لاہور میں طلبا دھرنا کیوں دیے بیٹھے ہیں


پنجاب اسمبلی کے سامنے گزشتہ چند روز سے طلباء کا دھرنا جاری ہے جو کہ اپنے مطالبات لیے وہاں خاک نشیں ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان میں زیادہ تر طلباء کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے اور اس دھرنے کا آغاز بھی پنجاب ہی کے ایک ضلع پاکپتن کی نمائندہ طلباء تنظیم کی جانب سے کیا گیا ہے۔

جی ہاں! ضلع پاکپتن وہی ضلع ہے جو ہمارے پرائم منسٹر صاحب کا پیر گھرانا ہے۔ یہ ضلع 25 لاکھ نفوس کی آبادی کا ایک پسماندہ ضلع ہے جو کہ جی ٹی روڈ سے کٹ کر دریائے ستلج کنارے آباد ہے۔ شہر کا داخلی راستہ اسے ساہیوال، ملتان اور اوکاڑہ جی ٹی روڈ (براستہ دیپالپور) مضافات سے جوڑتا ہے جبکہ شہر کے دوسرے کونے پر گزشتہ 15 سالوں سے زیر التواء بابا فرید پل (ستلج پل) ٹوٹے، پھوٹے نشانات کے ساتھ نوحہ کناں ہے جو شاید مستقبل بعید میں بھی اپنی تکمیل سے کوسوں دور ہے۔

تاہم ابھی اس شہر کا بنیادی مسئلہ ٹوٹے پل، ٹوٹی سڑکیں یا آخری سانسوں پر چلنے والا واحد سرکاری ضلعی ہسپتال نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے لوگ خان صاحب سے دربار بابا فرید پر لنگر خانوں کی تعداد میں اضافے کی امید لگائے بیٹھے ہیں بلکہ یہاں کا بنیادی مسئلہ یہاں کے باسیوں اور خاص کر نوجوان طلباء کا وہ آئینی و قانونی حق ہے جسے گزشتہ ہر دور حکومت نے سلب کیا اور وعدہ فراموش رکھا اور یہ حق ہے اعلیٰ تعلیم کا، پاکپتن میں یونیورسٹی کے قیام کا اور اس نگر کے بچوں و بچیوں سے کیے گئے سنہرے مستقبل کے عہد و پیماں کا جو کہ تاحال استحصال کا شکار ہے۔

لہذا آج اپنے اسی استحصال کے خلاف طلباء تنظیمیں پنجاب اسمبلی کے باہر موجود ہیں اور پاکپتن میں یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چند ہی روز میں اس آواز پر بہار کا رنگ چڑھ چکا ہے اور اب کئی نئے جذبوں کی کونپلیں طلباء یونین کے متحدہ محاذ کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہیں اور نہ صرف یہ کہ دھرنے میں شامل تمام طلباء تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکپتن میں یونیورسٹی بننا مقامی طلباء کا حق ہے بلکہ اپنے اس مشترکہ محاذ میں اپنی شناخت کی بحالی کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں اور طلباء یونین پر پابندی ختم کرنے اور اس کی بحالی کے حوالے سراپا احتجاج ہیں۔

دھرنے کے شرکاء کو لگتا ہے کہ طلباء یونین کی بحالی اور یونیورسٹی جیسے مطالبات کا آپس میں بڑا گہرا تال میل ہے اور یہی وہ رستہ ہے جس کے ذریعے اس یونیورسٹی کے قیام یا اس جیسے دیگر کسی بھی قسم کے طلباء مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ حیف صد حیف! کہ طلباء یونین پر پابندی کا معاملہ چار دہائیوں پرانا ہے۔ جب 9 فروری 1984 کو جیمز بانڈ کی فلم ”اے مین ود گولڈن گن“ کے اشتہار کے ساتھ طلباء یونین پر پابندی کی سرکاری خبر شائع ہوئی۔ 9 فروری کی اس No کے بعد کسی جمہوری حکومت میں اتنی جرات نہیں ہو سکی کہ وہ طلباء کے اس جمہوری حق پر Yes کہہ سکے اور یوں آج 35 سال گزرنے کے بعد بھی طلباء یونین پابندی کا شکار ہیں۔

عمران خان تو اس حوالے سے صاف الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہماری طلباء تنظیمیں پرتشدد ہو چکی ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں رات کی ٹھٹھرتی سردی میں اپنے مطالبات کی مانگ کرتے یونیورسٹی طلباء پر ریاست کا استحصالی تشدد نظر نہیں آتا۔

پاکپتن میں یونیورسٹی کے قیام کا یہ مطالبہ نیا نہیں ہے بلکہ اس پر متعدد بار آواز بلند کی جا چکی ہے تاہم یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس پر کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ سائیں بزدار نے بھی احاطہ دربار میں کھڑے ہو کر ایک صحافی کے سوال پر اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ جلد ہی یہاں بابا فرید یونیورسٹی قائم کی جائے گی لیکن پھر بات ہوا ہو گئی۔

بات دشمن کی کریں گے تو برے لگیں گے لیکن خان صاحب کو یاد دلاتے چلیں کہ پڑوسی ملک میں 1998 ء سے بابا فرید یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز موجود ہے جو ہر سال سینکڑوں سکالرز پیدا کر رہی ہے لیکن خود بابا فرید الدین جہاں مدفون ہیں وہاں کے مکیں یونیورسٹی کے حصول کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ خان صاحب کا اس شہر سے روحانی رومانس تو خوب رہا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ بابا فرید کے دیے گئے درس میں سے خلق سے محبت کا موضوع بھی چن لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments