ہم تاریخی حقائق سے کیوں خوفزدہ ہیں؟


پاکستان میں تاریخی حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روایت کا آغاز 60 کی دہائی سے شروع ہوا اور 80 اور بعد کی دہائیوں میں اسے عروج نصیب ہوا۔

اب تاریخ کو اس قدر مسخ کر دیا گیا ہے کہ ہمارے طالب علموں کو اپنے ملک کے اہم سماجی اور سیاسی واقعات کے بارے میں نصابی کتابوں میں غیرجانبدار اور درست معلومات نہیں مل پاتیں۔ وہ معلومات مہیا کی جاتی ہیں جو ایک خصوصی سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد کرتی ہیں اور واقعات کو چند افراد اور گروہوں کے مفادات کے مطابق بیان کرتی ہیں۔

پاکستانی تاریخ کے اس سیاسی استعمال اور استحصال کی وجہ سے ہماری تاریخ نہ تو جامع ہے اور نہ ہی حقیقت پر مبنی۔

اسی لیے ہمارے ریاستی نظام تعلیم سے فارغ التحصیل طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو مغرب میں تحقیق پر مبنی پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کتابیں پڑھ کر پریشانی اور حیرت ہوتی ہے۔ بہت سارے طالب علم اسے پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا سمجھتے ہوئے مسترد کر دیتے ہیں۔

ہماری کسی تاریخ کی نصابی کتاب میں قائد اعظم کی پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو 11 اگست کی اہم تقریر کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ یہی حال ہماری ملکی سیاست کے سب سے بڑے المیے سقوط مشرقی پاکستان کا ہے۔ ایک منظم کوشش کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں اس المیے کے بارے میں نصابی کتابوں کے ذریعے غلط معلومات ڈالنے کا بڑی کامیابی سے اہتمام کر دیا گیا ہے۔

80 کی دہائی سے تعلیمی نصاب میں سقوط مشرقی پاکستان کی ساری ذمہ داری اس وقت کے حکمران جرنیلوں کی غلط پالیسیوں سے ہٹا کر سیاست دانوں اور ہمسایہ ملک پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی گئی اور اس کے لیے تعلیمی نصاب کو من پسند طریقوں سے استعمال کیا گیا۔

تاریخ کے استحصال اور قتل کے ذریعے اس تصور کو تقویت دی گئی جیسے 1958 سے لے کر 1971 کے 12 سالوں میں سیاست دانوں کی حکومت تھی اور وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلوں کی وجہ بنے۔ اس المیے کے اہم ذمہ داروں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی کو اس سنگین جرم سے مبرا کرنے کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی اور اس وقت ملک کے بیشتر نوجوان اور طالبہ اس نصابی غلط بیانی کی وجہ سے اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کرنے لگے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت تھے۔

اس تصور کو مضبوط کرنے کے لیے سیاست دانوں کو پاکستان کے بننے کے بعد آئین وقت پر نہ بنانے کا بھی الزام لگایا گیا حالانکہ 1956 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے مل کر متفقہ آئین تیار کر لیا تھا جس میں دونوں بازوؤں کے سیاست دانوں نے دانش مندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں حصوں کی برابری کو تسلیم کیا اور زبان کے مسئلہ کو بھی کامیابی سے حل کر کے اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔

اس آئین کو سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی سازشوں کی وجہ سے نہ چلنے دیا گیا اور صرف دو سال بعد 1958 میں پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کو ایوب خان کے مارشل لا کے ذریعے ختم کر دیا گیا مگر ہماری تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں اس کی ناکامی کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہرایا گیا۔

اس متفقہ آئین کے خاتمے نے پاکستان کی سلامتی پر پہلا جان لیوا حملہ کیا جو ایوبی مارشل لا کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بنا۔ اس دور میں جنرل ایوب اور مرکز نے ساری سیاسی طاقت سنبھال لی اور دونوں صوبوں کے 1956 کے آئین میں دیے گئے صوبائی اختیارات تقریباً ختم کر دیے گئے جو ایک وسیع عوامی بے چینی کا سبب بنے۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں کے 1962 کے انتخابات میں پابندی نے ملکی یکجہتی کو مزید کمزور کیا۔ 1962 میں مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے حامی گورنر منیم خان نے ظالمانہ طریقے سے ایوب مخالف جماعتوں اور رہنماؤں کو نہ صرف دبایا بلکہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور ایوب خان کے لیے ایک حامی سیاسی گروپ کو پروان چڑھایا گیا۔

1965 کی انتخابی مہم میں ہزاروں بنگالی سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور پریس کو بھی سختی سے کنٹرول کیا گیا۔ طالب علموں کی ہڑتالوں سے تشدد سے نمٹا گیا اور یونیورسٹیوں میں گھس کر طالب علموں کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں نے مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو نہ صرف ایوب خان سے مایوس کیا بلکہ مغربی پاکستان کے خلاف بھی ایک غصے اور کچھ حد تک نفرت کو بھی ہوا دی کیونکہ ایوب خان کو مغربی پاکستان کا نمائندہ سمجھا جانے لگا۔

1965 کی جنگ نے ان خیالات کو مزید قوت دی اور یہ خیال بھی جڑ پکڑنے لگا کہ مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے خلاف بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ معاشی ترقی میں بھی ایوبی دور میں مغربی پاکستان کئی درجہ آگے نکل گیا اور 1959 اور 1960 میں فی کس آمدنی میں مشرقی پاکستان سے 32 فیصد برتری حاصل کر لی۔ یہ برتری 1970 میں بڑھ کر 61 فیصد ہو گی۔

اس سیاسی اور معاشی نا انصافی نے ہمیں 1971 کے المیے سے دوچار کیا جب ہماری فوجی قیادت نے مغربی پاکستان کے کچھ سیاسی رہنماؤں سے مل کر مشرقی پاکستان کے عوام کے سیاسی فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنی ہی عوام کے خلاف لشکر کشی کردی جس کی وجہ سے بے تحاشا ہلاکتیں ہوئیں اور آخرکار ملک دولخت ہو گیا۔

لیکن یہ سارے تلخ تاریخی حقائق آپ کو نصاب کی کتابوں میں نہیں ملیں گے۔ ہماری نصابی کتابوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مشرقی پاکستان کبھی ہمارا حصہ ہی نہیں تھا اور بنگالی ہمارے ساتھ شروع سے ہی رہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

عموماً سمجھدار قومیں تاریخ کی ان غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہم نے ان تلخ تاریخی حقیقتوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان سے آنکھیں چھپاتے ہوئے اور کچھ اداروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ان حقیقتوں کو آہستہ آہستہ ہمارے طالب علموں کے سامنے مسخ کر کے پیش کرنا شروع کر دیا۔

کسی حد تک حقائق سے چشم پوشی کی یہ روایت آج کل بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں میں بھی کی جا رہی ہے۔ کیا یہ رویہ ہمیں ایک پڑھی لکھی قوم بنا سکتا ہے اور ہمیں ماضی کی غلطیوں سے بچنے میں مدد گار ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments