کراچی کے شہریوں کی خواہشات یہاں کی سڑکیں پوری کرتی ہیں!


کراچی کے شہری بالخصوص کراچی کے سڑکوں پر روزانہ سفر کرنے والوں کے مشاہدات پر مبنی باتیں ملاحظہ فرمائیں کہ جب جلے ہوئے قلب سے کچھ ایسی باتیں ہوئی بلکہ تخلیق ہوئی جسے اقوال شری یا پھر اقوال قلبی بھی کہا جاسکتا ہے۔

ایک کراچی والا اپنے بچپن کی خواہش سناتے ہوئے کہتا ہے ”بچپن ہی سے بہت خواہش تھی کے میں گھوڑا پالوں گا اور گھوڑے کی سواری کروں گا، لیکن گھر کے حالات سازگار نہیں تھے کیونکہ گھوڑا پالنا مشکل اور مہنگا کام تھا۔ پھر ہم جوان ہوئے تو بائیک کی سواری سیکھ لی اور کراچی کی سڑکوں پر نکل گئے۔ کراچی کی اکثر سڑکوں پر جب بائیک چلائی تو بچپن کی خواہش یاد آ گئی، کیونکہ کراچی کی کچھ سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ جب بھی بائیک چلاؤ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھوڑے کی سواری ہو رہی ہے۔ شکر ہے کہ ہم کراچی میں رہتے ہیں ورنہ گھوڑے کی سواری کا خواب ادھورا جاتا۔“

کراچی کا صحافی طالب علم جو بہت زیادہ خبریں سنتا تھا اس نے اپنا واقعہ کچھ یوں سنایا ”پاکستانی خبروں میں بلیک واٹر کا ذکر اکثر سنائی دیتا تھا۔ بلیک واٹر کا جب ذکر سنتا تھا تو یہ ہی خیال آتا ہے کراچی میں وائٹ واٹر کی کمی ہے تو شاید بلیک واٹر کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے، خیر یہ فکر بھی آگے پیچھے ہو گئی۔ پھر پتا چلا کے یہ امریکا کی کوئی سیکیورٹی ایجنسی ہے، تجسس بڑھ گیا، بڑا دل تھا کے کبھی انھیں یعنی بلیک واٹر کو قریب سے دیکھوں۔

مگر ممکن نہ تھا، کیونکہ ان کا پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور میرا امریکا جانے کا کوئی امکان نہ تھا۔ ایک دن ہمیں پتا چلا کے بلیک واٹر دیکھنے کے لئے امریکا جانے کی ضرورت نہیں کراچی کی اکثر سڑکوں پر بلیک واٹر موجود ہے۔ کچھ سڑکوں پر یہ کئی سالوں سے ہے اور کچھ سڑکوں پر بارش کے بعد یہ تعینات ہو جاتے ہیں۔ ہم پہنچ گئے بلیک واٹر دیکھنے لیکن 2 منٹ سے زیادہ نہ دیکھ پائیں اور ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے بلیک واٹر دیکھنے کی خواہش سے توبہ کر لیا۔“

کراچی کا نیا نیا وی لاگر اپنی کہانی کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ ”اکثر اوقات سوشل میڈیا پر دبئی کی ویڈیوز اور وی لاگز دیکھتا رہتا ہوں، ان وی لاگز اور ویڈیوز میں بہت سی جگہیں نظر آتی ہیں مگر ایک جگہ جو ہر وی لاگ میں دکھائی دیتی تھی وہ تھی ڈیزرٹ سفاری۔ جہاں صحرا میں بڑی بڑی گاڑیاں دوڑتی تھی اور مٹی کا ایسا دھواں اڑتا تھا کہ گاڑیاں اس میں غائب ہوجاتی تھی۔ دیکھنے میں یہ نظارہ اتنا پرلطف ہوتا تھا کہ دل ہونے لگا کے کاش اس سفاری کے ہم بھی مزہ لے سکیں مگر پھر یاد آیا کے ہم تو کراچی میں رہتے ہیں اور اس طرح کے سفاری کے مزے ہم اکثر و بیشتر لیتے رہتے ہیں۔ اب ہمیں جو چیز فری میں میسر ہے اس کے لئے اتنے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت کیا ہے بھلا، تو ہم نے دبئی جانے کا ارادہ کراچی کے فری ڈیزرٹ سفاری کے اختتام تک ملتوی کر دیا۔“

کراچی کے ایک نوجوان جس نے نئی نئی بائیک چلانی شروع کی تھی اس نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی ”بھئی کراچی کے لڑکوں کو جس طرح کرکٹ کھیلنے کا شوق ہوتا ہے تقریباً اتنا ہی شوق اسے بائیک چلانے، تیز دوڑانے اور بائیک سنوارنے کا بھی ہوتا ہے۔ کافی لڑکے دوسرے والے شوق کو پورا کرنے کے لئے جتن کرتے ہیں۔ اسی طرح ان لڑکوں کو بائیک ریسنگ دیکھنے کا شوق بھی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں بائیک ریسنگ اسپورٹس اتنا عام نہیں ہوا اور باہر جاکر اسے پورا کرنا انتہائی مہنگا سلسلہ ہے۔

لیکن آخر کار یہ بھی شوق کراچی کی سڑکوں پر پورا ہو گیا کہ جب رات گئے کراچی کی سڑکوں پر شپڑ گینگ کی بائیک ریسیں دیکھی۔ یہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ریس ایک بار نہیں اکثر اوقات دیکھی کے جب ہفتے کی رات کو شپڑ گینگ کے گڈ لوکنگ، براؤن بال والے بائیکر آلٹر بائیک بھگاتے ہوئی دکھائی دیے اور پھر ہم کراچی کی نعمتوں پر دانت پیستے، افسوس کرتے رہ گئے۔“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments