پاکیزہ:’ضیاع‘ قرار دی گئی فلم جو مینا کماری اور کمال امروہی کو امر کر گئی

دعا - انڈین لینگویج ٹی وی ایڈیٹر


یہ جولائی 1972 کی بات ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو انڈیا کے شہر شملہ میں انڈیا کے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات میں مصروف تھے۔

انیس برس کی بے نظیر بھٹو بھی اپنے والد کے ساتھ موجود تھیں۔ اچانک انھوں نے فلم پاکیزہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جو چند ماہ قبل چار فروری 1972 کو ریلیز ہوئی تھی۔

سابق آئی اے ایس افسر ایم کے کاؤ نے اپنی کتاب ‘An Outsider Everywhere’ میں لکھا، ’میں نے فوری طور پر شملہ کے ڈپٹی کمشنر سے بات کی۔ رٹز سنیما میں بے نظیر کے لیے ایک خصوصی شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہال میں صرف تین لوگ تھے۔‘

یہ چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہے کہ 50 سال قبل چار فروری 1972 کو ریلیز ہونے والی کمال امروہی اور مینا کماری کی فلم پاکیزہ کا جادو کیسا تھا۔

آئیے فلم کے ایک سین سے اس جادوئی فلم کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’کل ہم مجرے پر جا رہے ہیں۔۔۔ ہمیں ایک دن کے لیے تمہاری قسمت چاہیے، پرسوں واپس کر دیں گے۔‘

فلم میں سامنے والے کوٹھے کے چھجے سے جب ایک طوائف مینا کماری یعنی صاحب جان سے یہ الفاظ کہتی ہے تو آپ سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا کی نظروں میں صاحب جان کی قسمت کا ستارہ کن بلندیوں پر ہے۔ ہر کوئی اس پر رشک کرتا ہے۔

لیکن کوٹھے پر بیٹھی صاحب جان (مینا کماری) عجیب بے رخی کے ساتھ جواب دیتی ہیں، ہاں ہاں ضرور لے جانا (تقدیر) پھر چاہے واپس بھی مت کرنا۔‘

فلم پاکیزہ میں صاحب جان بنی مینا کماری کے بے رخی سے ادا کیے جانے والے یہ الفاظ صاحب جان کی زندگی، اس کے جذبات، اس کی کشمکش، اس کی بے بسی سب کچھ بیان کر دیتے ہیں۔

اگر آپ ایسی ہی بے رخی سے یہ فلم دیکھیں گے تو محسوس ہو گا کہ پاکیزہ کی کہانی کئی بار سنائی جا چکی ہے۔ ایک طوائف، ایک عزت دار گھرانے کا لڑکا اور ان کی پریم کہانی۔

ہاں یہ سچ ہے کہ یہ کہانی کچھ الگ نہیں لیکن اس فلم کی کہانی کا انداز بیان پاکیزہ کو منفرد اور خاص بناتا ہے۔

یہ ایک طوائف صاحب جان (مینا کماری) اور سلیم (راج کمار) کی کہانی ہے۔ رات کے وقت ایک ٹرین کے ڈبے سے شروع ہونے والی محبت کی ایسی کہانی جس میں سلیم نے خوابیدہ صاحب جان کے خوبصورت پاؤں ہی دیکھے۔

اور صاحب جان نے صبح جاگ کر چند الفاظ پر مشتمل وہ خط پڑھا جو سلیم رات کی تاریکی میں گم ہو جانے سے پہلے اس کے نام چھوڑ جاتا ہے۔

’آپ کے پاؤں دیکھے، بہت حسین ہیں۔ انھیں زمین پر مت اتاریے گا۔ میلے ہو جائیں گے۔‘

لیکن دو لوگوں کی محبت کی کہانی سے ہٹ کر یہ دراصل صاحب جان کی جدوجہد، خواہش اور تڑپ کی کہانی ہے۔

اور یہی بات ہدایت کار کمال امروہی کی فلم پاکیزہ کو بھی لازوال بنا دیتی ہے، کیونکہ پاکیزہ ایسے انسانی جذبات کو چھوتی ہے جو ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی درپیش ہوتے ہیں جن سے انسان کسی نہ کسی وقت جدوجہد کرتا ہے یعنی قبولیت کا سوال۔

راج کمار کا ڈائیلاگ: ’انھیں زمین پر مت اتاریے گا‘

فلم میں ہر رات مینا کماری ٹرین کی آواز سنتی ہیں اور اس انجان شخص کو یہ کہتے ہوئے یاد کرتی ہیں ’ہر رات تین بجے ایک ٹرین اپنی پٹڑیوں سے اتر کر میرے دل سے گزرتی ہے۔۔۔ اور مجھے ایک پیغام دے جاتی ہے۔‘

ایک طواف کی یہ تڑپ اس گمنام انسان کے لیے ہے جو اس کے پیروں کے نام ایک حسین پیغام لکھ گیا ہے۔ وہ پاؤں جو شاموں کو صرف اوروں کے لیے تھرکتے ہیں۔

لیکن کوٹھوں میں رہنے والی صاحب جان کی دوست اسے حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ ’یہ پیغام تمہارے لیے نہیں ہے، اس وقت تمہارے پاؤں پر گھنگرو بندھے نہیں ہوں گے، اگر گھنگرو بندھے ہوتے تو کوئی کیسے کہتا کہ یہ پاؤں زمین پر مت رکھو۔ یہ پیغام تو ہے لیکن بھٹک گیا ہے۔‘

پاکیزہ احساسات اور جذبات کی کہانی ہے، طوائفوں اور کوٹھوں کی کہانی ہے، مسلم معاشرے کی عکاسی کرنے والی کہانی ہے، لیکن سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ عورت کے نظریے سے کہی گئی ایک عورت کی کہانی ہے، جو عموماً بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

مینا کماری کی بے مثال اداکاری

یوں تو پاکیزہ میں کئی کردار ہیں مثلاً راج کمار، اشوک کمار لیکن فلم کی جان مینا کماری ہی ہیں۔

مینا کماری نے اپنی اداکاری سے عورت کے خوابوں اور طوائف کی کشمکش کو نہایت سنجیدگی لیکن خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔

دنیا کے لیے صاحب جان صرف کوٹھے پر بیٹھی ایک طوائف ہے۔

فلم میں مینا کماری کی آنکھوں کا وہ درد سچا معلوم ہوتا ہے جب ٹوٹی ہوئی صاحب جان کہتی ہے کہ ’یہ ہمارے کوٹھے ہمارے مقبرے ہیں، جن میں مردہ عورتوں کے زندہ جنازے سجا کر رکھ دیے جاتے ہیں۔ ہماری قبریں پاٹی نہیں جاتیں، انھیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں ایسی ہی کسی کھلی ہوئی قبر کی بے صبر لاش ہوں۔‘

راج کمار یعنی سلیم سے دنیا جہان کی محبت مل جانے کے بعد بھی صاحب جان (مینا کماری) خود کو اس ‘احساس جرم‘ سے آزاد نہیں کر پاتی کہ وہ آخر ہے تو ایک طوائف ہی۔

یا یہ کہہ لیں کہ سماج اسے کبھی یہ بھلانے ہی نہیں دیتا۔ اس وقت وہ سماج سے ہی نہیں خود سے بھی لڑ رہی ہوتی ہیں۔

مینا کماری اور کمال امروہی کے ٹوٹے رشتوں کی کہانی

اس فلم کو بنانا مینا کماری اور کمال امروہی دونوں کے لیے ہی آسان نہیں تھا۔

فلم بنانے کی کہانی بھی دلچسپ اور اتار چڑھاؤ والی ہے۔ پاکیزہ کمال امروہی کا عالی شان خواب تھا۔ اس فلم کی شوٹنگ 1954-1955 کے آس پاس شروع ہوئی تھی۔

مینا کماری اور کمال امروہی کی محبت عروج پر تھی اور دونوں کا نکاح بھی ہو چکا تھا۔

لیکن آہستہ آہستہ مینا کماری اور کمال امروہی کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور سنہ 1964 کے بعد دونوں الگ الگ رہنے لگے۔ دم توڑتے رشتوں کی دھول فلم پر بھی جمع ہوتی رہی اور ایک وقت ایسا آیا کہ فلم کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا۔

اسی دوران مینا کماری بہت بیمار رہنے لگیں۔

فلمی دنیا کی چوٹی پر بیٹھی مینا کو شراب کی لت لگ گئی۔ وہ علاج کے لیے بیرون ملک چلی گئیں۔ اب نہ وہ چہرا رہا تھا اور نہ وہ جسم۔

بیمار مینا کماری کی باڈی ڈبل

دلوں میں بیٹھ چکی سختی کو کچھ حد تک وقت نے کم کیا اور کچھ حالات نے۔ سب کچھ ایک طرف رکھتے ہوئے مینا کماری اور کمال امروہی نے سنہ 1968 میں دوبارہ فلم پر کام شروع کیا۔

فلم پاکیزہ کے گانے اور مجرے ہی فلم کی جان ہیں۔ لیکن جب فلم کی شُوٹنگ دوبارہ شروع ہوئی تو مینا کماری کی صحت ایسی نہیں تھی کہ وہ مشکل ڈانس سٹیپس کر سکیں۔

اسی لیے فلم میں کچھ منتخب جگہوں پر ان کے باڈی ڈبل کا استعمال کیا گیا ہے۔ میگھنا دیسائی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔

’پاکیزہ کے آخر میں ایک مجرا ہے جو فلم کو کلائمکس تک لے جاتا ہے۔ جب صاحب جان سلیم کی شادی پر مجرا کرتی ہیں۔

آج ہم اپنی دعاوں کا اثر دیکھیں گے، زخم جگر دیکھیں گے

اس مجرے میں اداکارہ پدما کھنہ کو بطور ڈبل استعمال کیا گیا تھا۔‘

مینا کماری کی صحت کے حساب سے بنے کپڑے

فلم کا ایک اور خوبصورت گانا ’موسم ہے عاشقانہ‘ ہے۔ فلم فیئر میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے مینا کماری کے سوتیلے بیٹے تاجدار امروہی نے اپنی چھوٹی ماں کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’جب پاکیزہ کی شوٹنگ دوبارہ شروع ہوئی تو ’موسم ہے عاشقانہ‘ گانے کی شوٹنگ ہو رہی تھی، بابا (کمال امروہی) نے اس گانے میں چھوٹی امّی کو کرتہ اور لنگی پہنوائی کیونکہ جگر کی بیماری کی وجہ سے ان کا پیٹ پھولا ہوا تھا، بعد میں یہ ایک ٹرینڈ بن گیا۔

خرابی صحت کی وجہ سے وہ بہت تھک جاتی تھیں لیکن جیسے ہی شوٹ شروع ہوتا، وہ دوبارہ پرجوش ہو جاتی تھیں۔‘

’فلم کے آخری مجرے میں مینا کماری کو تیز تیز گھومنا تھا اور پھر گر جانا تھا۔ لیکن ان کی صحت کی وجہ سے ان کے کلوز اپ بیٹھی ہوئی حالت میں ہی لیے گئے۔

ایک اور سین جس میں راج کمار سے نکاح کے وقت وہ سیڑھیوں پر دوڑتے ہوئے بھاگ جاتی ہیں وہاں بھی باڈی ڈبل کا استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ ‘چلو دلدار چلو’ گانے میں بھی ان کے چہرے پر زیادہ فوکس نہیں رکھا گیا۔‘

لیکن ان تمام پریشانیوں کے باوجود نہ تو مینا کماری کے حوصلے پست ہوئے اور نہ ہی کمال امروہی کے۔

بلیک اینڈ وائٹ میں شوٹ رقص: ’انہی لوگوں نے لے لیا‘

ویسے ٹوٹتے رشتوں کی دراڑوں کے درمیان لٹکتی اس فلم کو دوبارہ شروع کرنے کا سہرا نرگس کو بھی دیا جاتا ہے۔

میگھناد دیسائی اپنی کتاب ‘پاکیزہ – این اوڈ ٹو اے بائیگون ورلڈ’ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار نرگس اور سنیل دت نے پاکیزہ کے ابتدائی پرنٹس دیکھے اور کمال امروہی سے کہا کہ یہ فلم ضرور مکمل ہونی چاہیے۔

آپ کو یوٹیوب پر سنہ 1956 میں بلیک اینڈ وائٹ میں شوٹ کیا جانے والا ‘انہی لوگ نے لے لیا’ کا کلپ بھی ملے گا، جس میں مینا کماری رقص کرتی نظر آتی ہیں۔

چھ ماہ میں بنا بازار حسن کا سیٹ اپ

پاکیزہ جتنی اپنی اداکاری اور ہدایت کاری کے لیے جانی جاتی ہے اتنا ہی دوسری چیزوں کے لیے جیسا کہ فلم کے سیٹ۔

کمال امروہی نے دلی اور لکھنؤ کے کوٹھوں کی دنیا کو اپنے تخیل کے مطابق بخوبی ڈھالنے کی کوشش کی۔ بازار حسن کا سیٹ جہاں ’انہی لوگوں نے‘ کی شوٹنگ ہوئی تھی اسے بنانے میں تقریباً چھ ماہ لگے۔

زیورات جے پور سے لائے گئے تھے اور شوٹنگ کے دوران صاحب جان (مینا کماری) کے کمرے میں بہترین اور اصلی عطر کی شیشیاں رکھی جاتی تھیں۔

مینا کماری نے کاسٹیوم ڈیزائن کا ذمہ خود لیا تھا اور فلم کے کریڈٹ سے یہ ظاہر بھی ہوتا ہے۔

شوٹنگ کے دوران موسیقار اور سینماٹوگرافر کی موت

پاکیزہ ایک طوائف کی کہانی ہے جس کی موسیقی اور ہر گانا اس کی روح ہے۔ فلم کی شروعات ہی گھنگرو کی تھاپ سے ہوتی ہے اور آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ سفر موسیقی سے بھرپور ہو گا۔

اگرچہ غلام محمد ایک معزز موسیقار تھے لیکن اس وقت دوسرے موسیقاروں کا بول بالا تھا۔ لیکن کمال امروہی کی ضد تھی کہ موسیقی صرف غلام محمد ہی دیں گے۔

بارہ دھنوں میں سے 6 دھنیں کمال امروہی نے ترتیب دی تھیں اور ہر ایک گانا آج کی تاریخ میں نگینہ مانا جاتا ہے۔

غلام محمد فلم کے دوران ہی فوت ہو گئے تو نوشاد صاحب نے بیک گراؤنڈ سکور مکمل کیا۔

’انہی لوگ نے‘ کی موسیقی، دھن، سینماٹوگرافی اور آواز ہر پہلو ہی بے مثال ہے۔

جب مینا کماری گلابی لباس میں یہ مجرا کر رہی ہوتی ہیں تو آپ پس منظر میں مختلف جگہوں پر 10-12 طوائفوں کو رقص کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ کمال امروہی نے اس گانے کو بہت خوبصورتی سے سینیما سکوپ میں شوٹ کیا تھا۔

موسیقار کی طرح جرمن سینماٹوگرافر جوزف ورشنگ بھی فلم کے وسط میں فوت ہو گئے اور کئی سینما نگاروں نے فلم کو مکمل کرنے کے لیے مل کر کام کیا۔

کمال امروہی، ایک پرفیکشنسٹ

ویسے ہندی سنیما میں ’انہی لوگ نے‘ گانا کئی بار فلمایا جا چکا ہے۔ سنہ 1941 میں فلم ’ہمت‘ کے لیے شمشاد بیگم کا گایا ہوا گانا ہو یا ’آبرو‘ میں یعقوب کا گایا ہوا ورژن۔

میگھناد دیسائی نے اپنی کتاب میں فلم سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ سنایا ہے۔

وہ لکھتے ہیں، ’کمال امروہی نے بیرون ملک جا کر فلم کے لیے لینز خریدے، لیکن اس وقت لینز کیمرے میں لگے نہیں ہوتے تھے۔ ان کو فِٹ کرنا ایک پیچیدہ کام تھا۔ خیر امروہی نے لینز سے شوٹنگ کی۔ لیکن کچھ دنوں بعد انھوں نے کہا کہ سب کچھ آؤٹ آف فوکس ہے۔ کوئی ماہر اسے ماننے کو تیار نہیں تھا۔

آخر کار ایم جی ایم کمپنی لندن میں ٹیسٹ کروانے پر راضی ہوگئی۔ پھر ہالی ووڈ کی لیب سے بھی ٹیسٹ کروایا گیا اور پتہ چلا کہ لینز کے فوکس میں ایک ہزارویں حصے کا فرق تھا۔ اس حد تک امروہی ایک پرفیکشنسٹ تھا۔‘

موسیقی اور دھن بھی بے مثال

دوسرے پہلوؤں کی بات کریں تو پوری فلم میں آواز کا شاندار استعمال کیا گیا ہے۔ وہ رات کی خاموشی میں بجتی ٹرین کی سیٹی جو صاحب جان کو اس انجان شخص کی یاد دلاتی ہے اور اس کے دل میں امید جگاتی ہے۔

دوسرا لتا کی آواز میں وہ الاپ جو ہر بار سنائی دیتی ہے جب بھی صاحب جان گہرے غم میں ڈوب جاتی ہیں۔

اس فلم میں مجروح سلطان پوری (تھاڑے رہیو)، کیفی اعظمی (چلتے چلتے یوں ہی کوئی)، کیف بھوپالی (چلو دلدار چلو) جیسے لیجنڈ گیت نگاروں کے بول ہیں۔ موسم ہے عاشقانہ کے بول کمال امروہی نے خود لکھے ہیں۔

پاکیزہ پر تنقید

فلم کا میوزک ہو یا ڈائیلاگ… ہر پہلو میں ایک نفاست جھلکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک رئیس صاحب جان کو اپنے ساتھ رات گزارنے کے لیے شکارے پر لے جاتا ہے۔

لیکن صاحب جان کسی انجان شخص کی محبت میں کھو چکی ہے۔ صاحب جان کو خیالوں میں گم دیکھ کر وہ رئیس کہتا ہے ’تمھیں خریدا تو تھا پر نقصان ہو گیا۔۔دل کہتا ہے تم کوئی چرائی ہوئی چیز ہو جسے خریدنا جرم ہے۔‘

جب یہ فلم چار فروری 1972 کو ریلیز ہوئی تو یہ اپنے وجود میں آنے کے تقریباً 15 سال بعد سکرین پر آ رہی تھی۔ سنیما کے شائقین امیتابھ بچن کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے۔

دھیمے اور شاعرانہ انداز کے ساتھ بنائی گئی اس فلم کو پہلے دن ناقدین کی جانب سے انتہائی ناقص ریویوز دیے گئے۔

ونود مہتا نے اپنی کتاب ’مینا کماری دی کلاسک بائیوگرافی‘ میں لکھا ہے، ’اس وقت ٹائمز آف انڈیا نے پاکیزہ کو ایک پرتعیش ضیاع قرار دیا تھا۔ جب کہ فلم فیئر کے ناقدین نے پاکیزہ کو صرف ایک سٹار دیا۔‘

لیکن مراٹھا مندر میں ریلیز ہونے والی پاکیزہ نے آہستہ آہستہ اپنا جادو پھیلانا شروع کر دیا۔

پاکیزہ جسے کوئی ایوارڈ نہ ملا

پاکیزہ کو فلم فیئر میں کئی ایوارڈز ملنے کی امید تھی۔ لیکن لوگوں کو اس وقت کافی حیرت ہوئی جب فلم ’بے ایمان‘ کو بہترین فلم، بہترین ہدایت کار اور بہترین موسیقی کا ایوارڈ ملا۔

پران کو جب ’بے ایمان‘ کے لیے ایوارڈ ملا تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’پاکیزہ‘ بہترین میوزک ایوارڈ کی حقدار ہے۔

لیکن اس سب سے ہٹ کر ’پاکیزہ‘ کئی معنوں میں خاص تھی۔ یہ فلم 4 فروری 1972 کو ریلیز ہوئی اور 31 مارچ 1972 کو مینا کماری نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ پاکیزہ ان کا سینما شائقین کے لیے آخری تحفہ تھا۔

کمال امروہی نے اپنی زندگی میں صرف چار فلمیں بنائیں، جن میں سے پاکیزہ نے ان کا نام ہمیشہ کے لیے سینما کی تاریخ میں امر کر دیا۔

فلم کے آخر میں ایک منظر ہے جہاں صاحب جان کو سلیم (راج کمار) کی شادی کا دعوت نامہ ملتا ہے۔ سلیم کی شادی کی پیشکش کو وہ خود پہلے ہی ٹھکرا چکی ہے۔

صاحب جان (مینا کماری) دل کھول کر رقص کرتی ہے اور وہاں ٹوٹے ہوئے کانچ پر تھرکتے ہوئے اس کے پاؤں لہو لہان ہو جاتے ہیں۔ وہی پاؤں جن کے لیے سلیم نے ایک بار کہا تھا کہ انھیں زمین پر مت رکھیے گا۔

لیکن اس فلم میں آخر کار ایک عورت ہی عورت کے لیے آواز اٹھاتی ہے۔ صاحب جان کی خالہ خود کوٹھہ چلاتی ہیں اور انھوں نے صاحب جان کی والدہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی دیکھی ہے۔ وہ آخر کار صاحب جان کو اس کا حق دلاتی ہیں۔

فلم میں مینا کماری کا دہرا کردار ہے۔ ایک طوائف ماں کا بھی جو اشوک کمار کی بیٹی صاحب جان کو جنم دینے کے بعد مر جاتی ہے۔

یوں تو یہ فلم اس فریم پر ختم ہو سکتی تھی جب مینا کماری کوٹھے سے دلہن کے روپ میں رخصت ہوتی ہیں اور راج کمار کے ساتھ شادی کر لیتی ہیں۔

یہ ایک خوبصورت منظر ہوتا، لیکن کمال امروہی اسی کوٹھے کی ایک انجان طوائف کے چہرے پر لا کر فلم ’پاکیزہ‘ کا اختتام کرتے ہیں جس کی آنکھوں سے وہی تلاش، وہی سوال، وہی تڑپ چھلکتی ہے جو کبھی صاحب جان کی آنکھوں میں ہوا کرتی تھی۔

شاید یہاں کوئی اور صاحب جان جنم لے گی یا پھر وہیں قید ہو کر رہ جائے گی۔

بے مثال اداکاری، خوبصورت لباس، نقاشی والے عالیشان محل، قیمتی زیورات، دلکش نظاروں سے مزیّن کیمرے کا ہر فریم، سنگ مرمر کی طرح تراشی ہوئی موسیقی، مکالمے اور شاعری۔۔۔ ’پاکیزہ‘ دیکھنے کے بعد سمجھنا مشکل ہے کہ آپ کس کے لیے یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں۔

ونود مہتا کے مطابق مینا کماری نے کہا تھا کہ ’پاکیزہ ایک ایسا خواب تھا، جس کے پیچھے ان کی (کمال امروہی) روح برسوں سے بھٹک رہی ہے۔ یہ وہ محبوبہ ہے جو ان کے تخیل میں نہ جانے کب سے بسی ہوئی تھی۔‘

حقیقی زندگی میں مینا کماری اور کمال امروہی کی ادھوری محبت کی کہانی چاہے ادھوری ہی رہی ہو لیکن دونوں نے مل کر ’پاکیزہ‘ کا عالی شان خواب پورا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments