کمپنی یہی چلے گی
پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ میڈیا کی حد تک دیکھیں تو لگتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بس چند ہفتوں کی مہمان ہے۔ لیکن کیا اصل میں ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے؟
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی طرف سے پی پی پی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے لئے دئیے گئے عشائیے سے شروع ہونے والی سیاسی بحث سے زبردستی ڈالے گئے پردے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس عشائیے کے بعد شہباز شریف صاحب کے طرف سے ادا کئے گئے الفاظ اور میسج بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ ” مجھے پارٹی قائد کی طرف سے جو ہدایات ملیں۔ میں نے اسے انجام دیا۔ ٹوٹے دل جڑ جایا کرتے ہیں وغیرہ۔ ایسا لگا جیسے وہ بہت ہی محتاط رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے سپوٹرز اور ووٹرز کو یہ کہہ رہے ہوں یہ عشائیہ میری خواہش سے زیادہ بڑے بھائی جان کی ہدایات پر ہوا۔ لہذا مجھے گالیاں دینے سے اجتناب کیا جائے شکریہ۔ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے والا اکیلا شخص ہی نا سمجھا جائے۔ اب اگر ہم وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتے ہیں تو اس کی بھی اجازت ہمیں نواز شریف صاحب کی طرف سے ہی جاری ہوئی ہیں۔
دوسری طرف آصف علی زرداری صاحب پنجاب میں آئے ہوئے ہیں اور اب اگر وہ چوہدری بردارن سے ملتے ہیں۔ اور پرویز الہی کو ملاقات کے بعد یہ کہنا پڑے کہ زرداری صاحب نے چوہدری شجاعت کی طبعیت کے حوالے سے ملنے کی خواہش کی تھی۔ ہم تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی ہیں اور انھیں کبھی دھوکہ نہیں دیں گے۔
مجھے ان کی بات میں سچائی نظر آتی ہے۔ کیونکہ چوہدری بردارن کو ایک لمبے عرصے کے بعد پنجاب میں دوبارہ کھل کر سیاست کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان کی وجہ سے ہی ملا ہے۔ چوہدری بردارن اپنے خاندانی رکھ رکھاو کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی اختلافات کے باوجود مل تو سکتے ہیں۔ لیکن سیاسی الحاق انھیں کسی بھی طرح سے سوٹ نہیں کرتا۔
مسلم لیگ ن یا پی پی پی کے پاس ایسا کیا خاص ہے جو وہ چوہدریوں کو آفر کر سکتے ہیں؟ کیا آصف علی زرداری، شہباز شریف کو اس بات پر منوا سکتے ہیں کہ آپ پنجاب چھوڑ دیں اور بس عمران خان کی حکومت کو گرایں۔ اور آئندہ حکومت میں وزارت اعلی کا عہدہ چوہدری بردارن کو دے دیں؟ یا پھر اپ سب مل کر پنجاب ہمارے حوالے کر دیں؟ اور اس کے بدلے میں ہم عمران خان کو گرانے میں اپ کی مدد کرتے ہیں؟
تو ایسا بالکل بھی نہیں ہونے جا رہا۔ جی جناب چوہدریوں کو آیندہ حکومت میں بھی اگر موقع ملا تو وہ وزیراعظم عمران خان صاحب کے ساتھ ہی پنجاب میں واپس انا پسند کریں گے۔ جہاں وہ بااختیار ہو کر پنجاب میں اپنے سیاسی مخالفین پر دھاک بنا کر رکھیں۔ ابھی تو پنجاب پر ان کا مکمل کنڑول ہے۔ اپنے علاقے میں ہر شخص ان کی مرضی کا، ان کے مطابق کام کر رہا ہے۔ جو کہ مسلم لیگ ن کی حکومت آنے پر ان کا یہ راج دوبارہ ختم ہو جائے گا۔ اب اگر اپ کو لگتا ہے چوہدری اپنا نقصان کروا کر شریفوں کا فائدہ کریں گے تو پھر اپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
زرداری صاحب کے پاس سوائے سندھ کے کچھ نہیں۔ ان کی بس اتنی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح پاکستان کے ہر حصے میں جوڑ توڑ کر کے اپنی پارٹی کو سیاسی طور پر طاقتور شو کر سکیں۔ اور نیکسٹ الیکشن میں پارٹی پوزیشن کو مزید سیٹیں لے کر مضبوط بنا سکیں۔ اور آنے والے سیاسی منظر نامے پر تحریک انصاف کے علاوہ اپنے اپ کو دوسرے سیاسی آپشن کے طور پر پیش کر سکیں۔
چلیں اب بات کرتے ہیں مسلم لیگ ن کے بارے میں، یہ ایک واحد سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے کسی صوبے میں حکومت نہیں رکھتی، بلکہ انھوں نے 2018 میں اپنا مضبوط قلعہ پنجاب بھی کھو دیا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان میں یہی جماعت رہی ہے۔ اور اگر اب اگلے پانچ سال بھی اس جماعت کو اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنا پڑا تو سمجھ جائیں۔ پنجاب ان کے ہاتھ سے تقریبا ہمشہ کےلئے نکل جائے گا۔ ابھی تو انھوں نے پنجاب کی بیوروکریسی کو یہی تاثر دے رکھا ہے ہم آ رہے ہیں۔ خبردار ہم پر ہاتھ ڈالتے وقت ہزار بار سوچنا۔
مسلم لیگ ن کو دو محاذوں پر مخالفت کا سامنا ہے ایک حکومت اور دوسری طرف سے اپنی پارٹی کے اندر قیادت کی جنگ جاری ہے۔ رانا ثناء کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ اگر حکومت کے بیس سے پچیس لوگ ہمارے ساتھ ہوں تو ہی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔ اور ہم کیوں ایسے لوگوں کو اپنے لوگوں پر جنہوں نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ انھیں چھوڑ کر ہم تحریک انصاف کو چھوڑ کر آنے والوں پر اگلے انتخابات پر ترجیح دیں؟
میرے تجزیئے کے مطابق مسلم لیگ ن کا پورا فوکس پنجاب واپس لینے پر ہے۔ ان کو وفاقی حکومت نا ملنے کا چانس نظر آتا ہے اور نا ہی ایسا ممکن نظر آتا ہے۔ سیاسی بیانات دے کر اپنے آپ کو نمبر ون آپشن بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا ہی ان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔
اب ایم کیو ایم کی بات کر لیتے ہیں تو انھوں نے بہت ہی واضع پیغام دیا کہ ہم بلدیاتی انتخابات کے متعلق سب سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کسی سے ملنے کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ جماعت تو خود اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ بےضرر کسی کو کیا ڈرائیں گے؟
اپوزیشن کی طرف سے اپنے اپنے لانگ مارچ، سیاسی ملاقاتیں سوائے سیاسی گہما گہمی کے کچھ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو وزیراعظم عمران خان کو ہٹا کر انھیں لوگوں کو واپس لا کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے سے کیا ملے گا؟
جن دو سیاسی جماعتوں کی طاقت کو ختم کر کے عمران خان نے پاکستان کی عوام کو تحریک انصاف کی صورت میں تیسرا آپشن دیا۔ اسے ختم کر دیا جائے؟ لیکن کس لئے؟ کیونکہ وہ اپنی پہلی دور حکومت کے تین برسوں میں بہتر برسوں کا بوسیدہ نظام ختم نہیں کر پایا؟ اگر تو عمران خان 100 میں سے 46 فیصد بھی ڈیلیور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ تو پھر اسے عوام دوبارہ چانس کیوں نہیں دے گی؟
بین الاقوامی دنیا کے اندر پاکستان کا امیج پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ روس صدر نے پاکستان کے وزیراعظم کو 23 برسوں بعد پہلی مرتبہ سرکاری طور پر روس آنے کی دعوت دی ہے۔ روس کے صدر پیوٹن اور چائنہ نے ملکر آزاد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے بیانیے کی پہلی مرتبہ کھل کر حمایت کی ہے۔
پاکستان بلوچستان کے حساس علاقے میں وزیراعظم عمران خان کا آرمی چیف کے ساتھ وزٹ، اپنے آپ میں خود ایک پیغام ہے۔ کہ عسکری اداروں کا وزیراعظم عمران خان پر اعتماد مزید بڑھ رہا ہے۔ کم نہیں ہو رہا ہے۔
” نومبر 2022 بھی آئے گا اور گزر جائے گا۔ اس سے متعلق معاملات بھی وقت سے بہت پہلے ہی طے پا جائیں گے “
لہذا آپ سب ان سیاسی سرگرمیوں کو صرف سیاسی ملاقاتیں سمجھ کر اگنور کریں۔ کوئی کہیں نہیں جا رہا۔ اور نا ہی کوئی عمران خان کو گرا کر اپوزیشن کو سینے سے لگانے کو تیار ہیں۔
بلکہ ہم اپ کو یہ کہہ سکتے ہیں۔ منظر نامے سے جو آوٹ ہو چکے وہ آگے بھی آوٹ ہی رہیں گے، بلکہ مزید لوگ بھی سیاست سے آوٹ ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔
لیکن سب تسلی رکھیں۔ اب اگے بھی کمپنی یہی چلے گی۔
- شریف، زرداری، مولانا، اور جرنیل سب اس حمام میں ننگے ہیں - 29/06/2022
- سیاست دانوں کے پیروں میں بندھی زنجیر - 08/06/2022
- عدم اعتماد: کس نے کیا کھویا کیا پایا؟ - 21/03/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).