ہم جنس خاندان: وہ جوڑے جو بچہ پیدا کرنے کے لیے سپرم بینکس کے بجائے دوستوں پر انحصار کر رہے ہیں


بچے
بہت سے ہم جنس افراد چاہتے ہیں کہ وہ کسی ایسے فرد سے سپرم لیں جسے وہ جانتے ہوں اور اس شخص کے ساتھ بچے کا تعلق برقرار رہے۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی رہائشی ایلس آج 39 برس کی ہیں لیکن جب انھوں نے پہلی مرتبہ باپ کے بغیر ایک بچہ جنم دینے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا تو اس کے لیے سپرم بینک سے بیضہ لینے کا خیال انھیں ’بہت ہی عجیب‘ لگا تھا۔

ایلس کو کچھ پتا نہیں تھا کہ سپرم بینک کو سپرم دینے والے ممکنہ افراد میں سے کس کا انتخاب کریں۔ ممکنہ ڈونرز میں بہت اچھا گٹار بجانے والے بھی تھے، انگلینڈ کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بھی اور نیلی آنکھوں والے مرد بھی۔ اس موقع پر ایلس کو محسوس ہوا کہ سب سے اچھا اور سادہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں میں سے کسی کا بیضہ لے لیں۔

چنانچہ ایلس نے اپنے ایک دوست کا انتخاب کیا جو یونیورسٹی کے دنوں میں ایلس کے ساتھ رہتے تھے۔ آج ایلس کی ایک بیٹی ہے جو اب تین برس کی ہو چکی ہے۔ اپنا نطفہ عطیہ کرنے والے اس دوست کے بارے میں ایلس کہتی ہیں ’ظاہر ہے میں ان ہی کا انتخاب کرتی۔‘

’میرے قریبی دوستوں میں مرد زیادہ نہیں ہیں‘

ایک دن ایلس اپنے مذکورہ دوست سے ناشتے کے لیے ملیں اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ ایلس کو اپنا سپرم عطیہ کرنے کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں، اور دوست نے بخوشی حامی بھر لی۔

اب بھی ایلس اپنے اس دوست سے مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔ ایلس اور ان کی پارٹنر اس دوست اور ان کی بیوی کو ایلس کی بیٹی کے ’انکل آنٹی‘ کہتی ہیں۔

’مجھے یہ چیز اچھی لگتی ہے کہ ہماری بچی کا ہمارے اس دوست سے ایک رشتہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے معاشرے میں ہم جنس افراد کے لیے اس نئی قسم کے خاندان تشکیل دینے کے امکانات بہتر ہوتے جائیں گے۔

گذشتہ کئی برسوں سے غیر ہم جنس پرست اور اینے خاندانوں کو وسعت دینے والے ہم جنس پرست افراد کے درمیان دوری کم ہو رہی ہے۔ ایل جی بی ٹی خاندانوں کے حوالے سے امریکہ میں کیے جانے والے سنہ 2018 کے ایک جائزے کے مطابق 1981 اور 1996 کے درمیان پیدا ہونے والے (ملینیئل) ایل جی بی ٹی افراد میں سے 48 فیصد ایسے ہیں جو اپنے اپنے خاندانوں کو وسعت دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

اس کے مقابلے میں غیر ایل جی بی ٹی افراد میں سے 55 فیصد بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب 55 برس سے زیادہ عمر کے غیر ایل جی بی ٹی افراد میں سے 70 فیصد بچے پیدا کر چکے ہیں جبکہ اس عمر کے ایل جی بی ٹی افراد میں بچوں والوں کا تناسب صرف 28 فیصد ہے۔

اسی طرح ایسے ایل جی بی ٹی افراد جو ایک جوڑے کی شکل میں اکھٹے رہتے ہیں لیکن آپس میں بچے نہیں پیدا کر سکتے، ان میں بھی سپرم بینک وغیرہ سے کسی دوسرے مرد کا سپرم حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

مثلاً سنہ 2018 کے ایک جائزے کے مطابق آسٹریلیا میں عطیے میں نطفہ لینے والے افراد میں سے 85 فیصد یا تو اکیلی رہنے والی خواتین تھیں یا ہم جنس پرست خواتین جوڑے۔

سپرم لینے کے خواہشمند بہت سے ہم جنس افراد چاہتے ہیں کہ وہ کسی ایسے فرد سے سپرم لیں جسے وہ جانتے ہوں اور اس شخص کے ساتھ تعلق یا رشتہ برقرار رہے۔

اس خواہش کی کئی وجوہات ہیں، مثلاً سپرم لینے والے ہم جنس افراد یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کا اصل باپ کون ہے، اگر کوئی طبی مسئلہ پیدا ہو جائے تو وہ اس شخص سے پوچھ سکیں، اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپرم دینے والا شخص ان کے ِخاندان کا حصہ بن جائے۔

اگرچہ کسی سپرم بینک سے نطفہ لینے کی صورت میں بھی ان خواہشات کی تکمیل ہو سکتی ہے، تاہم اگر سپرم دینے والا شخص آپ کا دوست ہو تو اس پر خرچ کم آتا ہے۔

قطع نظر اس کے کہ ڈونر کوئی اجنبی ہے یا آپ کا دوست، کسی کے سپرم سے بچہ پیدا کرنا ایک ایسا قدم ہے جس کے لیے بہت سوچ و بچار کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آپ کو اس کے جذباتی، معاشی اور قانونی پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں والدین کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے بھی یہ چیز بہت اہم ہو سکتی ہے۔

ایل جی بی ٹی خاندان

خاندانوں کی بدلتی ہوئی شکل

اگرچہ اب کسی کے سپرم سے بچہ پیدا کرنے کے خواہشمند ایل جی بی ٹی افراد کے لیے مختلف سہولیات موجود ہیں، لیکن جب سینٹر فار فیملی بِلڈنگ کی سربراہ لیزا شُومین نے 20 برس پہلے نیویارک میں یہ کام شروع کیا تھا تو یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اُس وقت ہم جنس افراد کی نمائندگی کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں، حتیٰ کہ تولیدی طب کی بڑی بڑی تنظیموں میں بھی ہم جنس افراد کی بات کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لیسا شُومین کا کہنا تھا کہ انھوں نے جن ہم جنس لوگوں سے بات کی ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن کی پہلی خواہش یہی تھی کہ وہ بھی اپنی فیملی بنانیں، لیکن ’وہ لوگ بالکل نہیں جانتے تھے کہ ان کے پاس اپنا خاندان بنانے کئی دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔‘

لیزا شُومین نے نیویارک میں قائم ’گے اینڈ لیزبیئن سینٹر‘ میں ایسے ایل جی بی ٹی والدین کے لیے تربیتی پروگرام بھی شروع کیا جو بچوں کے خواہشمند تھے۔ اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو بتانا تھا کہ ان کے پاس بچہ گود لینے کے علاوہ اور طریقے بھی موجود ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ورکشاپ میں شروع شروع میں صرف پانچ لوگ آیا کرتے تھے، لیکن ’میں ورکشاپ منعقد کرتی رہی۔‘ اور پھر تقریباً ایک عشرہ گزر جانے کے بعد جب انھوں نے سنہ 2015 میں بچوں کے خواہشمند گے اور لیزبیئن افراد کے لیے ایک لیکچر منعقد کیا تو اس میں ایک سو لوگوں نے شرکت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جنس شادیوں کی قانونی حیثیت کے موضوع پر منعقد کیے جانے والے اس لیکچر سے بہت فرق پڑا۔ لیسا شُومین اور ان جیسے دیگر لوگوں کی کوششوں سے فیملی بنانے کے حوالے سے ہم جنس افراد کی معلومات میں اضافہ ہوا۔

آج بھی اگرچہ سننے میں آتا ہے کہ ایل جی بی ٹی جوڑوں میں اپنے جاننے والوں کی مدد سے بچہ حاصل کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، لیکن ایسے اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ کتنے ہم جنس جوڑے سپرم بینک کے بجائے اپنے دوستوں یا رشتہ داروں سے سپرم لینے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

لارا گولڈبرگر وہ خاتون ہیں جو بطورِ ماہر نفسیات دو برس تک اپنا بچہ پیدا کرنے کے خواہشمند ہم جنس والدین کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے جن جوڑوں سے گفتگو کی ان میں سے تقریباً نصف ایسے تھے جنھوں نے کسی ایسے شخص سے سپرم لیے جسے وہ پہلے سے جانتے تھے، جبکہ صرف ایک جوڑا ایسا تھا جس نے سپرم بینک کی مدد لی تھی۔

لارا بتاتی ہیں کہ انھوں نے جتنا عرصہ کام کیا، اپنا بچہ پیدا کرنے والے ایل جی بی ٹی کا تناسب یہی رہا، تاہم ان کے خیال میں گذشتہ کئی برسوں میں ’زیادہ سے زیادہ‘ جوڑے اپنے دوستوں یا رشتہ داروں سے سپرم حاصل کر رہے ہیں۔

ایل جی بی ٹی خاندان

لیزا شُومین کہتی ہیں کہ اب ‘زیادہ سے زیادہ’ والدین سپرم کسی دوست یا خاندان کے کسی فرد سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

ایک ’زبردست اور نرم و گداز موجودگی‘

ایلس نے سپرم بینک سے سپرم نہ لینے کا فیصلہ صرف اس وجہ سے نہیں کیا تھا کہ وہ کسی اجنبی سے بچہ نہیں لینا چاہتی تھیں، بلکہ انھیں اچھی طرح معلوم چکا تھا کہ اگر انھوں نے سپرم لینا ہے تو کس سے بات کرنی ہو گی۔

ایلس اور ان کے مرد دوست کا تعلق ایک ہی برادری سے تھا، وہ دونوں اکھٹے ایک سیاسی پراجیکٹ پر کام کر چکے تھے اور دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے۔ ایلس کو اپنے دوست پر مکمل بھروسہ تھا۔

’مجھے معلوم تھا کہ ہم دونوں مل کر جس طرح ایک نیا خاندان بنا رہے ہیں، اگر اس میں کچھ گڑبڑ ہوتی ہے تو ہماری برادری ہم دونوں کو اس کا ذمہ ٹھہرائے گی۔‘ یوں ایلس اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ اپنے دوست کے ساتھ ان کا رشتہ کسی خلا میں نہیں بن رہا تھا، بلکہ انھیں یقین تھا کہ دونوں کے مشترکہ دوست یہ یقینی بنائیں گے کہ ان دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک اچھا تعلق اور رابطہ برقرار رہے۔

ایلس اور ان کو سپرم عطیہ کرنے والے دوست کے درمیان اس حوالے سے کئی مرتبہ بہت تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ اس گفتگو میں ان کے دوست کے خاندان کی میڈیکل ہسٹری کے علاوہ اس معاملے پر بھی بات ہوئی کہ کیا ان کا کردار صرف ایک ڈونر کا ہوگا یا نہیں اور اس پر بھی بات ہوئی کہ بچے کی زندگی میں دوست کے گھر والوں کا بھی کوئی کردار ہو گا یا نہیں۔

اس حوالے سے انھوں نے ایک ’کانفرنس کال‘ بھی کی جس میں ان کے دوست کے والدین اور بہن نے کھل کر بات کی اور ڈونر اور بچے کے رشتے کے حوالے سے تمام غلط فہمیوں کو دور کیا۔ ایلس کہتی ہیں کہ ’میں بہت خوش تھی کہ ہم نے آپس میں گفتگو کی۔ اور بچے کی (پوری نشوونما) میں ان لوگوں کی ’موجودگی ایک زبردست تجربہ رہی ہے۔‘

‘بے رحمانہ’ گفتگو سے نمٹنا

صاف ظاہر ہے کہ ایک نئی انسانی زندگی پر کسی قسم کے ممکنہ برے اثرات کا معاملہ اس قدر حساس چیز ہے کہ نہایت قریبی دوستوں کے درمیان بھی ایسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کی آپ توقع نہیں کر رہے ہوتے۔

لیسا شُومین کہتی ہیں کہ ’ہر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم نے پوری طرح سوچ لیا ہے، سب کچھ ٹھیک رہے گا (کیونکہ) ہم آپس میں بہترین دوست ہیں۔ تمام لوگ یہی سوچ کر شادیاں کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘

اسی لیے شُومین سپرم لینے سے پہلے کسی اچھے ماہر سے مشورے کرنے پر بہت زور دیتی ہیں، تاکہ آپ یہ بات یقینی بنا سکیں کہ سپرم لینے والے، اس کے گھر والے اور عطیہ دینے والا، تمام لوگ متفق ہوں اور ان میں ہم آہنگی ہو۔

ایل جی بی ٹی خاندان

ان خیالات کی بازگشت ہمیں 41 سالہ ایریکا ٹرنفیلڈ کی باتوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ برطانیہ میں قائم ’پرائیڈ اینجل‘ کی بانی ہیں جس کے ذریعے سپرم لینے کے خواشمند ہم جنس افراد ایسے لوگوں سے رابطہ کر سکتے ہیں جنھیں وہ پہلے سے نہیں جانتے، اور سپرم لینے سے پہلے یہ جوڑے ڈونر سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

ایریکا کہتی ہیں کہ ان ملاقاتوں میں ’بے رحمانہ‘ اور مشکل سوالات سے بچے رہنا مشکل ہوتا ہے، مثلاً بچے کا مذہب کیا ہوگا، اس کی تربیت کیسے ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں سے اس قسم کی مشکل گفتگو سے بچنے کے لیے ہی ایریکا نے سنہ 2009 میں اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔

پرائیڈ اینجل بنانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں وہ اپنی (اب سابقہ) بیوی کے ساتھ مل کر کسی ڈونر کی تلاش میں تھیں۔ آج برطانیہ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے سپرم لینے کے خواہشمند تقریباً 25 ہزار افراد ان کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔

ایریکا ٹرنفیلڈ اور ان کی سابقہ اہلیہ چاہتی تھیں کہ وہ بچہ پیدا کرنے سے پہلے سپرم ڈونر سے ملاقات کریں اور یہ یقنینی بنائیں کہ وہ ایک ایسا شخص نہ ہو جو پرورش میں ساتھ نہ دے اور معاشی ذمہ داریاں نہ نبھائے، اور بچے کی سکول کی رپورٹیں دیکھے اور کرسمس پارٹی پر بھی بچے کا ساتھ دے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کے ہم جنس پرست نئے سال سے کیوں گھبراتے ہیں؟

‘مجھے کہا گیا کہ یہ تو کوک ہے نہ ہی سپرائٹ، یہ تو فانٹا ہے’

انڈین نژاد امریکی ہم جنس پرست جوڑے: ’جب کوئی راضی نہ ہوا تو مجھے خود ہی پنڈت بننا پڑا‘

ان باتوں کو یقنینی بنانے کے لیے ایریکا، ان کی اس وقت کی اہلیہ اور ڈونر نے ایک دستاویز (لیٹر آف اِنٹنٹ) پر دستخط بھی کیے جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ اس رشتے کی حدود کیا ہوں گی، تاہم یہ کوئی قانونی معاہدہ نہیں تھا۔

بی بی سی نے امریکہ میں مقیم جن ہم جنس خواتین کے جوڑوں سے بات کی ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ وہ سپرم لینے سے پہلے دستخط شدہ قانونی معاہدوں کے زیادہ حق میں ہیں۔

کیلیفورنیا میں شادی کرنے والی 40 سالہ روزلین اور 37 سالہ لارا ایسے ہی لیزبیئن جوڑوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک ایسے وکیل سے بات کی تھی جو ایل جی بی ٹی والدین اور ڈونرز کے درمیان کیے جانے والے معاہدوں میں مہارت رکھتے ہیں۔

روزلین اور لارا نے جس شخص سے معاہدہ کیا تھا وہ لارا کا ایک دوست تھا۔ اگرچہ معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ ڈونر اپنے تمام پدری حقوق سے دستبردار ہوگا، تاہم وہ صاحب اور ان (کا/کی) پارٹنر اب بھی روزلین اور لارا کے دوست ہیں۔

روزلین اور لارا کی دو (پانچ اور دو سالہ) بیٹیاں ہیں جو اس دوست کو اس کے نام سے پکارتی ہیں۔

بچے

کسی سپرم بینک سے نطفہ لے کر حاملہ ہونے کا عمل خاصا مہنگا ہو سکتا ہے۔ مثلاً نیویارک میں شادی کرنے والا لیزبیئن جوڑا (32 سالہ ایلزبتھ اور 36 سالہ جو) اب تک اس پر چھ ہزار ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اس میں سے کچھ رقم میڈیکل اور سپرم کی ڈلیوری پر خرچ ہوئی جبکہ اس رقم کا ایک بہت بڑا حصہ وائلز یا شیشے کی ان بوتلوں پر خرچ ہوا جن میں سپرم کو منجمد رکھا جاتا ہے۔

اگرچہ سپرم بینک سے سپرم لینا ایک مہنگا طریقہ ہے، لیکن اس جوڑے نے یہی طریقہ اپنایا ہے، تاہم کسی جاننے والے سے سپرم لینے سے پیدا ہونے والی کسی ممکنہ پیچیدگی سے بچنے کے لیے دونوں نے آخر کار کسی ایسے شخص سے سپرم لینے کا فیصلہ کیا جسے دونوں پہلے سے نہیں جانتیں۔

ابھی تو ایلزبتھ یہی کہتی ہیں کہ سپرم دینے والا ’اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوتے اور اس سے کوئی رشتہ نہ ہونے پر جب تک چاہے لال پیلا ہوتا رہے اور باتیں بناتا رہے‘ لیکن ایلزبتھ کو بہرحال یہ فکر ہے کہ جب بچہ پیدا ہو گا تو شاید چیزیں بدل جائیں۔ اسی وجہ سے یہ جوڑا بھی سوچ رہا ہے کہ کیوں نہ ایلزبتھ کے بھائی کو ہی بطور ڈونر استعمال کیا جائے۔

اس حوالے سے جو کا کہنا تھا کہ شروع میں ان کو بھی یہ خیال آیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے کسی مرد سے سپرم لے لیں لیکن اس میں بھی وہی مسئلہ درپیش تھا جس کا ذکر ایلزبتھ نے کیا ہے۔ جو کے بقول ’میرا تعلق ایک اطالوی خاندان سے جو بہت بڑا ہے اور یہ لوگ ہر وقت ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔‘

اسی لیے ایلزبتھ اور جو نے اس تجویز پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ دونوں نہیں چاہتی تھیں کہ خاندان کے لوگ مستقبل میں بچے کی ولادت کے حوالے سے باتیں بنائیں۔

خاندان کو بڑھانے کی تجاویز

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچہ پیدا کرنے کے خواہشمند ایل جی بی ٹی جوڑوں کے لیے معلومات اور سہولیات میں اضافہ ہوا ہے اور انھیں معلوم ہو رہا ہے کہ وہ کس طرح ایک اپنا خاندان بنا سکتے ہیں۔

اگرچہ آج بھی بہت سے ایسے جوڑے بچہ گود لیتے ہیں، تاہم کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے قریبی دوستوں سے سپرم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایلس، روزلین اور لارا ایسا ہی کر رہی ہیں، تاہم کئی ایسے لیزبیئن جوڑے ہیں جو پرائیڈ اینجل جیسی سہولیات یا سپرم بینکوں سے رابطہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ یہ خاندان آخر میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی جاننے والے سے سپرم لینے کے امکانات سامنے آنے کے بعد، ایسے افراد کے لیے نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ آج اُن دنوں کے مقابلے میں حالات بہت بدل چکے ہیں جب شُومین نے نیویارک میں اپنی فیملی بنانے کے خواہشمند ایل جی بی ٹی افراد کی مدد کا کام شروع کیا تھا۔

جہاں تک روزلین اور لارا کا تعلق ہے تو ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دونوں اپنے ڈونر کے ساتھ مل کر جس قسم کا خاندان تشکیل دینا چاہتی ہیں وہ کیسا ہوگا اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ روزلین کہتی ہیں کہ ان کے بچے اور سپرم دینے والے شخص کے اپنے بچے جوں جوں بڑے ہوں گے تو ’دونوں مل کر یہ بات طے کریں گے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں، یا یہ کہ وہ ایک دوسرے کو کیا بلایا کریں گے اور ان کے اصل والد (ڈونر) کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہے۔‘

’لیکن فی الحال تو سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔‘

شناخت محفوظ رکھنے کی غرض سے اس تحریر میں ایلس، ایلزبتھ اور جو کے اصل نام پوشیدہ رکھے گئے ہیں جبکہ روزلین اور لارا نے اپنے پورے نام ظاہر نہیں کیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments