اظہار لاتعلقی -طنز ومزاح


بذریعہ اشتہار ہذا عوام الناس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہماری کمپنی ”مغلیہ تھیٹرز لمیٹڈ“ جو جنوبی ایشیاء میں معیاری تفریح، فیملی انٹرٹینمنٹ اور دیگر متفرق سروسز فراہم کرنے میں منفرد اور مشہور و معروف ہے، کا مسٹر جو بائیڈن عرف ماما ٹھاکر نامی اداکار سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا اس شخص کے ساتھ کسی بھی طرح کے کاروباری لین دین، فلمی مراسم یا دیگر معاملات کے کمپنی کسی طور بھی ذمہ دار نہ ہو گی۔ کمپنی کے سابقہ اور حالیہ ملازمین بھی ہوشیار رہیں اور اس شخص سے کسی نئے ڈرامے یا طویل دورانیہ کے کھیل کا بیعانہ اپنے طور پر ہرگز نہ پکڑیں۔

واضح رہے کہ مسٹر بائیڈن ایک عجیب اور لایعنی الحل نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے یہ گزشتہ تیس سال سے روزانہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر امریکی صدر ہونے کی ایکٹنگ بلکہ اوور ایکٹنگ کر رہا تھا مگر امسال بوجہ یہ واقعی خود کو امریکہ کا صدر اور اہم ترین فرد گرداننے لگا ہے۔ جس کی تصدیق کے لیے ہمارے ادارہ کے ڈائریکٹر مسٹر خان المعروف راجو بھیا اور دیگر اعلیٰ عہدیدار اس کو دو عدد فون کالیں اور کئی مس بیلیں کرا چکے ہیں۔ مگر یہ ایک کائیاں اور گھاگ فنکار ہے جس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہواء ہے۔ چنانچہ افشائے راز کے خوف سے یہ ہمارا فون نہیں اٹھاتا اور نہ ہی خود کال کر کے اپنے کوائف کی تصدیق کرتا ہے۔ حالانکہ نہ تو اس کا نمبر بدلا ہے اور نہ ہی اس کی موبائل سروس میں کوئی خلل ہے۔

دوسری طرف ہمارے ادارہ کی فون لائنیں بھی کام کر رہی ہیں اور ہم اپنے دفتر میں بنفشی رنگ کے نئے فون سیٹ بھی لگوا چکے ہیں۔ جس کمرہ یعنی کنٹرول روم میں یہ فون دھرے ہیں وہاں ہمہ وقت اگر بتی سلگتی رہتی ہے اور ہلکے پھلکے عملیات بھی ہوتے رہتے ہیں تاکہ بے ہدایت جنات اور پست حوصلہ شیاطین بھی مخل نہ ہوں۔ بیک گراؤنڈ میں استاد امانت علی مرحوم کی غزل ”ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے“ کا ٹیپ بھی مدھم آواز میں چلتا رہتا ہے۔

خود ڈائریکٹر صاحب اپنے بالکوں کے ساتھ دن اور رات کے مکروہ اوقات کی پرواہ کیے بغیر اس آلہ ء گفت و سماع کا مسلسل پہرہ دیتے ہیں۔ فون کی ہر گھنٹی پہ رسیور بھی آپ خود اٹھاتے ہیں بشرطیکہ فون ملانے والا تعریف کرنے میں بخل سے کام نہ لے اور ماضی میں کمپنی کو خواہ کتنی ہی رقم ادھار دے چکا ہو، واپس مانگ کر شرمندہ نہ ہو

مقصد اس سارے انتظام کا یہ ہے کہ اگر اچانک اس ستم شعار کا فون آ جائے تو باعث غفلت، عدم موجودگی یا بوجہ کمیٔ برقی چارج خفت نہ اٹھانی پڑے۔ چنانچہ یہ ہو نہیں سکتا کہ بڈھا بیل مارے اور ہم فون نہ اٹھائیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس طوطا چشم سے محض ایک گھنٹی کے فاصلے پر ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ یہ شخص کمپنی کے لئے یا کمپنی اس کے لئے اجنبی ہو۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ کالر آئی ڈی پر ہمارا نمبر نہ پہچانتا ہو۔ یاد رہے ماضی میں یہ شخص مغلیہ تھیٹرز لمیٹڈ کے مشہور زمانہ کھیل ”میوزیکل چیئر“ ”غلام گردش“ اردو فلم ”بالغان“ اور پنجابی فلم ”مینوں نوٹ وکھا“ میں ہنٹر والے انکل کا کردار نبھا چکا ہے۔

ہمارے ادارہ کے مشہور اداکار ڈاکٹر ڈھبر ڈھوس اور جسٹس بابا رحمت بھی اس کی اداکاری کے معترف ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حال ہی میں یہ پڑوسی ملک افغانستان میں ایک ٹیلی فلم کو کلائمیکس سے پہلے ہی ادھورا چھوڑ چکا ہے۔ چنانچہ اس کے قول و فعل کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی ایسی ہی حرکات ہیں جس کی وجہ سے اس فلم کی انٹرنیشنل کاسٹ بھی شرمندہ ہے اور چراغ رخ زیبا لے کر اسے ڈھونڈ رہی ہے۔

یہاں ہم عوام الناس کو کسی فراڈ سے بچانے کے لئے اس شخص کا حلیہ بھی بتاتے چلیں۔ اپنی ظاہری وضع اور انداز سخن میں مسٹر بائیڈن انگریزی ہارر (Horror) فلموں میں اس منحنی بابے کے کردار سے ملتا جلتا ہے جو ان فلموں میں فارم ہاؤس میں یا سوئمنگ پول پر پارٹی کے مناظر میں ایک طرف تو ننگ ڈھرنگ ٹین ایجرز کے لئے مشروبات و لحمیات کا انتظام کرتا ہے اور دوسری طرف انہی کے مبینہ قاتل کو آلات تشدد و ذبح بھی فراہم کرتا ہے۔

اس دوغلی سیرت کی وجہ سے ایسے لوگوں پر فلم کے شروع سے درمیان تک ”تیرے جانثار۔ بے شمار بے شمار“ ، ”بہت اچھے“ اور ”زندہ باد“ جیسے نعروں سے خراج تحسین پیش کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ جبکہ انٹرول کے بعد فلم کے آخر تک ”در فٹے منہ“ ، ”لکھ دی لعنت“ ”ڈوب مرو“ اور بعض ناقابل اشاعت القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح کا کردار چینی اور جاپانی ٹائپ فلموں میں بھی پایا جاتا ہے جہاں یہ قتل کی واردات کا واحد عینی گواہ ہوتا ہے جو وقوعہ پر پولیس کو کال کر نے کے فوراً بعد ہارٹ اٹیک سے، چینی زبان میں شریکوں کے طعنے سن کے، زہر کھا کے، کرنٹ لگنے سے یا کئی دفعہ بلا وجہ ہی راہی عدم ہو جاتا ہے۔

عوام یہ بھی نوٹ فرما لیں کہ مسٹر بائیڈن ہکلاتا بھی ہے اور بھ سے شروع ہونے والے الفاظ مثلاً بھینس، بھینگا، بھارت وغیرہ کہنے سے معذور ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہمسایہ ملک میں بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ بعض کمپنی ملازمین کا خیال ہے کہ یہ جہان دیدہ بڈھا اس وجہ سے ہمارا فون نہیں اٹھاتا کہ کہیں ہم اس سے کچھ مانگ نہ لیں یا پرانی فلموں کا حساب کتاب کھول کر نہ بیٹھ جائیں۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں۔ اول یہ کہ چند استثنائی اور اضطراری صورتوں کے علاوہ ہماری کمپنی کبھی بھی غیر رمضان میں صدقہ، چندہ یا زکات نہیں لیتی۔

ہاں ہمارے فن کا کوئی قدر دان اپنی خوشی سے واپسی کی امید رکھے بغیر نیت صالح سے دے دے تو کوئی حرج نہیں۔ دوم مغلیہ تھیٹرز آج کل صرف چائنہ فلمز سے کے تعاون سے ”راہداری“ نامی فلم پر ہی کام کر رہی ہے۔ وہ زمانے گئے جب ہم بیک وقت کوریا موویز، گلف انٹرٹینمنٹ، سعودیہ پروڈکشنز اور برٹش ٹی وی کے ٹھیکے ساتھ ساتھ پکڑ لیتے تھے۔ سوم ہمارا ریکارڈ ہے کہ ہم جب کسی کام کا بیعانہ پکڑ لیتے ہیں تو اس کام کی تکمیل کر کے متعلقہ پارٹی سے ادائیگی کرواتے ہیں اور پھر اس کھاتے کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیتے ہیں۔ پرانے کھاتے پرانے زخموں کی مانند ہوتے ہیں جن کو نہ ہی چھیڑا جائے تو اچھا ہوتا ہے۔

المشتہر مغلیہ تھیٹرز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments