جی ٹی روڈ کا والی وارث کون ہے؟


چند دن پہلے ایک سماجی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے جہلم جاناپڑا۔ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے کا اتفاق بہت عرصے بعد ہوا تھا۔ جہلم تک موٹروے کا بھی کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ سیالکوٹ موٹروے سے کسی جگہ پر راستہ جہلم کی طرف بھی جاتا ہے۔ پر سمجھ نہ پایا۔ لہٰذا جی ٹی روڈ پر سفر کرنا لازم ٹھہر پڑا۔ اندازہ تھا کہ دو ڈھائی گھنٹے میں جہلم پہنچ جاؤں گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لاہور سے گوجرانوالہ تک کی سڑک بہت بہترحالت میں نہیں ہے۔ ٹوٹ پھوٹ اور بار بار بنانے کا دائمی سفر بغیر کسی ترددکے جاری ہے۔

اور پھر آبادی ’یقین فرمائیے۔ لاہور سے گوجرانوالہ تک ہر طرف انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ اتنی زیادہ آبادی کو سہولیات فراہم کرنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے۔ پھر کسی گاڑی یا بس والے کو ٹریفک کے کسی بھی اصول کے مطابق گاڑی چلانا حد درجہ غیر متوقع بنا دیا گیا ہے۔ سیلاب نما ٹریفک بس چلی ہی جا رہی تھی۔

بغیر کسی نظم و ضبط کے۔ بس اورموٹروں کی قطاریں ’دھواں‘ بدتمیزی سے مزین ہارن ہر طرف حشر کے دن کے معمولات بتا رہے تھے۔ سمجھ نہیں آ سکی کہ لاہور سے گوجرانوالہ سڑک کو ہم بہتر کیوں نہیں کر پائے۔ ایسی بدانتظامی نظر آئی کہ ڈرائیور کو گاڑی چلانا بہت مشکل ہو گیا۔ وہ سفر جو ایک گھنٹہ کا تھا۔ کم از کم ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ ویسے اگر بہتر سڑک ہوتی تو شاید یہ دورانیہ کم ہو کر چالیس پچاس منٹ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال لوگوں کی سہولت کی پرواہ کس کو ہے، اور ہو بھی کیوں۔ یہ ملک تو بنا ہی خواص کے لیے ہے۔

گوجرانوالہ شہر کو عبور کرتے خوشگوار حیرت ہوئی۔ پورے شہر کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی طویل پل تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس سے حد درجہ کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ گاڑیاں اور دیگر سواریاں بھی بہتر طریقے سے آ جا سکتی ہیں۔ یہ پل کئی کلو میٹر طویل ہیں۔ معیاری کام دیکھ کر احساس ہو گیا کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومت کے کیے ہوئے ہیں۔ سابقہ وزیراعلیٰ نے گوجرانوالہ شہر کو بہتر بنانے میں حد درجہ فعال رول ادا کیا ہے۔ یہ تمام طویل پل اور شاہراہیں سابقہ دور کی خوشگوار علامات ہیں۔ گزشتہ چار سالہ دور میں گوجرانوالہ کی حد تک کیا ترقی ہوئی ہے۔

اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شاید اس شہر کو نون لیگ کا گڑھ سمجھ کر عدم توجہ کا شاہکار بنا دیا گیا ہے۔ ویسے شہر جوبھی ہو ’جس بھی سیاسی پارٹی کی بالادستی ہو‘ مرکزی اور صوبائی حکومت کو اس کی ترقی اور تعمیر سے بالکل غافل نہیں رہنا چاہیے۔ گوجرانوالہ میں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے سابقہ مسلم لیگ نون کے دور کے ہیں۔ اس شہر سے جہلم جانا دشوار سا کام لگا۔ کہیں سڑک بن رہی ہے۔ کہیں اس کی مرمت جاری ہے۔ کہیں کوئی حکومتی ادارہ روڈ پر مٹی ڈال کر غائب ہو چکا ہے۔ سڑکوں میں گڑھے اور ناہمواری بالکل عام تھی۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ عوام اب دل چھوڑ چکے ہیں۔

سڑکوں کی بے ترتیبی کو اپنا مقدر جان کر خاموش ہو چکے ہیں۔ ویسے یہ گڑھے اب انسانوں کی روحوں تک کو زخمی کر چکے ہیں۔ ہاں کسی کسی جگہ سڑک معمولی سی بہتر ہو جاتی ہے، مگر یہ خوش قسمت دورانیے حد درجہ کم ہی نظر آئے۔ جناب میں ’جی ٹی روڈ کی بات عرض کر رہا ہوں۔ جس پر ہزاروں نہیں‘ لاکھوں گاڑیاں ’بسیں‘ ٹرک رواں دواں رہتے ہیں۔ اور یہ ماجرا بھی وسطی پنجاب کا ہے۔ کوئی ساؤتھ پنجاب یا بلوچستان کے متعلق عرض نہیں کر رہا۔ لاہور سے جہلم صرف ایک سو ساٹھ کلومیٹر دور ہے۔ مگر وہاں پہنچنے میں چار گھنٹے لگے۔

صوبائی اور مرکزی حکومت کے متعلقہ ادارے شاید مسلسل خواب خرگوش میں آرام فرما رہے ہیں۔ کیونکہ اس مصروف ترین سڑک کو تو قیامت خیز رفتار پر بہتر سے بہترین کرنے کا عزم ہونا چاہیے تھا۔ مگر صد افسوس کہ مکمل دورانیہ میں شدید عدم توجہ کا شکار نظر آئی۔ اس صورت حال پر افسوس کرنا ناکافی ہے۔ سڑکوں کوبہتر حالت میں رکھنا کسی بھی حکومت کی اہم ترین ذمے داری ہے۔ اور اس ذمے داری میں کم از کم طالب علم کو تو اداروں کی ناکامی کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آیا۔

اس زبوں حالی اور ذہنی کوفت کو جا بجا ٹول پلازوں کی موجودگی مزید عروج پر پہنچا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹیکس ہے جس کے متعلق وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہر دس پندرہ کلومیٹر بعد ’ایک بکس بنا ہوا ہے۔ جس میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز اہلکار‘ پیسے لے کر پرچی تھما دیتا ہے۔ جس بے دلی سے وہ پیسے لے کر پرچی دیتا ہے۔ اسی بے دلی سے ہر ڈرائیور ’اس کاغذ کی پرچی کو تھوڑا سا آگے جا کر زمین پر پھینک دیتا ہے۔ یہ ٹول پلازے اس کمال بے قاعدگی سے چل رہے ہیں کہ بس خدا یاد آ جاتا ہے۔ مجموعی طور پر کتنا پیسہ روز وصول کیا جاتا ہے۔ یہ کس مد میں جمع کیا جاتا ہے۔

سرکاری کھاتے میں جمع بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق یقین سے کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ بہتر ہے کہ کوئی سرکاری بابو ’پوری جی ٹی روڈ پر بھی ای ٹیگ شروع کروا دے تاکہ کم از کم ان عجیب سے ٹول ٹیکسوں سے تو نجات مل جائے۔ اگر بابو نہیں کر سکتا تو وزیراعلیٰ یا پھر وزیراعظم عوامی تکلیف پر توجہ دیں۔ ویسے ان سے گزارش کرنا بے مقصد ہے۔ اس لیے کہ موٹر وے پر ایم ٹیگ بھی عدالت عالیہ کے احکامات کے تحت لازم قرار دیا گیا ہے۔ طالب علم کی محترم چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ جی ٹی روڈ پر موجود ان گنت ٹول پلازوں سے عوام کی جن چھڑوائیں۔ شاید اس سے معاملات میں کافی بہتری آ جائے۔

ہاں ایک اہم بات کرنا بھول گیا۔ آپ لاہور سے جی ٹی روڈ پر پنڈی تک چلے جائیں۔ آپ کو لاتعداد قصبے ’شہر‘ دیہات نظر آئیں گے۔ ان میں ایک چیز یکساں ہے۔ شادی ہال اور مارکیاں۔ جہلم تک کم از کم مجھے سیکڑوں شادی گھر نظر آئے تھے۔

ایسے لگتا ہے کہ اس ملک میں شادیاں کرنے کے علاوہ کوئی کام رہا ہی نہیں۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ تقریباً تمام شادی ہال تقریبات سے بھرے ہوئے تھے۔ شادیاں ہی شادیاں اور پھر نتیجے میں لا تعداد بچے ہی بچے۔ شادی گھروں کے متعلق ایک صوبائی یا وفاقی منظم پالیسی کا ہونا از حد لازم ہے۔ کیونکہ ہر ہال کو ایک مربوط نظام کے تحت ریگو لیٹ کرنا خوش آیند ہو سکتا ہے۔ حکومت ہر وقت پیسے نہ ہونے کا رونا روتی نظر آتی ہے۔ اگر صرف شادی گھروں سے ہی پورا ٹیکس وصول کر لیا جائے تو کافی پیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔

مگر ہر شعبہ کی طرح ’ہمارے ہاں تنخواہ دار طبقے کے سوا ٹیکس دینا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک ٹیکس افسر نے بتایا کہ ایک الیکٹرانک کمپنی پورے سال میں چودہ ارب روپے کا لین دین کرتی ہے۔ مگر ٹیکس صرف اور صرف چند لاکھ دیتی ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ہمارے ہاں‘ ٹیکس کنسلٹنٹ قطار اندر قطار بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو ٹیکس چوری کرنے کے تیر بہدف نسخے بتاتے رہتے ہیں۔

اور تو اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں بھی ایسے گرو موجود ہیں جو ٹیکس بچانے کے طور طریقے سمجھانے میں عبور رکھتے ہیں۔ ویسے یہ بات تو درست ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے کافی محنت کی ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج آنے بھی شروع ہو چکے ہیں۔ بہر حال یہ ٹام اینڈ جیری کا وہ کارٹون کھیل ہے۔ جس کا کبھی کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل پائے گا۔

جہلم میں تقریب میں شمولیت کے بعد لاہور واپسی کا سفر چار گھنٹے کا تھا۔ یعنی آنے اور جانے میں تقریباً آٹھ گھنٹے صرف ہوئے۔ واپسی پر بے ہنگم ٹرکوں کی قطاریں جا بجا پھنسی کھڑی تھیں۔ تھوڑے سے سفر کے بعد ٹریفک رکی نظر آتی تھی۔ ٹریفک کا عملہ نہ دن میں موجود تھا اور نہ رات کو۔ ویسے دن اور رات میں ان کی عدم موجودگی سے کسی قسم کا کوئی عملی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی ٹریفک وارڈن کہیں نظر آ بھی گیا تو وہ زندگی سے بے زار ’آسمان کی طرف کسی دقیق فلسفہ پر غور کرنے میں مصروف تھا۔ ٹریفک کی بدانتظامی سے اس کو کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آئی۔

ایسے لگتا ہے کہ یہ ٹریفک وارڈن اور دیگر ترقیاتی ادارے صرف لاہور کے چند کلومیٹر میں ہی فعال ہیں۔ لاہور سے باہر ان کا وجود اور عدم وجود برابر ہو چکا ہے۔ ویسے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ کسی دن وہ بھی عام آدمیوں کی طرح جی ٹی روڈ پر سفر کریں۔

کسی بھی پروٹوکول کے بغیر بسوں اور ٹرکوں کی قطاروں میں گھنٹوں خوار ہوں۔ سڑک کے گڑھوں اور ناہمواری سے محظوظ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے کے بعد کچھ احکامات جاری ہو جائیں۔ جس سے اس مصروف ترین روڈ کی حالت زار بہتر ہو جائے۔ مگر یہ ہو نہیں پائے گا۔ اس لیے کہ کثیر رقم تو موٹروے کی بہتری کے لیے خرچ ہو جاتی ہے۔ باقی ان یتیم سڑکوں پر خرچے کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ یہ سوال تو وزیراعظم سے لازم پوچھنا چاہیے کہ جی ٹی روڈ کا والی وارث کون ہے!
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments