مذہبی جنون کھپے کھپے


ایمان کے تین درجوں سے پاکستانی مذہبی جنونیوں کا کھلواڑ، اور قتل و غارت کی طویل سیاہ رات۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہ ہو تو اسے اپنی زبان سے مٹائے اور اگر زبان سے مٹانے کی طاقت نہ ہو اس برائی کو اپنے دل سے مٹائے یعنی دل سے اس سے نفرت کرے۔ یہ ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے“ ۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 179
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 49
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1137
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1312
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1275
یہ حدیث پاکستانیوں نے ٹکڑوں میں اپنا رکھی ہے۔

پاکستانی، پاکستان میں، اس حدیث پر عمل، اپنے مفادات اور ذاتی رنجش کی صورت میں، اپنے آپ کو ایمان کے پہلے درجے پر خود ہی فائز کر لیتے ہیں۔ جبکہ وہی پاکستانی جب کسی یورپی ملک میں ہوتے ہیں تو پھر چپکے سے اپنے ایمان کی تنزلی تیسرے درجے پر کر لیتے ہیں۔ کہ ثواب کا کچھ نہ کچھ منافع تو ملتا رہے۔ کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کافر ملک میں اپنے آپ کو ایمان کے پہلے درجے پر فائز رکھنے کا مطلب ہر صورت میں سزا اور جنت نما ملک سے دیس نکالا بغیر کسی حیل و حجت کے مل جائے گا۔ اور دنیاوی جنت کون مسلمان چھوڑے۔ لہذا خیریت اسی میں ہے کہ ایمان کے تیسرے درجے پر فائز رہ کر ہی عافیت سمجھی جائے۔

اب آ جائیے پاکستان میں، یہاں ہر پاکستانی کا اپنا قانون اور اپنی تشریح ہے جسے وہ اپنی جیب میں لیے پھرتا لہذا وہ جب چاہے، جسے چاہے، جہاں چاہے، اپنی ذاتی پسند ناپسند کی بنا پر کسی پر بھی کوئی بھی الزام لگا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے کسی معصوم اور بے گناہ کا قتل کر سکتا ہے یا پھر اگر سخاوت کی خاطر اپنا ثواب دوسرے جاہلوں میں برابر بانٹنے کی آرزو بھی رکھتا ہو تو وہ اپنے ٹارگٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے جاہل درندوں کے آگے پھینک دیتا ہے تاکہ مذہبی زومبی ہجوم اس کی تکہ بوٹی کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا جنت کا ٹکٹ کنفرم کروا سکے۔

امریکہ میں ایک فلم 2013 میں ”دی پرج“ (THE PURGE) بنی (بعد میں، دو ہزار اٹھارہ اور انیس میں اسی موضوع پر ایک سیریز بھی بنی) اس فلم میں ایک رات، (سورج ڈھلنے سے سورج نکلنے تک) امریکی شہریوں کو آزادی دے دی گئی کہ وہ جس کسی کو چاہیں، کسی بھی بنیاد پر نجس، یا غیر ضروری سمجھ کر بلا جھجک قتل کر سکتے ہیں۔ اس فلم کے موضوع کے مطابق اس پرج کی رات جو کوئی بھی قتل کرے گا یا ہو گا اس پر نہ کوئی مقدمہ بنے گا۔ نہ کوئی حد لگے گی، مزید برآں یہ کہ اس قتل و غارت کے متعین وقت کے درمیان نہ کوئی ایمبولینس آئے گی نہ پولیس۔

بس پھر کیا تھا کہ فلم میں جس طرح دکھایا گیا ہے کہ ایک رات میں جو قیامت برپا ہوتی ہے وہ ناظرین کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ اور خوف کی ایک لہر بار بار جسم میں دوڑ جاتی ہے کہ ہر کوئی اس رات کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے مخالفین کا ذاتی رنجش، حسد، انتقام، رقابت، مذہبی تعصب یا نسل پرستی جیسا کوئی بھی جواز بنا کر ایک دوسرے کا قتل عام شروع کر دیتا ہے کہ ہر طرف خون، کٹی پھٹی لاشیں، دھواں اور تباہ شدہ گھروں کے اندوہناک مناظر دکھنے لگتے ہیں۔

مجھے پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ پاکستان میں ”دی پرج“ جیسی کالی رات کب کی آ چکی ہے مگر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کہ کئی بے گناہ مذہب کی توہین کے جھوٹے الزامات میں جاہلوں کے ہاتھوں مسلسل اذیت ناک اموات سے دوچار ہوچکے ہیں جس میں حافظ قرآن سے لے کر ذہنی معذوروں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جنہیں ذاتی رنجش یا ان کی کسی انجان حرکت کو مذہبی رنگ دے کر قتل کیا گیا۔ وہ کلپ تو آپ نے دیکھا ہو گا جس میں ایک پولیس افسر کسی کو دھمکی لگا رہا ہے کہ اگر اس نے اس افسر کی بات نہ مانی تو وہ اس پر توہین مذہب کا کیس کردے گا، کیس کیا کرے گا اسے مذہبی جنونیوں کے حوالے کردے گا جو اس کو خود ہی تشدد کر کے مار دیں گے۔

اور سچ تو یہ ہے کہ توہین مذہب کا الزام تو ایسا الزام ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی بے گناہ پر لگ جائے تو وہ اس کی جان لے کر ہی جان چھوڑتا ہے۔ بے شک اگر وہ جنونی ہجوم سے بچ جائے، حتیٰ کہ عدالت اسے بے گناہ بھی قرار دے دے تو بھی وہ قتل ہونے سے نہیں بچ پاتا بلکہ اس کو بے گناہ قرار دینے والے جج کی زندگی چھین لی جاتی ہے یا پھر اسے ملک چھوڑتا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر نارمل نظر آنے والے انسان جب بھی کوئی ایسا واقعہ دیکھتے ہیں جس میں انہیں مذہب کی توہین محسوس ہوتی ہے تو اسی وقت ایک نارمل انسان پر خونی درندگی طاری ہو جاتی ہے کہ وہ اس شخص کو بغیر ثبوت کے مارنے کو دوڑ پڑتا ہے

جہاں تک قاتلوں کو سزا کا معاملہ ہے تو مجمع میں سے کس کی ضرب سے بندہ مرا، ثابت ہی نہیں ہو پاتا، جج حضرات اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر ملزم کو مجرم بنانے میں، اور قاتلوں کو اعتراف جرم کے باوجود باعزت بری کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ وکیل ایسے کیس نہیں پکڑتے کہ وہ بھی جان سے جا سکتے ہیں اور گئے بھی ہیں۔ پورا تھانہ اور جیل کا عملہ بھی قاتلوں کو ہیرو کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لہذا مذہبی قاتل کو سزا دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ مذہبی الزام میں اگر کوئی ملزم بے گناہ ثابت ہو جائے تو باہر آ کر اسے ہر حالت میں ملک چھوڑنا پڑتا ہے ورنہ پاکستان میں وہ لازمی طور پر کبھی نہ کبھی قتل کر ہی دیا جائے گا۔

نتیجہ اس کالی رات کا جو پاکستان میں ڈھلنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ خون سے سیاہ دھبوں سے مسلسل رنگین ہوتی جا رہی ہے، اس کے ردعمل میں نئی نسل جسے انٹرنیٹ پر مکمل رسائی ہے وہ جتنا مذہب کا موازنہ دوسری طرز فکر سے کرتی ہے، یا دیکھتی ہے تو وہ اپنے مذہب کے ماننے والوں کے جنون سے متنفر ہوتی جا رہی ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے مذہبی اسکالر پوری کر رہے ہیں۔ جو مذہب کو ہر وقت خطرے میں دکھا کر، دوسروں کے قتل کا حکم صادر فرما رہے ہیں۔

مگر یہی نسل اب کچھ اور سوچنے پر مجبور ہے۔ اس کا ایک نتیجہ بھی ہے کہ اب مذہب سے بیزار لوگ علی الاعلان یوٹیوب پر لائیو آ کر برسرعام ہمارے مذہب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پا رہے کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور اگر مقتدر اداروں سے لے کر اچھی فکر رکھنے والے علما نے اس آتش فشاں کو ٹھوس اقدامات سے ٹھنڈا نہ کیا تو یہ ”پرج“ کی کالی کا دورانیہ طویل تر ہوتا ہوا ایک دن مستقل مذہبی زومبیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔

جہاں عام انسان کا وجود بھی نہ ہو گا۔ لہذا مشال، پریانتھا دیاودھنہ اور ابھی تلمبہ میں ذہنی معذور شخص کی سنگساری، صرف میٹھے میٹھے بیانوں سے ختم نہیں ہوگی بلکہ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو ہائی ڈوز بوسٹر ویکسینیشن کی اشد ضرورت ہے۔ مگر یہ کرے گا کون؟ حکومت؟ جو خود انہی کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر انہیں اپنے پہلوؤں میں عزت و احترام سے بٹھا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments