طلاق، شادی اور حس مزاح

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


موسم نے کروٹ کیا بدلی کہ لوگ بھی حشرات الارض کی طرح اپنے خول جھاڑنے اور نئی کینچلیاں بدلنے چل پڑے۔

شادی یوں تو ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ہمارا معاشرہ بنیادی طور پہ شدید ’شادی کانشس‘ معاشرہ ہے۔ ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالتے کہ لوگ باگ شادی کے بارے میں بھونڈے مذاق شروع کر دیتے ہیں۔

لڑکے ہوں یا لڑکیاں ،ہر بات شادی سے شروع ہو کر شادی پہ ختم ہوتی ہے۔ اکثر لڑکیاں بچپن میں چلا چلا کر کہتی ہیں، ہم شادی نہیں کریں گے ،ہم تو پڑھیں گے۔ آسمان گواہ ہے کہ ایسی لڑکیوں کی شادی ہی سب سے پہلے ہوتی ہے۔

لڑکے بھی اوپری دل سے یہ ہی کہتے ہیں کہ شادی تو قید ہے وغیرہ وغیرہ اور یہاں بھی بڑبولے پہلے قید ہوتے ہیں۔ ماں باپ کی ہر خواہش ہر فکر اولاد کی شادی کے گرد گھومتی ہے۔

جن لوگوں کی شادی کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے ان کی تو وہ شامت بلائی جاتی ہے کہ رہے نام سائیں کا۔ جو غریب جلدی شادی کر بیٹھتے ہیں زمانہ ان سے بھی راضی نہیں۔

ایک شادی کرنے والے ہر وقت دوسری شادی کے مذاق کرتے رہتے ہیں اور ان کی بیگمات کھسیا کھسیا کر کہتی رہتی ہیں کہ ہاں ہاں میں نے تو اجازت دے رکھی ہے کر لیں دوسری شادی۔

ان ہی گھسے پٹے حسرت زدہ مذاقوں کے درمیان اگر کسی بھلے مانس کی کسی وجہ سے طلاق ہو جائے تو سب پہ ہمدردی ٹوٹ پڑتی ہے۔

طلاق کے بعد بھی کون جینے دیتا ہے، دوسری شادی جلدی کر لی تو بس یہ ہی چکر تھا، اسی وجہ سے طلاق ہوئی۔ شادی نہیں کی تو کلے پیٹ پیٹ کر کانوں کو ہاتھ لگائے جاتے ہیں کہ ہیں ہیں یہ بات تھی اور اگر کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی تو ٹھنڈی آہیں بھر کے کہا جاتا ہے، ’دیکھا نا آخر بے چارہ کب تک لنڈورا گھومتا آخر کو گھر تو بسانا تھا۔‘

یہاں تک بھی خیر ہے اگر کسی کی دوسری شادی بھی نہ چلے تو لوگوں کو باقاعدہ غش پڑ جاتے ہیں۔ ائے ہئے! دوسری بھی چھوڑ دی؟ اور اس کے بعد ایک ناگفتنی تقریر۔

تیسری شادی کرنے والا ہمارے معاشرے میں رنگ لگا چڑا بن جاتا ہے جسے سب ٹھونگ ٹھونگ کر کھا جاتے ہیں۔ بور کے ایسے لڈو کہ بار بار کھاؤ اور پچھتا پچھتا کے پھر سے کھاؤ۔

یہاں تک بھی خیر گزرتی ہے، کہرام اس وقت مچتا ہے جب کسی کی تیسری شادی بھی زد پہ آ جائے۔ ہائے یہ ہمارا ظالم معاشرہ!

دوسری شادی ،تیسری چوتھی ،پانچویں شادی، ان سب کا ذکر کر کے ایک نادیدہ لذت کے تصور سے جھوم اٹھنے والے شاید اس تکلیف کو نہیں سمجھتے جو کسی گھر کے ٹوٹنے سے پہنچتی ہے۔

اس تکلیف سے بھی بڑی تکلیف وہ ہے جو ایک برے تعلق کے ڈھول کو گلے سے ڈال کے تاعمر بجانے سے پہنچتی ہے۔ کسی گلے، سڑے، زہریلے اور باسی تعلق کے مردہ گھوڑے کو گھسیٹتے رہنے سے بہتر کیا نہیں کہ اس تعلق سے نکل آیا جائے؟ کیا نئے تعلق بنانے کے لیے ہمیں معاشرے سے سند لینے کی ضرورت ہے؟ کیا معاشرہ ہر شخص کو یہ سند دے سکتا ہے؟

نہ معاشرہ یہ سند دے گا اور نہ اس سند کے انتظار میں رہنا چاہیے۔ دنیا میں شادی اور طلاق کے علاوہ بھی بہت سے موضوعات ہیں مثلاً یہ ہی کہ بہار آنے کو ہے تو اگر آپ نے ابھی تک خزاں کے جھاڑ جھنکاڑ سے جان نہیں چھڑائی تو پہلی فرصت میں چھٹائی کر ڈالیے۔

رہی بات ہمارے ’شادی کانشس معاشرے‘ کی تو وہ ایسا ہی رہے گا۔ شاید آنے والی نسلیں یہ سمجھ سکیں کہ شادی ہونا، شادی کا کامیاب یا ناکام ہونا، دوسری،تیسری یا پھر چوتھی شادی کا ہونا ایسا بھی کمال کام نہیں کہ اپنا قیمتی وقت برباد کر کے اس پہ ہی بات کی جائے۔

تو ایسا ہے کہ جو شادی رچا رہے ہیں انھیں شادی مبارک اور جن کے سامنے زندگی کا دوراہا ہے انھیں خدا ہمت دے کہ وہ بہتر راستہ چن لیں اور باقی جو کھی کھی کھو کھو کرنے والے ہیں انھیں ہنسنے کے لیے بہتر مواقع ملیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments