انیق ناجی صاحب، احمدیوں کی نہیں، پاکستان کی فکر کریں



حال ہی میں یو ٹیوب پر محترم انیق ناجی صاحب کا ایک پروگرام سننے کو ملا۔ اس میں انہوں نے پاکستان کے احمدیوں کو کچھ مشورے دیے ہیں۔ ان مشوروں کا ایک پس منظر ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ 1974 میں آئین پاکستان میں ترمیم کر کے احمدیوں کو قانون اور آئین کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت سے احمدیوں کا موقف یہ رہا ہے کہ کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ فیصلہ کرے کہ احمدی اپنے آپ کو کس مذہب سے وابستہ سمجھیں۔ اور اس ترمیم کے حامی احمدیوں کو اس بات کا الزام دیتے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کی اس ترمیم کو تسلیم نہیں کرتے۔

انیق ناجی صاحب نے اس وی لاگ میں کہا

” ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ Pakistani Islam is something different that has got nothing to do with original religion or Islam [پاکستانی اسلام ایک مختلف چیز ہے اور اس کا اصلی مذہب یا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ]۔

احمدیوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے پاکستان میں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہو رہا ہے۔ لیکن میں احمدی کمیونٹی سے بھی ایک بات کہنا چاہوں گا۔ دیکھیں آپ۔ آج نہیں تو بیس سال بعد آپ کو اپنے پرابلم کا آؤٹ آف دی باکس کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ وجہ یہ ہے کہ جو آپ کا طریقہ اب تک ہے۔ جس پر آپ چلتے آ رہے ہیں۔ اس راستے نے آپ کو سوائے مزید جنازوں کے۔ humiliation کے، insult کے اور خطروں کے کچھ دیا نہیں ہے۔ اور اسی راستہ پر اگر آپ چلتے رہیں گے آگے بھی تو دور دور تک relief کسی قسم کی یا جسٹس عدل آپ کے ساتھ تو دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ پاکستان تو ایسا ملک ہے دیکھیے کہ احمدی تو دور کی بات ہے مین سٹریم مسلمانوں میں وار آن ٹیرر [دہشت گردی کے خلاف جنگ ] میں پینسٹھ ہزار کوئی کہتا ہے ستر ہزار تو پچپن ہزار تو وہ مرے ہیں، سویلین عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان جو طالبان نے مارے ہیں، وہ احمدی تو نہیں تھے۔

اس ماحول میں آپ نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جو مسجد بنا رکھی ہے اس میں آپ یہ بھی کہیں کہ باقی آپ کا احترام بھی کریں۔ احترام سے مراد یہ ہے کہ آپ کو زندہ رہنے کا حق دے دیں۔ بڑی بے بسی ہے۔ میں افسوس سے یہ بات کہہ رہا ہوں لیکن یہ ہے۔ مصیبت ہے کہ یہ ہے۔

اگلے بیس تیس پچاس سال یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ ظلم ہوتا رہے گا۔ یہ کہنا احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے کہ نہیں یہ ساری لاجک [منطق ] کی باتیں ہیں۔ یہ پڑھی لکھی باتیں ہیں۔ تو لاجک کی باتیں۔ پڑھی لکھی باتیں مذہبی معاملات میں پاکستانی کیسے کرے گا؟ ہمارے تو ڈی این اے میں یہ بات ہی نہیں ہے۔ ہم نے غیر منطقی ہونا ہے۔ ہم نے جذباتی ہونا ہے۔ ہم نے فلک شگاف نعرے لگانے ہیں۔

آپ بنیادی طور پر اپیل کرتے ہیں Sense of Decencyکو۔ اب sense of decency تو ہے ہی نہیں۔ آپ معاشرے کے اجتماعی ضمیر سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے وہ موجود ہی نہیں ہے یہاں۔ جس اجتماعی ضمیر کو ایڈریس کر کے آپ کہتے ہیں کہ آپ کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ آپ کو انسان سمجھا جائے۔ آپ کو برابر کا حق دیا جائے۔ آئین کے مطابق۔ اجتماعی ضمیر تو وہاں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ تو خالی دیوار سے باتیں کر رہے ہیں۔ بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ Sense of decency وہاں موجود نہیں ہے۔ ضمیر وہاں موجود نہیں ہے۔ آئین تو وہاں نواز شریف جیسے آدمی کے لئے نہیں ہے۔ آپ کے لیے کیسے آ جائے گا؟ ”

اس کے بعد انہوں نے احمدیوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا موجودہ موقف ترک کر دیں اور اپنے مخالف مولوی حضرات کا موقف تسلیم کر دیں اور احمدیوں کو اپنی لیڈر شپ سے مذاکرات کرنے چاہئیں کہ اب وہ اپنے آپ کو چالیس پچاس سال کے لئے غیر مسلم تسلیم کر لیں۔ پھر ان کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ اس تحریر کا مقصد انیق ناجی صاحب کی نیت پر حملہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن اس وی لاگ کو سننے کے بعد ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات ناجی صاحب کی خدمت میں پیش ہیں۔

مجھے ایک بات پر بہت حیرت ہے۔ ایک طرف تو ناجی صاحب یہ اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان میں جو اسلام رائج ہے اس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں اجتماعی ضمیر کی نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ یہاں پر شائستگی نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ عملی طور پر یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہی نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب جیسے آدمی کے لئے بھی کوئی آئین موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جو ہر قسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، اسے کوئی ایک شدت پسند یہ یقین دلا سکتا ہے کہ اگر تم صرف ایک احمدی کو مار دو تو تم سیدھے جنت میں جاؤ گے۔

یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ یہ انیق ناجی صاحب کے الفاظ ہیں۔ تو پھر انہیں احمدیوں کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ پاکستان کی فکر ہونی چاہیے۔ بجائے اس کے کہ وہ احمدیوں کو مشورہ دیتے کہ وہ اپنی قیادت سے مذاکرات کر کے اپنا اصولی موقف چھوڑ دیں، اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ انیق ناجی صاحب اور دوسرے صحافی حضرات بلکہ سارے پاکستان کی آبادی اپنی سیاسی اور مذہبی قیادت سے مذاکرات کرتی کہ پاکستان میں اتنے خوفناک حالات پیدا ہو گئے ہیں، اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنی سابقہ روش کی اصلاح کریں۔ اور اب ہمارے ملک میں یہ رویے برداشت نہیں کیے جا سکتے۔

آپ فرما رہے ہیں کہ اگر احمدی اپنے موقف سے ہٹ کر اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ان کی مخالفت ختم ہو جائے گی اور پاکستان میں ان کے حقوق بحال ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستان میں مسیحی احباب اور ہندو احباب تو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر اصرار نہیں کرتے۔ اور نہ ہی ان پر کوئی الزام ہے کہ وہ آئین کی کسی مذہبی شق کو تسلیم نہیں کرتے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں مسیحی احباب اور ہندو احباب کو اپنے بنیادی حقوق حاصل ہو گئے ہیں؟

اگر انہیں اب تک اپنے حقوق حاصل نہیں ہوئے تو یہ ایک خام خیال ہے کہ اگر احمدی اپنے موقف کو ترک کر دیں گے تو ان کو اپنے حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ اور تو اور ناجی صاحب اپنے اس وی لاگ میں یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ با اثر اہل تشیع لیڈر بھی ڈرتے ہیں کہ وہ شیعہ ہونے کے باعث زیر عتاب نہ آ جائیں۔ اس پس منظر میں یہ کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ اگر احمدی اپنا موقف ترک کر دیں تو ان کے حالات بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔

اور پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں پر عقیدہ کی بنا پر کئی مسالک سے وابستہ احباب کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں یہ سلوک سنی فرقہ سے وابستہ مسلمانوں یا شیعہ مسلمانوں سے بھی یہی سلوک رو اکھا جاتا ہے۔ کچھ برسوں سے بھارت میں بھی شدت پسند ہندوؤں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا۔ بعض حلقوں میں شدت پسندوں کو برملا مسلمانوں کی قتل و غارت پر اکسایا جاتا ہے۔ اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس عمل میں تیزی آئی ہے۔

1920 کی دہائی میں شدھی تحریک سے لے کر اب تک کئی تحریکیں اس اعلان کے ساتھ اٹھی ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ہندو مت میں داخل کریں گے۔ اگر خدانخواستہ بھارت میں یہ عمل اور آگے بڑھتا ہے تو کیا انیق ناجی صاحب یہی مشورہ بھارت کے مسلمانوں کو بھی دیں گے کہ حالات اب خراب ہو رہے ہیں، تم شدت پسند ہندوؤں کی خواہش کے مطابق اپنے عقائد تبدیل کرنے کے اعلان کردو۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی صاحب ضمیر یہ فرمائش تسلیم نہیں کر سکتا۔ اور کیا اسرائیل کے مسلمانوں کو بھی یہ نامبارک مشورہ دیا جائے گا کہ اتنی دہائیوں سے تمہاری قتل و غارت ہو رہی ہے۔ تم اسرائیل کی اکثریت کا مقابلہ ترک کردو۔ اور اپنے جائز مطالبات ترک کردو۔

اگر اس سلسلہ کی حوصلہ افزائی کی جائے تو دنیا میں ضمیر اور اصول نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ گزارش ہے کہ مذہبی عقائد کوئی ایسی چیز نہیں ہوتے کہ ایک ملک میں ایک مذہبی عقائد ظاہر کیے جائیں اور دوسرے ملک میں دوسرے عقائد کا اقرار کیا جائے۔ یا مصلحت کی خاطر یہ اعلان کیا جائے کہ ہم چالیس سال یا پچاس سال کے لیے ان نظریات کو اپنانے کا اعلان کرتے ہیں اور چالیس پچاس سال بعد حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے کہ کیا ان پر قائم رہیں یا انہیں تبدیل کر دیں۔ حقیقی امن اصولوں پر قائم رہ کر حاصل ہوتا ہے۔ اصولوں کو ترک کر کے کسی بھی ملک میں امن و امان کا ماحول قائم نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments