ایوان صدر میں یوم محبت


صحافتی بے قراری (ایکسائٹمنٹ) کیا ہوتی ہے، اس کا تجربہ صدر ممنون حسین کی ایک تقریر کی وجہ سے ہوا۔ یہ موقع تھا سردار عبدالرب نشتر کی برسی کا اور موضوع تھا ویلنٹائن ڈے کا۔

ممنون صاحب پیدائشی مسلم لیگی تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ان کے بزرگ آگرہ مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ آزادی کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوا تو یہاں بھی یہ روایت برقرار رہی۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی انھیں عبدالخالق اللہ والا کی تربیت دے دیا گیا۔ ممنون صاحب کی ابتدائی تربیت سیاست کے اسی مدرسے میں ہوئی۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کی آمریت کے خلاف قومی جدوجہد کی قیادت کر رہی تھیں۔ یوں اول و آخر مسلم لیگی ہونے کے باوجود ان کے مزاج میں مزاحمت کی نمایاں جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ مسلم لیگی روایتی طور پر غیر مزاحمتی مزاج رکھتے تھے اور ان کی سیاست کا خمیر سڑکوں کے بجائے ڈارئنگ روم سے اٹھتا تھا۔

ابتدائی زمانے میں ممنون صاحب کی جو تربیت ہوئی، اس کے اثرات بعد کے زمانے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ غلام اسحق خان نے جب میاں نواز شریف کی حکومت معزول کی تو ممنون صاحب ان دنوں کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر تھے۔ انھوں نے فوری طور ہڑتال کی اپیل کر دی جس کے جواب میں پورا کراچی بند ہو گیا۔ میاں نواز شریف کے لیے یہ حیران کن تھا۔ وہ فوری طور پر کراچی پہنچے اور ممنون صاحب سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری آپ کی نہ کوئی جان پہچان تھی اور نہ کوئی تعلق، پھر آپ نے ہڑتال کیوں کرائی؟

ممنون صاحب نے اس موقع پر جو جواب دیا، وہ میاں صاحب کے دل کو چھو گیا۔ ممنون صاحب نے کہا تھا کہ میں نے یہ کام کسی تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اصول کی بنیاد پر کیا ہے۔ غلام اسحق خان نے جو قدم اٹھایا، اس سے صرف جمہوری عمل ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ ملک بھی غیر مستحکم ہوا ہے۔ ہمارا احتجاج اس کے خلاف تھا۔ یہی واقعہ تھا جو ان دونوں راہنماؤں کے درمیان ایک مضبوط تعلق کی بنیاد بنا۔ میاں صاحب نے انھیں دعوت دی کہ وہ ان کی جماعت میں متحرک ہو جائیں۔ ممنون صاحب نے یہ دعوت قبول کر لی۔

ممنون صاحب کے مزاحمتی مزاج کی تیسری اور سب سے بڑی جھلک تب دکھائی دی جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر کے انھیں پابند سلاسل کر دیا۔ میاں صاحب جن دنوں لانڈھی جیل میں بند تھے، عید کا موقع آ گیا۔ اس موقع پر ممنون صاحب نے اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے کارکن یہ عید میاں صاحب کے ساتھ جیل میں منائیں گے۔ یوں وہ علی الصبح ہی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ لانڈھی جیل روانہ ہو گئے۔ ایک فوجی حکومت کے دوران اس طرح کی سرگرمی کیسے برداشت کی جا سکتی تھی؟ پولیس نے اس جلوس کو روک دیا اور لانڈھی جانے کے تمام راستے بند کر دیے۔ اس موقع پر مار پیٹ بھی ہوئی اور آنسو گیس بھی استعمال کی گئی۔ اس موقع پر کیا کیا جائے؟ کیا منتشر ہو جائیں یا احتجاج کی کوئی نئی روایت رقم کی جائے۔ انھوں نے یہ سوچا اور شاہراہ فیصل پر احتجاج کی ایک نئی تاریخ بنا دی۔

وہ شاہراہ فیصل کے عین بیچ کھڑے ہو گئے اور خطبہ عید پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد نماز عید کی امامت کی۔ یوں ممنون صاحب کی ذہانت کے باعث یہ واقعہ یاد گار حیثیت اختیار کر گیا۔ نام نہاد ہائی جیکنگ کیس میں میاں صاحب کی پیشیوں کے سارے انتظامات بھی ممنون صاحب کے ہاتھ میں تھے۔ یہی سبب تھا کہ اس مقدمے کی ہر پیشی ایک سیاسی واقعہ بن جاتی۔ ممنون صاحب اس حکمت کے ساتھ انتظامات کرتے کہ میاں صاحب کو صحافیوں اور کارکنوں کے ساتھ بات چیت کا کوئی نہ کوئی موقع میسر آ ہی جاتا۔ اس طرح ایک بین الاقوامی خبر وجود میں آ جاتی۔

یہ زمانہ انھوں نے عدالت کے باہر ایک سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گزارا۔ ممنون صاحب کے اس انداز کی دلچسپ تصاویر ان دنوں اخبارات میں شائع ہوا کرتی تھی۔ ایک تصویر میں وہ فٹ پاتھ پر بیٹھے سیگریٹ پیتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہی ممنون صاحب جب ایوان صدر پہنچے تو سوال پیدا ہوا کہ مزاحمتی مزاج رکھنے والا یہ کارکن اب کیا کرے گا۔ کیا وہ ریاست کا سب سے بڑا منصب سنبھال کر بھی مزاحمتی کردار ادا کرتا رہے گا؟

ممنون صاحب نے اپنی یہ شناخت برقرار رکھی لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ انھوں نے فیصلہ کیا وہ اور ان کا ایوان صدر نئی نسل کی نظریاتی تربیت کا فریضہ انجام دے گا۔ ان کا یہ فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ایوان صدر میں اس زمانے میں نظریاتی اور تربیتی اعتبار سے اہمیت رکھنے والی جتنی سرگرمیاں ہوئیں، شاید ہی کبھی ہوئی ہوں۔ شروع میں طریقہ یہ تھا کہ وہ خود ہی بتا دیتے کہ فلاں تاریخ کو تحریک پاکستان کے کس قائد کی برسی یا یوم ولادت ہے۔ بعد میں ان کا اسٹاف خود ہی اس کا خیال رکھنے لگا۔

فروری کی 14 تاریخ سردار عبدالرب نشتر کی برسی کا دن ہے۔ اس طرح کے ایام اسکول اور کالج کے طلبہ کے ساتھ منانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس روز بھی ایسی ہی تقریب بپا تھی جب دوران تقریر ممنون صاحب کو خیال آیا کہ آج تو ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ انھوں اپنی تقریر لپیٹ کر ایک طرف رکھی اور اس موضوع پر رواں ہو گئے۔ ممنون صاحب دینی اور تہذیبی پس منظر رکھنے والی شخصیت تھے۔ وہ اس مغربی تہوار کو کیسے درست سمجھ سکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے بتایا کہ یہ دن منانا کیسے ہماری تہذیبی روایت کے خلاف ہے اور اس کے نقصانات کیا ہیں۔ ایوان صدر میں خبر بنانے والے لوگ صدر صاحب کا یہ بیان سن کر جذباتی ہو گئے اور انھوں نے یہی خبر بنائی کہ ویلنٹائن ڈے منانا اسلامی اور تہذیبی روایت کے خلاف ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

صدر صاحب کی اس تقریر کا شائع ہونا تھا کہ ایک بھونچال آ گیا۔ اگلے روز جہاں یہ خبر نمایاں انداز میں شائع ہوئی، وہیں انگریزی کے ایک بڑے اخبار نے ان کا کارٹون بھی شائع کیا جس میں وہ ایک لمبا سا ڈنڈا اٹھائے ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی خبر لیتے دکھائے گئے۔ طلعت حسین ان دنوں کسی ٹیلی ویژن چینل سے وابستہ تھے۔ انھوں بھی اس کے خلاف پروگرام کر دیا اور شاید کالم بھی لکھا۔ کئی انگریزی اخبارات میں ان پر تنقید ہوئی۔

جب معاملہ اتنا پھیل گیا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ذرا جائزہ لیا جائے کہ کہیں اس معاملے میں ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی؟ اس سلسلے میں ممنون صاحب سے بھی بات کی گئی۔ معلوم ہوا کہ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں ممنون صاحب کے جذبات سے آگاہی کے بعد خبر نگار ذرا جذباتی ہو گئے اور انھوں نے سارا زور بیاں مخالفت میں ہی استعمال کر دیا حالانکہ ممنون صاحب نے اس موقع پر ایک بات اور بھی کہی تھی۔ یہ بات خبر کا حصہ نہ بن سکی۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ دن منانا درست نہیں لیکن جو لوگ مناتے ہیں، انھیں منانے دیں۔ ایک روز انھیں خود ہی احساس ہو جائے گا کہ یہ چیز ہماری تہذیبی روایت سے تعلق نہیں رکھتی، یوں وہ اپنی اصلاح خود ہی کر لیں گے۔ ان کی تقریر کا یہ حصہ خبر کا حصہ نہ بن سکا اور ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔

ذرا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو کھلے گا کہ کچھ ایسا ہی ہماری صحافت میں بھی ہوتا ہے۔ رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافی بعض اوقات اسی قسم کی بے قراری یا ایکسائٹمنٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کوئی بات رپورٹ ہوتی ہے اور کوئی بات رپورٹ نہیں ہوتی، نتیجہ ایک ہنگامے کی صورت میں نکلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments