلاتی رہی۔ اگلے دن دوپہر ڈھلے وہ انسانیت کی جون میں آیا تو معافی اور توبہ تلافی کی باتیں کرنے لگا۔ مجھے اس کی باتوں سے گھن آ رہی تھی۔ میں اٹھ کر بسمہ کا ڈائپر بدلنے لگی۔

پیلا سیال اس سے کم بدبودار تھا۔ کچھ دن تک بہرام بڑا اچھا شوہر ہونے کا رول پلے کرتا رہا اور پھر اپنے ڈھب پر لوٹ گیا۔ وہی دیر تک سوتے رہنا، پھر جانے کہاں، کیا کرتے پھرنا اور رات گئے سرائے میں اکر کھاٹ پر پڑ جانا۔ اکثر وہ کھانا باہر سے کھا کر آتا کیونکہ اب اسے ہر وقت کباب اور روسٹ درکار تھے۔ اس کی جیب سے بھنی ہوئی دال اور امرود کے ٹکڑے برآمد ہوتے۔ میں بک جھک کر کے تنگ اچکی تھی اور کچھ کہنا سننا چھوڑ دیا تھا۔ اس روز وہ جلدی آ گیا اور آتے ہی کھانا طلب کیا۔ میں بسمہ کو سلا رہی تھی اس لئے تھوڑی دیر ہو گئی۔ توے پر روٹی ڈال ہی رہی تھی کہ بہرام بھناتا ہوا آیا اور میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے بولا ”اب تک روٹی کیوں نہیں پکائی“

تھپڑ کی شدت سے میں لڑکھڑائی اور اگر کا ؤنٹر کا کونہ تھام نہ لیا ہوتا تو منہ کے بل جلتے توے پر گرتی۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل کر باچھوں سے بہہ رہا تھا اور سانس سے اسپرٹ جیسے بھپکارے اڑ رہے تھے ایک تھپڑ سے اس کی آتش سرد نہ ہوئی اور میرے بالوں کو مٹھی میں بھینچ کر دروازے کی طرف دھکا دیا۔ میرا سر دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرایا اور خون کا فوارہ ابل پڑا سرخ مائع میرے بالوں کو چپچپاتا میرے دامن کو تر کر گیا۔

”بس بہت ہو گیا“ میں نے دوپٹہ سر پر پٹی کی طرح باندھتے ہوئے کہا۔
”کیا کرے گی“ ۔ اس نے بے حیائی سے کہا

”میں مراد بی بی اور نازاتون نہیں ہوں، میں نوال ہوں جو معاشرے کی جھوٹی روایتوں اور بے سود رشتوں کو پاؤں کی بیڑیاں نہیں بننے دے گی۔ تم سے شادی میری غلطی تھی لیکن اسے سدھارنے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔“
میں کمرے میں چلی آئی اور دروازہ بند کر دیا۔ بہرام دروازہ پیٹ رہا تھا اور میں ڈبل ون ڈبل زیرو ڈائل کر رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments