کتاب بانٹ کر پڑھیئے


بڑے بڑے دانشور دیکھے ہیں اور پھر ان کے معتقدین بھی جو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ کتاب پڑھیں، اور ساتھ ہی یہ ٹچ بھی لگا دیتے ہیں کتاب خرید کر پڑھیں۔ دانشور ایک ہی مشورہ دیتے ہیں لوگوں کو، وہ بھی ڈھنگ کا نہیں ہوتا، شاید اسی لیے دانشور کہلاتے ہیں۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ کبھی کسی دانشور کو دور کی نہیں سوجھی، کہ ہو سکتا ہے کوئی کتاب نہیں بھی خرید سکتا یا پھر خریدنا نہیں چاہتا۔ ورنہ وہ یہ ضرور کہتے کتاب مانگ کر پڑھیں۔

بھئی انسان کو سارے آپشن ذہن میں رکھنے چاہیے، یوں سگریٹ سلگا کر مشورہ نہیں دے دینا چاہیے۔ آئین میں تو آئے دن ترامیم ہوتی ہیں، لیکن جانے کیوں دانشور کے قول میں آج تک نہیں ہو سکی۔ صدیوں سے دانشور حضرات ایک ہی لکیر پیٹ رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے دانشور اپنے قول اور بعض فعل کے بھی انتہائی پکے ہوتے ہیں۔ کسی بھی عمر میں چلے جائیں قول کے ساتھ ساتھ ان کے فعل بھی وہی رہتے ہیں۔ لیکن یہاں فعل پر بات کر کے نیا کٹا کھولنے والی بات ہوگی۔ لہذا بات کو قول کی طرف ہی موڑتے ہیں۔

تو صاحبان کتاب خرید کر پڑھنے کا سب سے مضر اثر تو یہ ہے کہ اس سے کتاب کی قیمت کے مطابق جیب پر ہلکا، بھاری اثر ضرور پڑتا ہے۔ پیسوں کے حساب و کتاب میں لگے رہنے کی وجہ سے کتاب قاری کی توجہ سے محروم رہتی ہے۔ لیکن اگر یہی کتاب کہیں سے مفت پڑھنے کو مل جائے تو قاری کی خوشی دیدنی ہوجاتی ہے۔ اور کتاب کو ایک اچھا قاری مل جاتا ہے۔

یقین کریں میرے جیسے کئی مفت خورے ایسے ہوتے ہیں جن کی ایک ہی سوچ ایک ہی عزم ہوتا ہے کہ کتاب مانگ کر پڑھنی ہے یا چرا کر، تیسرے کسی بھی مستند ذریعے کو استعمال نہیں کرنا۔ میری تو بچپن کی عادت ہے پڑھنا ہے لیکن خرچنا نہیں۔ بچپن میں ماہنامہ پھول دادا (ابا کے کزن ) کی دکان سے لاکر پڑھتی تھی۔ مجھے یاد ہے جس زمانے میں خواتین ڈائجسٹ کا چسکا لگا تھا خرید کر تب بھی نہیں ہڑا تھا۔ میری خالہ زاد اور اس کی دو اور دوستیں مخلتف ڈائجسٹ خریدتیں اور پھر ایک دوسرے سے تبادلہ کرتیں، پھر اس سے پورے محلے کی خواتین باری باری مستفید ہوتیں۔

اور پھر آخر میں ڈائجسٹ مجھ ’معصوم‘ تک پہنچ جاتے۔ کتب کے سلسلے میں بھی یہی ہوتا۔ مستنصر حسین کے ناول اسی طریقے سے پڑھے ہیں۔ جنھیں کتاب مانگنے سے مل جائے وہ اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن یقین جانیئے ان کی کتاب سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو کتاب چرا کر پڑھتے ہیں۔ اور وہ اس سے بھی زیادہ توصیف کے لائق ہیں جو کسی درسی کتب میں چھپا کر پڑھتے ہیں۔

ایک انتہائی قریبی دوست کا اپنے بارے یقین ہے کہ وہ کتاب دوست ہے اس کے پاس کتابوں کا ایک خزانہ ہے، اور میری اس کے خزانے پہ گہری نظر ہے۔ اس سے جب بھی کتاب مانگی، اللہ جانتا ہے اس نے نہیں دی۔ بس اسی وجہ سے میرا دل اس کے لیے تھوڑا برا ہوتا ہے۔ اور دل سے وہ کچھ نکلتا ہے جو اس تک تو قطعاً نہیں پہنچنا چاہیے۔ خیر پہنچ جائے تو مضائقہ بھی کوئی نہیں۔ اسے بہت سمجھایا کہ کتاب سینت سینت کر رکھنے سے خراب ہوجاتی ہے۔

اور کتاب کا مواد صاحب کتاب کو کوستا رہتا ہے، بلکہ منٹو کے افسانوں جیسی کچھ نادر کتب ایسی بھی ہوتیں ہیں جو کم از کم چار مختلف لوگوں کو ضرور پڑھنے کو دینی چاہیے۔ اور ایسا نہ کرنے والے پر کتاب کا کفارہ واجب ہوجاتا ہے، جو کچھ اس طرح ہے کہ کتاب خرید کر دس غیر مستحقین یعنی خالص مومنین میں بانٹی جائے۔ لیکن اس پر اثر نہیں ہوتا۔ کتاب کو دیمک چاٹ جائے وہ منظور ہے لیکن کسی ’اہل کتاب‘ کو دینا اسے منظور نہیں۔ چونکہ اس کا اپنے بارے خیال ہے کہ وہ بھی کسی دانشور سے کم نہیں لہذا اس کی طرف سے ہمیشہ کتاب خرید کر پڑھنے کا مشورہ مفت ملتا ہے۔

لیکن میری رائے اس کے بارے کچھ اور ہے۔ اپنی کسی بھی کتاب کو ہوا نہ لگوانے کی وجہ ایک ہی سمجھ آتی ہے کہ اس کی پوری کوشش ہے کہ کتاب اس کے سوا کوئی اور نہ پڑھ سکے۔ لاکھ سمجھایا مجھ نہیں تو دوستی ہی پہ یقین رکھو کتاب واپس آ جائے گی لیکن وہ بہت ہی کوئی مہا دانشور ہے، اسے میری کمینگی پہ زیادہ یقین ہے۔ چلیں میری تو کوئی بات نہیں، جیسے ہی پہلے کی طرح موقع ملا میں کتابیں چرا لاؤں گی۔ لیکن بات تو ان بیچاروں کی ہے جنھیں دوستوں سے ایسے مواقع ملتے ہیں اور نہ ان کی جیب ہی اجازت دیتی ہے کہ وہ کتاب خرید سکیں۔ تو پھر وہ شوق کے مارے ناکام عاشق کی طرح کتاب کے لیے تڑپتے بھی رہتے ہیں اور محروم بھی۔

دانشور لوگوں کا یہ شکوہ بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی طرف سے بڑے بھرپور طریقے سے یہ تحریک بھی چلائی جاتی ہے ’موبائل سے بیزاری اور کتاب سے دوستی کیجیئے‘ لیکن جونہی ایسے کسی مصاحب سے کتاب مانگو وہ فٹ سے موبائل کی اہمیت بتانے لگ جاتا ہے۔ کہ جو لوگ کتاب نہیں خرید سکتے ان کے لیے نیٹ پر پی ڈی ایف کی سہولت موجود ہے۔ اور جیسا کہ آپ بھی جانتے ہوں گے کہ جان اللہ کو دینی ہے، اب جس کے ہاتھ میں موبائل ہو وہ بھلا مانس فیس بک تو پڑھ سکتا ہے پی ڈی ایف سے کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے نہیں۔

ایک طرف موبائل سے دوری کا بھاشن دیا جاتا ہے کہ ’خبردار موبائل ہمارا کھلا دشمن ہے‘ اور دوسری طرف موبائل سے قربت بڑھانے کا مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ تب وہ سارے ڈاکٹری اسرار جو ہر موبائل زدہ پر کھولے جاتے ہیں۔ آنکھوں، گردن اور مہروں کے سنگین مسائل جن کو گھوم پھر کر موبائل کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، ان پر پی ڈی ایف کی چادر ڈال دی جاتی ہے۔

اگر کتاب دوست لوگ سچ میں چاہتے ہیں کہ لوگ کتب بینی کی طرف راغب ہوں تو ایسا اہتمام کریں کہ کتاب ہر ایک کی پہنچ میں ہو، کتاب کم قیمت ہو۔ پبلک لائبریریاں زیادہ اور رہائشی علاقوں سے قریب ہوں۔ کتاب سے بہتر تحفہ کوئی نہیں، کوشش کی جائے کہ خود پڑھ لیں تو اپنے دوستوں کو پڑھنے کے لیے تحفہ میں دیں۔ اور پھر کتاب مزید اس کے مستحقین تک پہنچتی رہے۔ کتاب خرید کر پڑھیں یہ نعرہ ہوا پرانا، اب ”کتاب بانٹ کر پڑھیں“ کا منشور دینا ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments