رینوکا دیوی کیسے بیگم خورشید مرزا بنیں؟

عقیل عباس جعفری - محقق و مؤرخ، کراچی


بیگم خورشید مرزا جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا تقسیم ہند سے قبل رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہوئیں اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی ممتاز فنکارہ کے طور پر جانی گئیں۔

آٹھ فروری 1989 کو لاہور میں وفات پانے والی بیگم خورشید مرزا کو ناظرین ’اکا بوا‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ اُس دور میں شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے اُن کے یادگار ڈرامے ’کرن کہانی‘، ’زِیر زبر پیش‘، ’انکل عرفی‘، ’پرچھائیں‘، ’رومی‘، ’افشاں‘ اور ’انا‘ نہ دیکھے ہوں۔

لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بیگم خورشید مرزا کا تعلق برصغیر کے کتنے معروف علمی، ادبی اور ثقافتی خانوادے سے تھا۔

بیگم خورشید مرزا کے والد جو ٹھاکر داس سے شیخ عبداللہ ہو گئے

بیگم خورشید مرزا کے والد شیخ محمد عبداللہ ایک نامور ماہر تعلیم تھے۔ ان کی سوانح عمری پروفیسر شمس الرحمن محسنی نے ’حیات عبداللہ‘ کے نام سے تحریر کی ہے۔

اس سوانح عمری کے مطابق شیخ محمد عبداللہ کا اصل نام ٹھاکر داس تھا اور وہ 21 جون 1874 کو پونچھ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1890 میں انھوں نے مولوی حکیم نور الدین کے زیر اثر اسلام قبول کیا اور میٹرک کرنے کے بعد 1891 میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے۔

khursheed mirza

شیخ محمد عبداللہ تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے سنہ 1904 میں ایک رسالہ ’خاتون‘ جاری کیا اور پھر سنہ 1906 میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے علی گڑھ میں ایک اقامتی مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ ہندوستان بھر میں مسلم خواتین کی تعلیم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ مدرسہ کالج میں تبدیل ہو گیا۔

شیخ محمد عبداللہ کو حکومت برطانیہ نے ’خان بہادر‘ کے خطاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ’ایل ایل ڈی‘ کی اعزازی ڈگری اور حکومت ہند نے ’پدم بھوشن‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔ شیخ عبداللہ کو سکول کی طالبات پیار سے ’پاپا میاں‘ اور ان کی شریک حیات وحید جہاں بیگم کو ’اعلیٰ بی‘ کے نام سے پکارتی تھیں۔

شیخ محمد عبداللہ کی اہلیہ اعلیٰ بی کی سوانح عمری بھی شائع ہو چکی ہے جو خود ڈاکٹر شیخ محمد عبداللہ کی تحریر کردہ ہے۔

شیخ عبداللہ کی بیٹی جنھوں نے فیض احمد فیض کو ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بنایا

شیخ محمد عبداللہ کی بیٹیوں میں ڈاکٹر رشید جہاں اور بیگم خورشید مرزا نے بڑی شہرت حاصل کی۔ ان میں ڈاکٹر رشید جہاں برصغیر میں ترقی پسند ادبی تحریک کی بنیاد گزاروں میں شمار ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر رشید جہاں نے علی گڑھ، لکھنؤ اور نئی دہلی سے تعلیم حاصل کی اور ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد میڈیکل کی پریکٹس سے وابستہ ہو گئیں۔

اسی دوران اُن کی ملاقات سید سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی جو سوشلزم سے متاثر تھے۔ ان چاروں افراد نے 1932 میں ’انگارے‘ کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ڈاکٹر رشید جہاں کی دو کہانیاں ’دلی کی سیر‘ اور ’پردے کے پیچھے‘ شامل تھیں۔

سنہ 1934 میں وہ محمود الظفر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں اور ان کے ساتھ امرتسر چلی گئیں جہاں کی ملاقات ڈاکٹر محمد دین تاثیر، فیض احمد فیض، قاضی فرید اور میاں افتخار الدین جیسے ادیبوں اور شاعروں سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ فیض احمد فیض کو ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ بنانے میں ڈاکٹر رشید جہاں کا کردار بہت اہم ہے۔

ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانوں، ڈراموں اور مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ’عورت‘ اور دوسرے افسانے، شعلہ ٔ جوالہ اور وہ اور دوسرے افسانے و ڈرامے شامل ہیں۔

خورشید جہاں رینوکا دیوی کیسے بنیں؟

بیگم خورشید مرزا چار مارچ 1918 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام خورشید جہاں تھا اور ان کی شادی، سترہ برس کی عمر میں ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔

خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ بمبئی میں دیویکارانی اور ہمانسورائے کے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ ان کے توسط سے جب دیویکا رانی کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوئی تو انھوں نے اُنھیں اپنی فلموں میں اداکاری کی دعوت دی۔

یوں خورشید جہاں نے ’رینوکا دیوی‘ کے نام سے فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ بیگم خورشید مرزا نے جناب لطف اللہ خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ رینوکا دیوی، دیویکا رانی کی مرحوم بہن کا نام تھا اور دیویکا رانی نے خورشید جہاں کو یہ نام اپنی بہن کی یاد میں دیا تھا۔

برصغیر کی فلمی صنعت کی کوئی تاریخ ’بمبئی ٹاکیز‘ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

بہت جلد اس ادارے میں ہندوستان کے مشہور ادیب، شاعر، رقاص اور موسیقار شامل ہو گئے تھے جن میں منشی پریم چند، نریندر شرما، شاہد لطیف، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، گیان مکرجی، امیا چکرورتی، ممتاز علی، پردیپ، گوپال سنگھ نیپالی اور پی ایل سنتوشی جیسے افراد شامل تھے۔

بمبئی ٹاکیز کی بیشتر فلموں میں ہیروئن کا کردار دیویکا رانی خود ادا کیا کرتی تھیں جنھیں آج بھی ہندوستانی سکرین کی ’خاتون اول‘ کہا جاتا ہے۔

بمبئی ٹاکیز نے برصغیر کی فلمی صنعت کو متعدد نئے چہرے بھی عطا کیے جن میں رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) کے علاوہ لیلیٰ چٹنس جیسی اداکارائیں اور نجم الحسن اور اشوک کمار جیسے اداکار شامل تھے۔ رینوکا دیوی کی مشہور فلموں میں ’جیون پربھات‘، ’بھابی‘، ’نیا سنسار‘ اور ’غلامی‘ شامل تھیں۔

محمود الحسن نے اپنی کتاب ’شرف ہم کلامی‘ میں لکھا ہے کہ ’فلم ’بھابھی‘ انتظار حسین نے بھی دیکھی تھی جس میں رینوکا دیوی ہیروئن تھیں۔ انتظار حسین کہتے تھے کہ اس کے بارے میں پتا چلا کہ علی گڑھ میں کوئی صاحب ہیں، اُن کی بیٹی ہے اور مسلمان ہے۔ پہلی مرتبہ ہم نے جس فلمی ہیروئن کی تصاویر دیکھیں وہ رینوکا دیوی تھیں، تو ہم اس پر فوراً عاشق ہو گئے، اس وقت ہم انٹرمیڈیٹ میں تھے۔‘

intezar-hussain

پاکستان بننے کے بعد فلم کی دنیا سے کنارہ کشی

قیام پاکستان کے بعد خورشید جہاں، جو اب بیگم خورشید مرزا بن چکی تھیں، پاکستان آ گئیں۔ شروع شروع میں وہ ڈراموں اور فلم کی دنیا سے دور دور رہیں۔

انھوں نے لطف اللہ خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے شوہر اکبر مرزا پولیس کے محکمے سے وابستہ تھے اور ان کی تعیناتی مختلف شہروں میں ہوتی رہتی تھی۔ 1950 کی دہائی میں جب ان کی تعیناتی کوئٹہ میں تھی تو انھوں نے وہاں اپوا کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک سٹیج ڈرامے میں بھی کام کیا۔

سنہ 1962 میں جب کراچی میں ٹیلی وژن کی تجرباتی نشریات کا آغاز ہوا تو انھوں نے ان تجرباتی نشریات میں بھی دو ڈراموں میں کام کیا۔ اسی دوران انھوں نے ریڈیو کے کئی پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔

دسمبر 1971 میں ان کے شوہر اکبر مرزا کی وفات ہو گئی جس کے بعد انھوں نے پی ٹی وی کی پروڈیوسر شیریں پاشا کے اصرار پر ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔

کرن کہانی سے پی ٹی وی کے سفر کا آغاز

ان کی پہلی ٹیلی وژن سیریل ’کرن کہانی‘ تھی جس میں ان کی بے ساختہ اور نیچرل اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

اس کے بعد انھوں نے متعدد ٹیلی وژن سیریلز میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے علاوہ ڈرامہ ’ماسی شربتے‘ میں بھی ان کا کردار بڑا یادگار سمجھا جاتا ہے۔

بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری ’اے وومن آف سبسٹانس‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے جو ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے تحریر کی ہے۔ یہی سوانح عمری ’دی میکنگ آف اے ماڈرن مسلم وومن‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔

یہ سوانح عمری دراصل ان کی ان یادداشتوں کی کتابی شکل ہے جو انھوں نے 1980 کی دہائی میں انگریزی ماہنامے ’ہیرالڈ‘ میں قسط وار تحریر کی تھیں۔ بیگم خورشید مرزا شاعری بھی کرتی تھیں اور انھوں نے ’میلاد مبارک‘ کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کی تھی۔

عمر کے آخری حصے میں بیگم خورشید مرزا لاہور منتقل ہو گئیں جہاں آٹھ فروری 1989 کو ان کی وفات ہو گئی۔ انھیں میاں میر کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1984 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments