بلبل موسیقی پرواز کر گئی


سر سنگیت اور آواز کی دیوی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر برصغیر کے لاکھوں پر ستاروں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے بھگوان سے جا ملی۔ سات دہائیوں سے اپنے فن کا جادو جگانے والی مدھر، سریلی اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ آج سنگیت اداس ہے۔ یہ مدھر، شیریں اور دلکش آواز اب کبھی سنائی نہیں دے گی۔

آج لتا جی ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے پرستار دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں ان کے فن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ایسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی یاد صدیوں میں بھی بھلائی نہیں جا سکتی۔

یہ نامور گلوکارہ کووڈ۔ 19 اور نمونیا جیسی جان لیوا وبا کا شکار ہو کر 6 فروری 2022 کو 92 سال کی عمر میں ممبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ 8 جنوری کو ان کا کووڈ ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا 28 دن کا یہ عرصہ انہوں نے زیادہ تر وینٹی لیٹر پر گزارا لیکن باوجود اس کے کہ ہندوستان کے بہترین ڈاکٹرز ان کے علاج پر مامور تھے وہ لتا منگیشکر کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے انچارج ڈاکٹر پراٹیٹ صمدانی کا کہنا ہے کہ لتا جی کے ملٹی آرگن فیل ہو جانے کے بعد ان کا صحت یاب ہونا ناممکن تھا۔

لتا منگیشکر کے خاندان کا تعلق ریاست مہا راشٹر سے تھا۔ ان کے والد دینا ناتھ منگیشکر خود مراٹھی فلموں کے اداکار اور موسیقار تھے۔ لتا کی چار بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ جس میں آشا اور اوشا منگیشکر خود ایک کامیاب اور مشہور گلوکارہ تھیں۔ لتا ستمبر 1929 کو ہندوستانی شہر اندور میں پیدا ہوئیں۔ 1942 میں جب لتا صرف 13 سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور پورے گھرانے کی ذمہ داری 13 سالہ لتا منگیشکر پر آن پڑی۔

اپنے کیریر کے آغاز میں انہیں مراٹھی فلموں میں گانوں کے چھوٹے موٹے رول ملنے لگے۔ 1945 میں ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں بمبئی منتقل ہو گئیں۔ لتا کیونکہ مراٹھی زبان کے علاوہ اردو یا ہندی سے ناواقف تھیں اس لئے ہندی فلموں میں گائیکی ان کے لیے مشکل ثابت ہوئی۔ اس زمانے میں گیت کار اردو کے مشہور شعرا ہوتے تھے جیسے مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، راجہ مہدی علی خان، جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی وغیرہ۔

اردو گیت کو پہلے مراٹھی میں ٹرانسلیٹ کیا جاتا تھا پھر لتا کو دیا جاتا تھا۔

اردو اور ہندی تلفظ، زبان کی روانی، اور درست ادائیگی، اہل زبان کی طرح ک اور ق کا فرق اردو زبان کی یہ سب باریکیاں لتا منگیشکر کی گائیکی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے انہوں نے اردو کے ایک استاد جن کا نام شفیع تھا کا سہارا لیا۔ اردو سیکھنے کے بعد ان گیتوں کی ادائیگی میں ان کا مراٹھی لہجہ کافی کم ہو گیا تھا لیکن عام بول چال میں مراٹھی زبان کا گہرا رنگ جھلکتا تھا جو ایک قدرتی امر تھا۔

صاف اور شستہ اردو تلفظ کی درست ادائیگی میں اردو شاعروں اور موسیقاروں کا بڑا کردار تھا۔ بالخصوص موسیقار اعظم نوشاد علی کا جو خود لکھنو سے تعلق رکھتے تھے۔ گانے میں ک اور ق کے فرق کو وہ بہت سنجیدگی سے لیتے تھے۔ ایک گانا کئی کئی مرتبہ ری ٹیک ہوتا تھا۔ یہی حال مشہور گلوکار محمد رفیع کا تھا وہ بھی اردو کے معاملے میں نوشاد کے شاگرد رہیں ہیں۔ لیکن شاباش ہے لتا منگیشکر پر کہ اردو زبان کے ہزاروں گانوں میں کبھی بھی غلط تلفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی بے سری ہوئیں۔ جس کا اعتراف استاد بڑے غلام علی خان جیسے ماہر کلاسیکل گائیک نے کیا تھا۔

لتا نے کلاسیکل گائیکی استاد بڑے غلام علی خان اور استاد امانت علی خان جیسے جید اور ماہر فن گائیکوں سے سیکھی اور سنی۔ امرتسر میں ایک محفل کے دوران استاد بڑے غلام علی اور پنڈت جس راج محو گفتگو تھے وہاں ریڈیو پر فلم انار کلی کا ایک گانا بج رہا تھا بول تھے یہ زندگی اسی کی ہے آواز لتا کی تھی۔ یہ گانا سننے کے بعد غلام علی خان نے کہا۔

کم بخت کبھی بے سری نہیں ہوتی یہ خدا کی دین ہے۔ استاد کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا۔ بعد میں جب لتا جی کو استاد کے یہ تعریفی جملے سننے کو ملے وہ بھی بڑے غلام علی خان کی زبان سے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

سال 1948 مشہور موسیقار غلام حیدر کی ملاقات لتا منگیشکر سے ہوئی۔ انہوں نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وہ لتا کو ایک پروڈیوسر مکر جی کے پاس لے کر گئے کہ آپ اس بچی کو گانے کا ایک چانس دیں لیکن پروڈیوسر راضی نہیں ہوا اور کسی وجہ سے انکار کر دیا۔ غلام حیدر بہت ناراض ہوئے۔ بعد میں انہوں نے لتا کو 1948 میں بننے والی ایک اور فلم مجبور میں گانے کا ایک موقعہ دیا۔ اس فلم میں غلام حیدر خود میوزک کمپوز کر رہے تھے۔

یہ فلم لتا کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور پھر اس گلوکارہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

سال 2013 میں ایک انٹرویو کے دوران لتا منگیشکر نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ موسیقار غلام حیدر ان کے گاڈ فادر ہیں۔ 1949 میں مشہور فلم ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کمال امروہی ایک فلم محل بنا رہے تھے۔ اس فلم میں جس مغنیہ نے گیت گانے تھے اس نے کسی وجہ سے انکار کر دیا۔ اب دوسری گلوکارہ کی تلاش شروع ہوئی قرعہ فال لتا جی کے نام نکلا۔ گانے کے بول تھے آئے گا آنے والا۔ آس گانے کی کمپوزیشن اس وقت کے مشہور موسیقار کھیم چند پرکاش کر رہے

تھے۔ لتا نے اس گیت کو اس خوبی اور مہارت سے گایا کہ پورے ہندوستان میں اس فلم اور گانے کی دھوم مچ گئی۔

انیس سو پچاس کی دہائی لتا منگیشکر کے فلمی کیریر کے لیے نہایت اہم تھی۔ اس دہائی میں انہوں نے اپنی شناخت بنائی اور بمبئی کی فلم نگری سے منوائی۔ 50 کی دہائی میں لتا نے ہندوستان کے چوٹی کے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جس میں

انل بسواس، موسیقار اعظم نوشاد علی، شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، حسن لال بھگت رام، سی رام چندر، سلیل چوہدری، روی، روشن، خیام، مدن موہن اور وسنت ڈیسائی وغیرہ۔

لتا نے اپنے فلمی کیریر کی سات دہائیوں میں تیس ہزار سے زائد گانے گائے اور مختلف زبانوں میں لیکن ان میں سے یہ بتانا کہ ان کی کون سی فلم کا کون سا گانا سب سے بہتر تھا ایک مشکل کام ہے۔

سن 1949 میں لتا نے راج کپور کی ڈائریکشن میں بننے والی فلموں برسات اور آہ کے گانے گائے جو سب ہٹ ہوئے۔

پھر 1952 میں موسیقار نوشاد اور شکیل بدایونی کے لکھے ہوئے فلم بیجو باورا کے گیتوں نے جو لتا اور محمد رفیع کے ڈیوڈ تھے فلم انڈسٹری می دھوم مچا دی۔ یہ فلم نہ صرف لتا منگیشکر بلکہ محمد رفیع کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوئی۔

پھر ڈائرکٹر کے آصف کی دس سالہ محنت سے بنائی گئی فلم مغل اعظم جو ہندوستانی فلم انڈسٹری میں صف اول کی فلم قرار دی گئی کے مشہور گانے جب پیار کیا تو ڈرنا کیا اور موہے پنگھٹ پے نند لال چھیڑ گئے رے جیسے گیت لوگ آج تک نہیں بھولے۔ دلیپ کمار کی فلم مدھو متی، گنگا جمنا کے گانے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر محبوب کی فلم مدر انڈیا کے گانے جو شاید آسکر ایوارڈ کے لیے بھی چنی گئی تھی۔ فلم انار کلی، ہیمنت کمار کی موسیقی میں دھوم مچا دینے والی فلم ناگن۔ آپ کس کس فلم کے گانوں کے نام گنوائیں گے یہ تو صرف چند نام ہیں۔

لتا منگیشکر کی مدھر آواز قدرت کا ایک عطیہ تھی اور اس عطیے کو مزید سنوارنے، نکھارنے، گائیکی کا انداز، درست تلفظ یہ سب کچھ جس شخص نے سکھایا وہ موسیقار اعظم نوشاد تھے جن کی زبان دانی کمال کی تھی۔ نوشاد نے لتا سے کلاسیکل گانے بھی گوائے۔

اس دور میں لتا اپنی ہم عصر گلو کاروں میں بھی سب سے اہم مقام رکھتی تھیں جن میں ثریا، نور جہاں، شمشاد بیگم، گیتا دت، سمن کلیان پور اور خورشید شامل ہیں

بمبئی کی فلم نگری میں لتا منگیشکر کی دوسرے ہم عصر فنکاروں کے ساتھ چپقلش، تناؤ، اور موسیقاروں کے ساتھ بول چال بند ہونے قصے بہت مشہور ہیں اور کچھ افسانے بھی ہیں۔ مثلاً گانوں کی رائیلٹی کے مسئلے پر لتا اور رفیع کے درمیان تین سال تک بات چیت بند رہی حالانکہ دونوں نے بلا شبہ سیکڑوں گانے ایک ساتھ گائے ہیں۔ اسی طرح مشہور میوزک ڈایریکٹر ایس ڈی برمن کے ساتھ تاریخوں کے معاملے پر دونوں کے درمیان سات سال تک بات چیت بند رہی۔

موسیقار آؤ پی نیر سے کسی معمولی بات پر لتا نے ساری عمر ان کی کسی فلم میں کوئی گیت نہیں گایا۔

پھر فلم انڈسٹری میں نئی ابھرنے والی کئی گلو کارواں کو لتا جی سے یہ شکایت تھی کہ وہ کسی کو آگے آنے اور ابھرنے کا موقع نہیں دیتیں۔ اس کی ایک مثال سمن کلیان پور کی بھی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی اپنی سگی بہن آشا سے لتا کی فنی مسابقت جاری رہی۔ لتا منگیشکر غیر شادی شدہ تھیں جوانی میں ان کے عشق کے قصے استاد امانت علی خان سے منصوب کیے گئے تھے۔

میلوڈی کوئین کو بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا جس میں سرکار کی طرف سے اور فلمی اور غیر فلمی ایوارڈز دونوں شامل ہیں۔ لتا کو سب سے پہلا سرکاری ایوارڈ پدما بھوشن 1969 میں دیا گیا تھا۔

1989۔ میں انہیں فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
2001 میں لتا منگیشکر کو ہند سرکار کی طرف سے سب سے بڑا سول ایوارڈ بھارت رتنا دیا گیا۔
اس کے علاوہ متعدد فلم فیر اور دیگر ایوارڈز وقتاً فوقتنا دیے جاتے رہے۔

لتا منگیشکر وہ پہلی ہندوستانی گلوکارہ تھیں جنہیں 1974 میں رایل البرٹ ہال لنڈن میں لائیو پروگرام کرنے کی اجازت ملی۔

بلبل ہندوستان کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ شوا جی پارک ممبئی میں سپرد آگ کیا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اپنی تمام سرکاری مصروفیات ترک کر کے دلی سے ممبئی پہنچے تاکہ اس عظیم گلوکارہ اور فن کارا کی آخری رسومات میں شرکت کر سکیں۔ ہند سرکار نے لتا منگیشکر کی یاد میں دو روزا سرکاری سوگ کا اعلان کیا

اور قومی پرچم سر نگوں رہے گا۔

اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بیگم حسینہ واجد، سری لنکا کے وزیر اعظم راجہ پکسے اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی لتا منگیشکر کے انتقال پر اظہار ہمدردی کا پیغام بھیجا ہے۔

یہ ہوتا ہے فن کے قدر دان ملکوں میں اپنے فن کاروں کی سرکاری سطح پر آخری رسومات جب کہ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر قومی پرچم میں لپٹی ہوئی یہ عزت صرف وردی والوں کے حصے میں آتی ہے سولین کے لئے نہیں۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments