سرور جاوید: صاحب اسلوب شاعر و نقاد


2001 ء کی بات ہے کورنگی میں واقع سول ہسپتال کے ڈاکٹر حضرات کو سندھی پروفیشنل زبان پڑھانے کا پراجیکٹ ملا تھا پراجیکٹ کے کوارڈینیٹر اس وقت کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان آغا نور محمد پٹھان تھے۔ کلاس شروع ہوئے اب میں روسٹرم پہ آیا اور باری باری سے سب نے اپنا تعارف کرایا۔ طلباء و طالبات میری عمر کے بھی تھے اور سینیئر بھی تھے۔ ایک نام طاہرہ نگہت نیر پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تھیں۔ انہوں نے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ نیپال میں اردو پڑھاتی تھیں ہنوز کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہیں، مجھے پتہ نہیں تھا کہ نیر صاحب کون ہیں انہوں نے جب کتاب ”انکار کیسے ممکن تھا“ مجھے تحفتا دی اور کھول کے دیکھی تو نیر ندیم مرحوم کا شعری مجموعہ تھا۔ انتساب کے الفاظ نہایت ہی دلگداز تھے : ”اسی کے نام جس کو جانے کی بہت جلدی تھی۔“

ایک مشاعرے میں سفید بالوں کلین شیو اور پینٹ شرٹ پہنے جو دکھنے میں بھی شاعر لگتے تھے کو مسند صدارت سنبھالنے کی دعوت دی گئی پراعتماد اور آسودہ حال چہرہ دیکھ کر میں بڑا متاثر ہوا۔ برابر میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ ”سرور جاوید نیر ندیم کے چھوٹے بھائی ہیں ان کا پورا خاندان شعر و ادب سے وابستہ ہے۔“ پتہ چلا۔

اکادمی ادبیات، پریس کلب، آرٹس کونسل، انجمن ترقی پسند مصنفین، عوامی ادبی انجمن کے زیراہتمام ادبی و ثقافتی تقریبات میں آنا جانا ہوا تو یہاں سرور جاوید کو شعر پڑھتے اور بیباک تنقیدی رائے دیتے ہوئے سنا۔ کسی تقریب میں سننے کو ملا کہ ان کی زوجہ پروین جاوید بھی نعت گو شاعرہ تھیں بڑے بھائی علی جبریل برنی شاعر اور ہمشیرہ نایاب نسرین افسانہ نگار شعر و ادب کے افق پر چمکتے ستارے ہیں۔ برنی کی نسبت علاقہ برن سے ہے جہاں سرور جاوید نے 22 فروری 1947 ء کو سید ندیم برنی کے گھر جنم لیا اور 13 جون 2020 ء کراچی میں رحلت کر گئے۔

پیدائش و وفات کے درمیان جو ”ڈیش“ ہے یہ دورانیہ ہی حاصل حیات ہے باقی آنا جانا محض دو واقعات ہیں جنہیں لوگ بالا آخر ایک دن بھول جاتے ہیں مگر شعر زندہ رہتے ہیں اور شاعر کو بھی زندہ رکھتے ہیں۔ سرور صاحب شاعر تھے شاعر رہیں گے۔

شعری مزاج میں تمام تر ترقی پسندی اور ناقدانہ اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے لیکن وہ نقاد کو ہردلعزیزی کے ہار نہیں پہنائے جاتے۔ خود روشن خیال تھے ترقی پسند تھے لیکن اپنے ہمعصر ترقی پسندوں کے رویوں سے نالاں بھی اور کہا کرتے تھے یہ لوگ شعر و ادب میں زمینی حقائق کو نظرانداز کر رہے ہیں جبکہ ترقی پسندی کا منشور سچائی کے اظہار پر مبنی ہے۔ معلمانہ روش کے باعث مغالطوں کی بروقت تصحیح کرتے تھے اس لیے ان کے مخالفوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہمہ جہت شخصیت ہو اور صلاحیت کا دائرہ ہمہ گیریت پر محیط ہو تو بیباکی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔

سرور جاوید کی چار کتابیں شایع ہوئیں : ”اردو نظم کی عظیم روایات“ تنقید، ”ہجر کے آدمی ہیں ہم“ شاعری اور ”متاع نظر“ تنقید پر مشتمل ہیں، تنقیدی تحریریں جدت و ندرت کے سبب مغربی تراکیب سے موسوم ہیں۔ یہی انداز بیاں روح عصر سے ہمکنار ہے۔ مغربی الفاظ و تراکیب کی آمیزش کا رجحان ریڈیو، ٹی وی سمیت پرنٹ میڈیا میں عام ہو گیا ہے اس لیے کہ جدید علوم و فنون کا احاطہ کرنا اب روزمرہ کے چالو الفاظ سے ممکن نہیں رہا۔ گوپی چند نارنگ کی کتاب ”ساختیات پس ساخیات“ منظر عام پر آئی تو ایک نئی بحث شروع ہو گئی اور متعلقہ فکری مغالطوں پر جامع گفتگو کرنے والوں میں سرور صاحب نمایاں تھے مگر بحث کے درمیان حسن توازن کو قائم رکھتے ہوئے۔

سرور صاحب کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل آف پاکستان کے ممبر اور ”آزاد خیال ادبی فورم“ کے منتظم تھے۔ ہر ماہ پہلے اور تیسرے منگل کو فورم کی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ نشست کے پہلے حصے میں طے شدہ موضوع پر خود لیکچر دیتے تھے پھر سوال و جواب اور اختتام مشاعرے پر ہوتا تھا۔ مجھے ان کی رفاقت میں بڑا فیض ملا، خاص طور پر ادب کی فکری جہتوں پر فیصلہ کن گفتگو کرنے سے ربع صدی پر محیط اس رفاقت میں ہم نے کئی اردو سندھی مشاعرے اکٹھے پڑھے۔ تھر کے شہر مٹھی اور عمرکوٹ میں بھی مشاعرے پڑھنے گئے تو اس وقت بھی ہمسفر تھے۔

سال 2020ء میں کرونا کے سبب کئی ادب کے چمکتے ستارے ڈوب گئے۔ حسینہ معین اور آصف فرخی کی وفات پر آرٹس کونسل کی جانب سے فوری تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا مگر سرور جاوید کی وفات کو ایک برس گزرنے کے بعد بزم اردو پاکستان کے پلیٹ فارم سے 19 جون 2021 کو تعزیتی شعری نشست منعقد ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments