نواز شریف اور شہباز شریف تاحیات اہل قرار


پاکستان میں ہر بدلتے دن کے ساتھ سیاست میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ ایک دفعہ پھر وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں کوئی عدالتوں سے نا اہل ہو رہا ہے تو کسی کے حق میں برطانوی عدالت سے فیصلہ آ رہا ہے۔ پاکستان میں ایک دفعہ پھر سابق وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب خبروں کا مرکز بن گئے ہیں اور اس دفعہ ان کے حق میں کسی پاکستانی ادارے نے نہیں بلکہ انٹرنیشنل ادارے نے گواہی دی ہے اور یہ گواہی برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی طرف سے آئی ہے جس کے مطابق شہباز شریف نے منی لانڈرنگ نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ملا ہے۔

جی ہاں! حالیہ دنوں میں برطانوی عدالت نے شہباز شریف اور ان کے خاندان کے متعلق برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے 500 صفحات جاری کر دیے ہیں جس میں صاف اور واضح طور پر یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ برطانوی ایجنسی نے پاکستانی حکومت کی درخواست پر میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بیس ماہ تک پچھلے پندرہ سالوں کی بینک ٹرانزیکشنز، لین دین کا حساب اور منی لانڈرنگ کے متعلق باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کیں اور ان تحقیقات کا مرکز خاص طور پر میاں محمد شہباز شریف تھے جن کے متعلق وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء آئے روز نت نئے الزامات لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ الزامات صرف الزامات کی حد تک ہمیں نظر آتے ہیں لیکن حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ کے علم میں ہو گا کہ چند ماہ قبل موجودہ حکومت کی طرف سے تشکیل دیا جانے والے ادارہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کے لیے لکھا جانے والا خط منظر عام پر آیا تھا جس میں رمضان شوگر ملز، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم، گندا نالہ کرپشن کیسز کے علاوہ کئی کرپشن کیسوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور یہ درخواست کی گئی تھی کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں لہذا ان کے خلاف انٹرنیشنل سطح پر تحقیقات کی جائیں اور جو پیسہ پاکستان سے چوری کر کے برطانیہ بھیجا گیا ہے وہ پیسہ ضبط کر کے واپس پاکستانی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ یہاں پر میں آپ کو ایک اہم بات بتاتا چلوں کہ کئی دنوں تک پاکستانی حکومت اور نیشنل کرائم ایجنسی کے درمیان خط و کتابت کا تبادلہ ہوتا رہا اور اس خط و کتابت کی خبر کسی کو کان و کان تک نہ ہوئی۔

جب ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے لکھا جانے والا خط منظر عام پر آیا تو اس وقت کے مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر نے پاکستانی میڈیا کے سامنے کہا کہ میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف بیرونی سطح پر جاری تحقیقات سے پاکستانی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ تحقیقات برطانوی ادارہ اپنی مرضی سے کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت اور مرزا شہزاد اکبر کے اس دعوے کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنی رپورٹ کے صفحہ نمبر 349 میں سختی کے ساتھ مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ”11 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تشکیل دیا گئے ادارہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے خط موصول ہوا اور اس خط میں میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف تحقیقات کرنے کی درخواست کی گئی۔

اس کے علاوہ مزید جو خطوط ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو لکھے گئے تھے اس کو بھی باقاعدہ طور پر برطانوی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بطور حوالہ ذکر کیا ہے جس کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حکومت پاکستان اور سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر پاکستانی میڈیا کے سامنے غلط بیانی کرتے رہے ہیں۔

اس کے بعد سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر نے پاکستانی میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ پاکستانی حکومت کا کوئی رکن برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ رابطے میں نہیں ہے اور نہ ہی ہم میں سے کسی نے برطانوی ایجنسی کے کسی عہدیدار سے ملاقات کی ہے جبکہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے برطانوی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے صفحہ نمبر 351 پر پاکستانی حکومتی دعوے کو سختی سے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ”9 دسمبر 2019 کو سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر اور سابق ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے آپریشنل مینیجر ڈیوڈ سکروٹن سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف جاری تحقیقات پر تبادلہ خیال کیا اور پاکستانی حکومت کی جانب سے مزید دستاویزات فراہم کی گئیں۔ جس کے بعد حکومت پاکستان کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہو گیا۔

اگر ہم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ کو گہرائی کے ساتھ پڑھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ تحقیقات صرف شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف ہی نہیں بلکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے متعلق بھی شروع کی گئی تھیں جس کا ذکر برطانوی نیشنل ایجنسی نے اپنی رپورٹ کے صفحہ نمبر 348 پر کیا ہے کہ ”شہباز شریف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھائی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز شریف کے خلاف پاکستانی ایجنسی نے تحقیقات کی تھیں کیونکہ انہوں نے برطانیہ میں موجود اپنی پراپرٹی کو ڈیکلیئر نہیں کیا تھا اور پاکستانی عدالت نے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو کرپشن کیسز میں 6 جولائی 2018 کو سزا سنائی اور میاں نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو تاحیات نا اہل کر دیا تھا۔

پاکستانی احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو دس سال قید اور 10.6 ملین ڈالرز جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ نواز شریف کو دسمبر 2018 میں سعودی عرب میں موجود سٹیل مل چھپانے کے الزام میں مزید سات سال کی قید سنائی گئی۔

شہباز شریف کے خلاف پاکستانی ایجنسیاں منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کر رہی ہیں اور میاں شہباز شریف دو کیسوں میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔“ یہ وہ تمام معلومات ہیں جن کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا اور میں نے ایک ایک پیراگراف کا اردو ترجمہ کر کے آپ کے سامنے پیش کیا اور اس بات سے اندازہ لگائیں کہ پاکستانی حکومت نے کس طرح پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف تحقیقات کے لیے مواد پیش کیا اور پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح شریف خاندان کو کرپٹ ثابت کیا جائے اور عوام کے دلوں میں جو ان کے لیے محبت ہے وہ ختم ہو جائے۔

اس کے علاوہ پاکستانی حکومت نے میاں شہباز شریف کے دس سالہ برطانوی ویزے کو کینسل کرنے کے لیے برطانوی ایجنسی پر دباؤ بڑھایا اور کہا کہ میاں شہباز شریف برطانیہ میں کوئی کام نہیں کرتے لہذا ان کا ویزا کینسل کیا جائے۔

جب میں نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے نشر کیے گئے چند اہم صفحات کو پڑھا تو میری عقل میں یہ بات فوری طور پر آ گئی کہ وزیراعظم عمران خان ہر صورت میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف تحقیقات چاہتے تھے اور برطانوی نیشنل ایجنسی کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے ان سب کے پیچھے عمران خان اور ان کے سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر ہی تھے۔ عمران خان شاید بھول گئے تھے کہ برطانیہ میں عدالتیں پاکستانی عدالتوں کی طرح فیصلے نہیں دیتیں اور نہ ہی برطانوی ایجنسیاں پاکستانی ایجنسیوں کی طرح جھوٹے شواہد اکٹھے کرتی ہیں کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ جس شخص کے خلاف آپ کے دل میں حسد ہو تو آپ اس کے خلاف ریاستی اداروں کو استعمال کرتے ہیں اور یہی سب کچھ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے کیسوں میں کیا گیا ہے اور برطانوی ایجنسی نے پاکستانی حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے تمام شواہد کو جھوٹا اور ناکافی قرار دے کر شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کو بند کر دیا ہے اور میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے فریز کیے گئے اکاؤنٹس کو کھول دیا ہے۔

بہرحال شریف خاندان کے ہاتھ میں یہ بہت بڑی اور اہم کامیابی آئی ہے اور اس پر ہم نواز شریف اور شہباز شریف کو ”انٹرنیشنل دیانتدار“ نہ کہیں تو زیادتی ہوگی۔

اب یہ فیصلہ شہباز شریف اور ان کی قانونی ٹیم نے کرنا ہے کہ آیا کہ وہ برطانوی ایجنسی کی رپورٹ کو پاکستانی عدالتوں میں بطور ثبوت پیش کریں گے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب آئندہ چند دنوں میں منظر عام پر آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments