اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟


سب کہتے ہیں کہ بڑھاپا تب آتا ہے، جب آپ خود کو بوڑھا سمجھنے لگتے ہیں۔ یا یہ کہ اولاد کی طرف دیکھنے کی بجائے آپ کی اپنی مصروفیات اور مشاغل ہونے چاہیے تاکہ جب وہ اپنے گھونسلوں کو چھوڑ کر آگے کی اڑان بھریں تو آپ کی نظریں دیدار کی چوکھٹوں اور آپ کے کان فون کی آوازوں کے منتظر زندگی کے کتاب کے ختم ہونے کا انتظار نہ کریں۔ بلکہ آپ کے پاس اپنا جہاں آباد ہو، جس میں آپ خود کو بہلائیں اور جسمانی اور ذہنی آزاروں سے ممکنہ حد تک بچیں رہیں۔ لیکن میرے معاملے میں تو یہ سارے فلسفے غلط ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔

میں ستر سال کا ہوں۔ تین کامیاب بچوں کا باپ ہوں۔ لیکن میرا اصل حوالہ میرا اپنا آپ ہے۔ پاک فضائیہ کا ریٹائرڈ ہوں اور تب سے اس عمر تک میں ایک دکان چلاتا ہوں۔ پہلے خاندان کو پالنے کو یہ سب کرتا تھا۔ لیکن وہ ذمہ داری بھی سالوں ہوئے ختم ہو گئی جب سے بچے بر سر روزگار ہوئے۔ لیکن مجھے اپنی خود مختاری، اپنے دوست اور اپنا آبائی گھر پیارا ہے۔ اس لئے بچوں کی طرف آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اسی گھر میں رہتا ہوں جہاں ہماری پوری عمر کی جڑیں اور یادیں ہیں۔

اور مجھے یہی لگتا ہے کہ جوں جوں عمر ڈھلتی ہے۔ توں توں آسائش سے زیادہ سماجی تعلقات کی موجودگی انسان کو زیادہ مطمئن رکھتی ہے۔ گاؤں کے اس گھر میں تنہائی کا ڈر نہیں۔ کیونکہ ہم سب بھائیوں کے گھر ظاہراً علیحدہ علیحدہ لیکن عملاً آپس میں جڑے ہیں۔ ہر گھر کا دروازہ دوسرے گھر کے اندر کھلتا ہے۔ اس لئے نہ رشتوں کی کمی ہے نہ صحبت کی۔ میری صبح فجر کے ساتھ ہوتی ہے اور رات شام ڈھلے۔ میرا معمول عام طور پر مخصوص ہے۔

بعد نماز فجر، ناشتہ اور پھر دکان روانگی، اور وہاں سے چار، پانچ بجے واپسی۔ ادھر سورج چھپنا شروع ہوتا ہے، ادھر میں رات کے کھانے سے فارغ۔ پھر عشاء کی ادائیگی اور سونے کی تیاری اور ساتھ کتاب بینی۔ چھوٹے موٹے کام درمیان میں چلتے رہتے ہیں۔ بات لمبی ہو گئی لیکن بتانا یہ تھا کہ یہ سارا قصہ پانچ ماہ پرانا ہے۔ جب میں ہر دم متحرک اور فعال تھا۔ تب میرے ہاتھ، پاؤں یوں ہلتے نہ تھے۔

آج سے پورے پانچ مہینے پہلے، پہلی دفعہ مجھے اپنے بائیں ہاتھ میں لرزش محسوس ہوئی۔ بات لمحوں کی تھی جس کو میں نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ لیکن اس کے بعد وقتاً فوقتاً مجھے یہ کیفیت دونوں ہاتھوں اور سر میں محسوس ہونے لگی اور ہفتوں کے اندر اندر میرا سر اور ہاتھ کی حرکت یوں لگا، فری ہو گئی۔ جس پر میرا کنٹرول ختم ہونے لگا۔ وہ بات جو معمولی سمجھ کر میں نے کسی بچے کو نہ بتائی وہ اب خود اپنے ہونے کا اعلان کرنے لگی۔ کوئی کہے رعشہ ہے، کوئی بولے کمزوری۔ غرض مفت مشوروں کی لمبی پٹاری۔ بچے الگ پریشان۔ بچے سمجھدار ہیں اور قابل بھی۔ انھوں نے ڈاکٹروں کا کہا۔ اور میں نے حکمت اور ہومیو پیتھی کو رجوع کیا۔

اسی سلسلے میں آج پھر ایک ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھا ہوں۔ میری ڈاکٹر بیٹی بھی ساتھ ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے بتایا کہ آپ کو پارکنسن ہے۔ کچھ مشقیں کروائیں۔ اور کہا کہ ابھی ابتدائی اسٹیج ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ برا ہوتا جائے گا۔ اس کا نہ ریورسل ہے نہ روکنا ممکن ہے۔ یہ دماغ کے خلیوں کا فطری اختتام ہے جس کی آثار تب ظاہر ہوتے ہیں جب ان میں سے اسی فیصد ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔

مزید حقیقتیں میرے بچے جان چکے تھے کہ یہ انسانی دماغ کی وہ طاقت ہوتی ہے جو آپ کی حرکات، چہرے کے تاثرات، یادداشت کو کنٹرول کرتی ہے۔ اور اس کا مرنا، آپ کو جسمانی سٹفنس، جیمنگ، اور ڈمینشیا میں مبتلا کر دے گا۔ آپ کے اعضاء ہلنا چاہتے ہیں لیکن ہلتے نہیں۔ آپ سوچنا چاہتے ہیں لیکن سر اور ہاتھوں کی مسلسل، بے اختیار، تیز کانپتی حالت آپ کو کچھ کرنے نہیں دیتی۔ جتنا سوچیں گے، اتنی ہی کیفیت شدت پکڑے گی۔ کتاب پڑھنا چاہیں گے، لیکن سر کسی ایک جگہ ٹکے گا ہی نہیں۔

آپ گاڑی چلانا چاہیں گے لیکن سٹیرنگ پر آپ کی گرفت پڑے گی ہی نہیں۔ سڑک پار کرنا چاہیں گے لیکن سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ حتی کہ گلاس پکڑنا، واش روم جانا، خود وضو کرنا، کروٹ بدلنا غرض ہر کام کے لئے آپ محتاج ہو جائیں گے۔ ہم اس کے ہونے پر بند نہیں باندھ سکتے۔ ہاں جس پر گزر رہی ہوتی ہے، اس کے لئے اتنی سی آسانی پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ خود کو کچھ سنبھالے رکھیں۔ لیکن بہرحال احتیاط اور توجہ درکار ہے۔ میں اس امید پر بیٹی کے ساتھ، تیسری دفعہ ڈاکٹر کے پاس آیا تھا کہ شاید کوئی امید بنے۔ کوئی دوائی ملے، جو اس بے چینی اور بے بسی کو لے جائے۔ ایسی تجویز آئے، جو مجھے صحت یاب کر دے۔ پر اب تو لگتا ہے کی قدرت کی اس آزمائش کا عادی ہونا پڑے گا۔

ٹھہرئیے! یہ مت سمجھئے گا کہ میں مایوس ہو رہا ہوں۔ یا اللہ سے شکوؤں کی قطار لگا دوں گا۔ مجھے کوئی شکایت نہیں۔ اس کریم ذات نے تو ہر لمحہ، ہر گھڑی نوازا ہے۔ گھر بار، عزت، تعلیم، خاندان، دوست احباب، سکون، محبت کیا نہیں ہے جو میرے پاس نہ ہو۔ لیکن پھر بھی اپنی بیماری کی آگہی نے ایک ہی آن میں ادراک کے کئی در وا کیے ہیں۔ کہ ہونے اور ملنے پر تو مولا کے سامنے بڑے سجدے کیے ہیں۔ تشکر کی دیگیں چڑھائی ہیں۔ نوافل ادا کیے ہیں۔

خیراتیں بانٹی ہیں۔ لیکن یہ تو ایک پل بھی نہیں سوچا کہ جو دیا ہے اگر وہ نہ رہا تو کیا ہو گا؟ آنکھ میں سوئی بھی چبھی، تو بینائی نہیں رہے گی۔ سب رنگ کالے ہو جائیں گے۔ کان میں ایک چیونٹی بھی چلی گئی تو سماعت نہیں رہے گی۔ سب آوازیں خاموش ہو جائیں گی۔ زبان پر گرم پانی بھی ٹھہرے تو ذائقہ چلا جائے گا۔ سب لذتیں روٹھ جائیں گی۔ حلق میں کانٹا بھی پھنسا، تو آواز دب جائے گی۔ بات ادا نہیں ہو پائے گی اور لقمہ نیچے نہیں اترے گا۔ اور اگر دماغ کے خلیے کام کرنا چھوڑ دیں گے، تو پارکنسن ہو جائے گی اور آپ مفلوج ہونا شروع ہو جائیں گے۔

تو اس کا تو یہ مطلب ہوا، جان اور صحت کا ہونا بذات خود نعمت، احسان، شکر اور قرض ہے۔ جس کی ادائیگی اس وقت سے پہلے کرنے کی کوشش کریں جب آپ با اختیار ہوں۔ ہوش رکھتے ہوں۔ سمجھ اور پرکھ سکتے ہوں۔ اور سب سے ضروری کہ آپ کو پارکنسن نہ ہو۔

نوٹ: پارکنسن کے بارے میں مزید معلومات متعلقہ ماہر ہی دے سکتے ہیں۔ میری سمجھ مشاہدات اور ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments