معذوری مجبوری نہیں بلکہ مختلف انداز زندگی کا نام ہے


غلام عباس حیدر کا تعلق ملتان سے ہے۔ پولیو کا شکار ہیں۔ ایم۔ اے سائیکالوجی ہیں۔ بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں بطور جونیئر کلرک کام کر رہے ہیں۔ حافظ قرآن ہیں۔ تیرہ سال کی عمر میں قرات کا پہلا صوبائی ایوارڈ جیتا اور کم عمر ترین قاری کا اعزاز اپنے نام کیا۔ اس کے بعد گیارہ سال مسلسل یہ ایوارڈ اپنے نام کرتے رہے۔ درزی کا کام بھی سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ ویل چیئر کرکٹ کے نیشنل لیول کے کھلاڑی ہیں۔

والد محترم پراپرٹی کا کام کرتے تھے۔ 2013 ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ والدہ محترمہ خاتون خانہ ہیں۔ خاندان نو بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ عباس کے سوا سب شادی شدہ ہیں۔ گھر کی تمام تر ذمہ داری عباس ہی نے سنبھالی ہوئی ہے۔

عباس پیدائشی طور پر نارمل تھے۔ دو سال کی عمر میں پولیو کا حملہ ہوا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ پورا جسم دائرے کی شکل میں گھوم چکا تھا۔ علاج کا سلسلہ پانچ سال جاری رہا۔ پانچ سالوں میں ہسپتالوں، حکیموں اور زیارتوں کے چکر لگائے۔ علاج کے نتیجے میں اتنی بہتری ضرور آئی کہ جسم سیدھا ہو گیا اور مسئلہ صرف پیروں تک محدود ہو گیا۔

گاؤں کے ماحول اور آگہی کے فقدان کی وجہ سے عباس کا سکول میں داخلہ نہ ہوسکا۔ سارا دن کھیل کود میں ہی گزر جاتا۔ لیکن کچھ کرنے کا جذبہ ننھے عباس کو اکساتا رہتا۔ سات سال کی عمر میں والد صاحب سے کہا مجھے درزی کی دکان میں بٹھا دیں۔ ویل چیئر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے والد صاحب گود میں اٹھا کر دکان تک چھوڑ آتے اور شام کو واپس لے جاتے۔ ایک دن استاد نے کلمہ سننا چاہا تو عباس نے کہا مجھے نہیں آتا۔ اس پر استاد نے والد صاحب سے کہا کہ آپ کا بچہ ذہین ہے کام سیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کلمہ تک نہیں آتا اس لیے آپ اسے پہلے دین کی تعلیم دلوائیں۔ رہی بات کام کی تو ہم حاضر ہیں۔ عباس جب دین کی تعلیم سے آراستہ ہو جائے گا تو ہم اسے درزی کا کام بھی سکھا دیں گے۔

والد محترم نے عباس کا داخلہ مدرسے میں کروا دیا۔ پڑھنے کی خواہش جو معذوری اور آگہی کی وجہ سے عباس پوری نہیں کر پا رہے تھے۔ مدرسے جاتے ہی اسے پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ تین سال کے مختصر سے عرصے میں عباس حفظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حفظ کے کسی بھی امتحان میں عباس کا کبھی ایک نمبر بھی نہیں کٹا۔ عباس کی قابلیت کے اتنے چرچے تھے کہ مختلف مدارس کے علماء حضرات نے انھیں اپنے مدرسے میں پڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔

قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد عباس نے قرات سیکھنا شروع کی تو قرات کی دنیا میں اپنا نام بنانا شروع کر دیا اور ملتان کے تمام مدارس میں ٹاپ کرنا شروع کر دیا۔ عباس نے تیرہ سال کی عمر میں قرات کا صوبائی مقابلہ جیت کر کم عمر ترین قاری کا اعزاز حاصل کیا۔ پھر مسلسل گیارہ سال یہ مقابلہ جیتتے رہے۔

دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عباس درزی کا کام بھی سیکھتے رہے۔ والد صاحب عباس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے پندرہ سال کی عمر میں ٹرائی سائیکل دلا کر دی۔ ٹرائی سائیکل لینے کے بعد عباس کو آزادی مل گئی اور یہ اپنے سارے کام خود کرنے لگے۔

گھر سے باہر نکلتے ہی عباس کی دوستی نیک اور پڑھے لکھے افراد سے ہو گئی۔ عباس کے دوستوں نے کہا کہ تم اتنے قابل ہو آگے کیوں نہیں پڑھتے۔ عباس کہنے لگے کہ میرا تعلیمی سلسلہ ایک زمانے کا منقطع ہے میں کیسے آگے پڑھ پاؤں گا۔ دوستوں کہا کہ ہم آپ کو پڑھائیں گے۔ دوستوں نے عباس کو میٹرک کی تیاری کروائی۔ داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو اپنے پیسوں سے داخلہ بھی بھیج دیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ عباس میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے بھی دوستوں کی محبت اور تعاون سے ہو گیا۔

والد محترم کی سپورٹ ہمیشہ عباس کے ساتھ رہی۔ لیکن 2013 ء میں عباس والد صاحب کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ والد صاحب کی وفات پر بڑے بھائی نے کہا کہ مایوس کیوں ہوتے ہو۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ 2015 ء میں عباس ملتان کی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں جونیئر کلرک کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

یونیورسٹی کا ماحول دیکھ کر عباس کو ایسا لگا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا۔ سائیکالوجی میں ایم۔ ایس۔ سی کرنے کا فیصلہ کیا۔ حال ہی میں عباس ڈگری مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب ایم۔ فل کی تیاری کر رہے ہیں۔

عباس ویل چیئر کرکٹ کے نیشنل لیول کے پلیئر ہیں۔ 2017 ء میں عباس کی ملاقات رانا فرہاد الرحمان سے ہوئی جو نیو سہارا سپورٹس اینڈ ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر ہیں۔ فرہاد صاحب نے عباس کو کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا۔ عباس نے کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ پاکستان ویل چیئر کرکٹ کونسل نے عباس کو ٹرائل میں پاس کر دیا اور بھر پور معاونت فراہم کی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل لیول کے کھلاڑی بن گئے۔ عباس مستقبل میں عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عباس کہتے ہیں کہ خصوصی افراد جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو پھر اللہ تعالٰی کی غیبی طاقتیں ان کی مدد کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔ مشکل سے مشکل کام کو کرنے کا ارادہ کیا اور کام ہوتا ہی چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments