کرناٹک کی مسکان اور عاصمہ جہانگیر کا گیان


عافیہ صدیقی کے القاعدہ سے گہرے مراسم تھے اور جہاد و قتال میں ملوث تھی۔ اچانک دودھ پیتے بچے سمیت لاپتہ ہو گئی۔ بہن نے کہا، جنرل مشرف نے اسے امریکی افواج کے حوالے کر دیا ہے۔ اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جماعت اسلامی کو بھی نہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اس کی بازیابی کے لیے پٹیشن دائر کی تب زمانے کو خبر ہوئی کہ شہر کو سیلاب لے گیا ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے ایک مذہبی انتہا پسند خاتون کے لیے پٹیشن کیوں فائل کی؟ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی شہری کو ماورائے عدالت گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔

ایبٹ آباد آپریشن ہوا تو اسامہ بن لادن کے بچوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ کافی دن گزر گئے تو عاصمہ جہانگیر نے ہی یہ سوال اٹھایا کہ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو کس قانون کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے؟ عاصمہ جہانگیر کے سینے میں ایک دہشت گرد کے اہل خانہ کے لیے درد کیوں اٹھا؟ کیونکہ اصول یہ ہے کہ بیوی بچے مجرم کے جرم کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔

سوات کے دو نوجوان تحریک طالبان سے ہمدردی رکھتے تھے۔ لاپتہ ہو گئے۔ ماں روتی تھی اور خدا سے پشتو میں باتیں کرتی تھی۔ جہادیوں کے پاس دینے کے لیے صرف حدیث کا ایک حوالہ تھا۔ آپ کا بچہ اگر مر گیا ہے تو شہید ہے، روز حشر دس عزیزوں کی سفارش کرے گا۔ عاصمہ جہانگیر نے ان کا کیس لیا اور تلاش میں سوات کے انٹیروگیشن سینٹرز تک پہنچ گئیں۔ نوجوانوں کو بازیاب کروا کر چیف جسٹس کے سامنے کھڑا کر دیا۔ روتی ہوئی ماں نے عاصمہ کے پاس آ کر کہا، میرا شوہر مسجد کا پیش امام ہے۔ دو وقت کا مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی ہے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ دینے کو فیس نہیں ہے۔ عاصمہ نے خاتون کو گلے لگایا اور ساتھ کھڑے مترجم سے کہا، اسے کہو کہ شوہر سے کہے فیس نہیں چاہیے، بس دعا چاہیے۔

عاصمہ جہانگیر نے ایک انتہا پسند مولوی کے دو انتہا پسند بچوں کا کیس کیوں لڑا؟ کیونکہ اصول یہ ہے کہ سزا و جزا کا اختیار عدالت کے پاس ہے اور یہ اختیار بندوق کو نہیں دیا جا سکتا۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے تحت اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر کی تعزیتی کانفرنس چل رہی تھی۔ مرحوم آئی اے رحمان نے خطاب میں کہا، نوے کی دہائی میں سپاہ صحابہ کے قائد مولانا اعظم طارق نے عاصمہ جہانگیر کو جیل سے خط لکھا۔ کہا، مجھے عدالت میں پیشی کا حق نہیں دیا جا رہا، کچھ کیجیے۔ عاصمہ نے اس معاملے پر عدالت کے دروازے پر دستک دی تو ہم نے کہا، بی بی وہ تو ایک معلوم انتہا پسند مولوی ہے جو شیعہ علما کے قتل میں ملوث ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا، اصول کی بات یہ ہے کہ اعظم طارق اس ملک کا شہری ہے، جسے عدالت میں اپنی بات کہنے کا ایسے ہی حق حاصل ہے جیسے مجھے حاصل ہے۔ وہ مجرم ہو گا مگر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی تھانیدار کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ محض اعظم طارق کا مسئلہ نہیں ہے، میری اور آپ کی زندگی کا بھی سوال ہے۔

جنرل ضیا الحق اسلام بیچتے تھے اور مشرف لبرل ازم بیچتے تھے۔ اسلام اور لبرل ازم کے فرق کے ساتھ اصول دونوں کے پیش نظر ایک ہی تھا کہ ریاستی اشرافیہ کے مفادات کو بچایا جائے۔ اسلام کے نام سے بچتے ہیں تو بسم اللہ۔ لبرل ازم کے نام سے بچتے ہیں تو ست بسم اللہ۔ اس اصول کی رو سے مشرف اور ضیا کے بیچ زمانے کے فرق کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ مشرف اگر اسی کی دہائی میں آتے تو اسلام ہی بیچتے۔ جنرل ضیا 1999 میں تختہ الٹتے تو لبرل ازم ہی بیچتے۔

ان دونوں آمروں کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی پشت پر کوڑے کا ایک ایک نشان ملتا ہے۔ جو ضیا کے خلاف تھے وہ مشرف کی چھتر چھایا میں لیٹے نظر آتے تھے۔ جو مشرف کے خلاف تھے وہ جنرل ضیا کے پس خوردہ پر ڈکاریں مارتے تھے۔

ایک مکتب عاصمہ جہانگیر کا ہے، جن کی پشت پر کوڑے کے دو نشان ملتے ہیں۔ یہ وہ مکتب ہے جو ضیا کے ساتھ کھڑا تھا اور نہ مشرف کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ سر تا سر ایک اصول کے ساتھ کھڑا تھا۔ اصول یہ تھا کہ حکمرانی کا حق صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے۔ کوئی مصلے پہ بیٹھ کر نازل ہو یا سگار پیتا ہوا آئے، اصول میں غاصب ہے تو سلام کے بھی روادار نہ ہوں گے۔

کوئی شک نہیں کہ آج کی اس تحریر کا محرک وہ ویڈیو ہے جس میں کرناٹک کی ایک برقع پوش طالبہ جتھے کا مقابلہ کر رہی ہے۔ چونکہ بیچ میں کمبخت برقع آ گیا ہے تو مارو گھٹنا پھوٹے سر والا معاملہ ہو گیا ہے۔ پورے معاملے میں اہمیت اللہ اکبر کے نعرے اور برقعے نے اختیار کرلی ہے۔ اسی بنیاد پر تائید بھی، اسی بنیاد پر مخالفت بھی۔ حالانکہ بات تو اللہ اکبر اور برقعے کی سرے سے ہے ہی نہیں۔ بات ساری اصول کی ہے اور اصول یہ ہے کہ فرد آزاد ہے۔ اس کے ذاتی دائرے میں پاؤں دینے کا حق پاکستان میں جماعت اسلامی کو دیا جاسکتا ہے اور نہ ہندوستان میں بی جے پی کو دیا جاسکتا ہے۔

اصول کو لاگو کرنے کے لیے دو تصویریں سامنے رکھتے ہیں۔ ایک تصویر میں افغان لڑکیاں افغانستان کی گلیوں میں نکلتی ہیں اور طالبان کے بندوق بردار جتھا ان کو گھیر لیتا ہے کہ تمہیں حجاب لینا پڑے گا۔ دوسری تصویر میں ایک لڑکی ہے جو کرناٹک کے ایک کالج میں سکوٹی سے اترتی ہے تو ہجوم اسے گھیر لیتا ہے کہ تمہیں حجاب اتارنا پڑے گا۔ حجاب پہننے نہ پہننے کے تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں تصویریں مختلف ہیں۔ کرداروں کو دیکھا جائے تو بھی تصویریں مختلف ہیں۔ نعروں کو دیکھا جائے تو پھر تو بہت مختلف ہیں۔ اصول پہ رکھ کر دیکھا جائے تو یہ تصویریں ہر گز مختلف نہیں ہیں۔ دونوں تصویروں میں فرد کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فیصلے کے اختیار کو جبر کے آگے سرنڈر کردے۔

مجھ غریب کی رائے میں حجاب پر انتظامی دائرے میں کوئی بھی حد لاگو کی جا سکتی ہے۔ مثلا، خواتین کو کبھی شناختی کارڈ کے لیے تصویر کھنچواتے وقت حجاب پہنے رکھنے کی اجازت تھی، اب ایسا نہیں ہے۔ اب معاہدے، داخلے، اندراج اور کلیئرنس کے لیے برہنہ چہرے والا سی این آئی سی دکھانا لازم ہے۔ خواتین کے پاس اس بے پردگی کو گوارا کرنے کے سوا کوئی آپشن اس لیے نہیں ہے کہ یہ سیکیورٹی کا سوال ہے۔ اس سوال کا دائرہ مغربی ممالک میں پہنچ کر اور بھی وسیع ہوجاتا ہے۔ وہاں ڈرائیونگ کے دوران بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے کا تقاضا ہو سکتا ہے۔ مگر اس تقاضے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سسٹم آپ کے عقیدے سے خوفزدہ ہے۔ دراصل سسٹم کسی بھی نقصان سے بچنے کے لیے یہ جاننا چاہتا ہے کہ حجاب کے پیچھے شیزا ہے یا فیزا ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں حجاب کے خلاف آنے والی تازہ لہر انتظامی نہیں ہے۔ مودی سرکار کے آتے ہی وہاں تھانوں، عدالتوں، تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں مسلم شہریوں کا گھیراؤ شروع ہو چکا ہے۔ نفرت کا نشانہ بننے کے لیے اتنی کوالیفکیشن کافی ہوتی ہے کہ شہری مسلمان ہے، پھر چاہے وہ شاہ رخ خان ہی کیوں نہ ہو۔ گاؤ ماتا کی رکشا کے لیے ایمبولینسز اور شفا خانے بن رہے ہیں جبکہ انسان کو گلی میں اس لیے گھیر کر سنگسار کیا جا رہا ہے کہ اس کا عقیدہ مختلف ہے۔ کنپٹی پر بندوق رکھ کر راہگیروں سے من مرضی کے مذہبی کلمات کہلوائے جا رہے ہیں۔ اب خیر سے یہ کہانی راہ چلتی خواتین کا دوپٹہ کھینچنے تک پہنچ گئی ہے۔

پانچ برسوں سے جاری یہ معاملہ مذہبی نہ ہوتا تو جواہر لال یونیورسٹی کی ہندو طالبہ کسی اور بحث کا حصہ ہوتی۔ مگر حالات نے اسے یہ کہنے پر مجبور کیا ہوا ہے کہ ”اگر متاثرہ شخص کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے تو پھر میں مسلمان ہوں“ ۔
یہی بات پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ہی پسے ہوئے کسی بھی طبقے کے لیے کہنے کی اجازت چاہیے۔ ملے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments