ملا، ٹائمز کالج اور انقلاب


جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کی بساط لپیٹی، دائیں بازو کی کئی جماعتیں فوج کا خیرمقدم کرچکی تھیں، خصوصاً جماعت اسلامی اور اس کا طلبہ ونگ جمعیت ضیاء ٹولے کا بازو بن چکی تھیں۔ بھٹو کا تختہ الٹ کر عسکری طاقتوں کو نجات دہندہ قرار دینے والے ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جب 1947 میں نیا تھا، تب بھی نئے والی کوئی بات نہ آ سکی، یعنی بنیاد ہی جمہوریت سے محروم اور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی، جنہوں نے آگے چل کر عوام سے ہاتھ ہی کیا۔

ضیاء الحق بھی نئی سوچ اور اسلام کی کشتی پر بیٹھ کر مسلمانوں کو طاغوت کے طوفان سے نکالنے کے لئے آیا تھا۔ پیپلز پارٹی بلاشبہ متاثرہ فریق تھی اس کی قیادت اور کارکن ملک بھر میں فوجی جنتا کی نگاہوں میں ہر طرح کا جبر برداشت کر رہے تھے۔ صرف بائیں بازو کی جماعتوں اور سوچ کے حامل جمہوریت پسند طبقات اس نئے پاکستان کی مزاحمت میں شریک تھے۔ انہیں کیا کچھ جتن کرنا پڑے اور کون سے مصائب چھیلنے پڑے، یہ سب جمہوریت کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک مستند رائے پائی جاتی ہے کہ جمہوریت کی تڑپ اور طلب شاید اس دور سے پہلے اور اب بھی نہیں پائی گئی۔

آمریت کے خلاف جمہوریت کی خواہش رکھنے والے سیاسی لوگوں کے میل ملاپ کا مرکز لاہور ہائیکورٹ کا احاطہ تھا، جہاں سیاستدان، ٹریڈ یونین لیڈر، طلبہ یونین کے سرگرم رکن پائے جاتے تھے۔ لیفٹ سے تعلق والے عابد حسن منٹو اور ہمدردی رکھنے والے عاصمہ جہانگیر، چودھری اصغر خادم، ملک قاسم، سید افضل حیدر اور کئی سرگرم نام تھے، بائیں بازو کی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لوگ زیادہ سرگرم نہ تھے، اس کی بنیادی وجہ لیڈرشپ کے ضیاء آمریت کے ہاتھوں جیلوں اور روپوشی کی نذر ہونا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کی آشیر باد سے سرخ انقلاب کے متمنی ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پرچم تلے کام کر رہے تھے۔ لاہور میں بھی اس تنظیم کو سیاسی حلقوں اور کسی حد تک تعلیمی اداروں میں متعارف کرایا گیا۔

ڈی ایس ایف کے نوجوان ایجنسیوں کی نظروں سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں سے زیادہ سیاسی قائدین کی بیٹھک میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے، بڑوں کی سرگرمیوں مظاہروں، جلسوں اور بائیں بازو کے لوگوں کے اجتماع میں شریک ہوتے تھے۔

ہائیکورٹ کے قریب مزنگ میں ٹیمپل روڈ سے ملحقہ علاقے میں ایک کمرے پر مشتمل اکیڈمی میں جس کے باہر ٹائمز کالج کا بورڈ لگا ہوتا، ڈی ایس ایف کے یار دوستوں کا میٹنگ پوائنٹ یا ڈیرہ بن گیا، جہاں تنظیم کے باقاعدہ اجلاس ہوتے اور اس مقام کو بڑی خفیہ حیثیت حاصل تھی، حالانکہ رہائشی علاقے میں گھروں کے درمیان واقع تھا۔

ٹائمز کالج میں بیٹھنے والے جیسے ضیاء الحق حکومت کے خلاف انقلاب کا ہراول دستہ سمجھتے تھے۔ ہم سے کچھ ریگولر سٹوڈنٹس تھے کچھ نے تعلیمی سفر مکمل کرلئے بعض نے اس جدوجہد کی خاطر یہ سلسلہ موقوف یا ادھورا چھوڑ رکھا تھا بہرحال اصل مشن جمہوریت پسندوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہوتا تھا۔ کسی میٹنگ یا مظاہرے کی اطلاع یا پھر اپنی جدوجہد کے نعروں پر مبنی پوسٹرز لگانا اور دیواروں پر وال چاکنگ بھی ایک بھرپور اور جان مشکل میں ڈالنے والا کام ہوتا جس میں پکڑے جانے پر گرفتاری کے بعد تکلیف دہ مراحل سے متعلق کہانیاں سن رکھی تھیں۔ اس لئے پوسٹر بازی کرنے پر بڑا فخر محسوس کیا جاتا بلکہ کچھ کمزور دل یا کہہ لیں محتاط دوست اس عمل سے گریز کرتے تھے۔

ٹائمز کالج کے روح رواں ہمارے پیارے دوست اور فنکار تھے جنہیں حلیے کی مناسبت سے ملا کہا جاتا، حالانکہ وہ ملاؤں سے دور رہتے بلکہ خوف کھاتے تھے۔ یہ اکیڈمی کبھی ان کے بھائی اور دوست مل کر علاقے کے بچوں کو پڑھانے کے لئے چلاتے تھے، اب وہاں اس کے آثار ہی رہ گئے تھے، بینچوں کو ساتھ جوڑ کر بیڈ یا ٹیبل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کسی خاص میٹنگ یا سیاسی شخصیت کی آمد کی صورت میں ٹائمز کالج کا حلیہ درست کر لیا جاتا، عام طور پر وہاں گپ شپ ہوتی، سگریٹ اور چائے نوشی کے دور چلتے۔

ملا ایک باریش نوجوان، جس نے آنکھوں پر چشمہ چڑھایا ہوتا، انگلیوں میں انگوٹھیاں اور کلائی میں کڑا، گلے میں بھی مختلف قسم کے ہار پہن رکھے ہوتے۔ ملا ٹائمز کالج کا فوکل پرسن تھا، اسے کبھی کبھار صفائی کا دورہ پڑتا اور سارے کالج یعنی اس ایک کمرے کو صاف کر کے سامان کی ترتیب درست کرنے میں لگ جاتا بلکہ دوسروں کو بھی اس عمل میں شریک کر لیتا۔ گفتگو کا موضوع ملک میں جمہوری جدوجہد کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر تنقید اور اپنی رائے کے علاوہ سوشلسٹ ممالک میں جانے والے بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے طلبہ بھی زیربحث آتے، ملا اور کچھ دوسرے دوست روس، رومانیہ، بلغاریہ، اور نہ جانے کئی ممالک میں جانے کے لئے بے تاب ہوتے، پڑھنے والوں کے ہاتھوں میں روسی ناول اور سوشلسٹ نظریات پر مبنی مواد ہوتا۔ جس کا مطالعہ زیادہ ہوتا وہ تقریر بھی بڑی کرتا۔

کبھی کبھار لگتا جیسے ٹائمز کالج بھی کسی ایسے ناول کا مرکز اور یہ سب آنے والے کردار ہوں، کچھ دوستوں کا خیال تھا یہاں جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں، یہاں خواری کے بجائے سوشلسٹ ممالک میں جاکر نہ صرف تعلیم لی جائے بلکہ وہیں اپنی سوچ اور نظریات کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ یہ جیسے کچھ کا تعبیر پا جانے والا خواب بن چکا تھا۔

دانشور ساتھی مختلف قسم کے استدلال پیش کرتے، ان میں کچھ عملیت پسند اور کچھ نظریات پر کاربند رہنے کے عادی تھے۔ ہر طرح کی سوچ پائی جاتی، ٹائمز کالج میں آ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے سب کسی سفر میں ہیں اور اس دوران انہیں کسی منزل کی آمد کا شدت سے انتظار ہو۔ کبھی یہ پناہ گاہ لگتا اور کبھی مقام آسودگی محسوس ہوتا، ٹائمز کالج میں بیٹھ کر آئندہ کی منصوبہ بندی کی جاتی، اس مشن کی تکمیل کے بعد تھکے ہارے بھی یہیں پہنچ کر سکون کی نشست ہوتی۔ کچھ دوست کئی کئی دن یہیں قیام کرلیتے۔ گھر جانا بھی بھول جاتے۔ اس جگہ سے ایک انسیت اور اپنا پن سا ہو گیا تھا۔

آج پینتیس چھتیس برس بیت گئے، سب ادھر ادھر ہو گئے، کوئی کسی کام میں مصروف ہوا، کوئی بیرون ملک چلا گیا، کسی نے دنیا سے رخصت اختیار کرلی، ملا اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا، اس کے ساتھ کچھ اور دوستوں کا ملک سے باہر جانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا، انقلاب نہ آیا، جمہوریت پسندوں نے ضیاء الحق کی حادثے میں ہلاکت پر ایک دوسرے کو مبارک باد دی، اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی جس کے بعد مسلم لیگ اور پھر پیپلز پارٹی کا آنا جانا شروع ہو گیا، وہ بائیں بازو کی سرگرمیاں اور نشستیں نہ جانے ماضی کا قصہ بن گئیں، آنے والے برسوں میں کئی اتحاد بنے اور کئی تحریکیں چلیں، معلوم نہیں نوجوانوں اور طلبہ نے کس حد تک اس میں شرکت کی، ان کے مل بیٹھنے کے کون سے مقامات رہے، لیکن ٹائمز کالج جیسا مقام شاید لاہور میں دوبارہ نہیں بن سکا، ملا جیسی وہ سوچ اور سپرٹ بھی نہیں، جو دوستوں کو اکٹھا کرنے کے لئے اپنی جگہ پیش کرتے اور سماج میں تبدیلی کے لئے خواب دیکھتے۔ تبدیلی کی باتیں اب کچھ اور رخ اختیار کر گئیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments