مقصود گل کا مجموعۂ کلام ”رت بھنا رابیل“ (لہو لہان گل ہائے یاسمین)


 

14 فروری 2022 ء کو سندھ اور سندھی زبان کے منفرد لہجے کے صاحب طرز شاعر، نثر نویس، عالم، دانشور، محقق، مترجم، کالم نویس، صحافی، بچوں کے ادیب، ماہر تعلیم اور مصنف، مقصود گل کو بچھڑے 7 برس پورے ہو رہے ہیں۔ ان کی پیدائش سندھ کے تاریخی ضلع لاڑکانے کے ”رتودیرو“ نامی شہر میں 15 اپریل 1950 ء کو، سندھ کے نامور اور قادر الکلام شاعر، ادیب، عالم، تعلیم دان، صحافی، مدرس اور سماجی کارکن، قاضی عبد الحیی ”قائل“ کے گھر میں ہوئی، جبکہ وفات 7 برس قبل، 14 فروری 2015 ء کو کراچی کے ’سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن‘ (ایس آئی یو ٹی) میں ہوئی۔

مقصود گل کی زندگی میں ان کی 10 کتب شائع ہوئیں۔ جن میں سے 4 شاعری، 2 ترتیب، 3 ترجمے اور ایک تاریخ کی کتاب شامل ہے۔ جبکہ ان میں سے ان کی دو کتابیں بچوں کے لئے تحریر شدہ ہیں۔ ان دس کتب میں سے دو کتابیں اردو اور باقی آٹھ کتابیں سندھی میں ہیں۔ ان 2 اردو کتب میں سے ایک، معروف صوفی شاعر، حضرت سچل سرمست کے فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ ہے، جو ”عشق سمندر“ کے نام سے طبع ہوئی، جبکہ دوسری کتاب شیخ ایاز کی منظومات کی دو سندھی کتب کا اردو ترجمہ ہے۔

”رت بھنا رابیل“ (لہو لہان گل ہائے یاسمین) مقصود گل کی ترتیب کے لحاظ سے پانچویں کتاب ہے، جو سندھڑی کتابی سلسلہ رتو دیرو نے 1990 ء میں شائع کی۔ جس میں ان کی 54 غزلیات، 37 پابند منظومات اور 13 آزاد منظومات شامل ہیں۔ تین اصناف سخن پر مشتمل اس کتاب کے موضوع سے ہی لگتا ہے کہ اس میں زیادہ تر مزاحمتی کلام شامل ہے۔ گو کہ غزلیات کے باب میں کئی ایک غزلیں رومان کی نکہت سے بھی لبریز و مہمیز ہیں، مگر منظومات کے ابواب میں شامل زیادہ تر نظمیں 1980 ء کی دہائی کے مارشل لائی دور کے مظالم کا احاطہ کرتی ہیں۔

جن میں بالخصوص اس خطے پر ہونے والے سیاسی و سماجی استبداد، فکری بندشوں اور مجموعی گھٹن کا ذکر ہے۔ اس مزاحمت کے حاوی رنگ کا احساس آپ کو دوسرے اور تیسرے باب میں شامل نظموں کے عنوان جاننے سے ہی ہو جائے گا۔ کتاب کے باب دوم میں شامل پابند نظموں میں 37 پابند منظومات، بعنوان: ”مانہڑو“ (بندہ) ، ”سال 1977 ء“ ، ”دھرتیٔ جی دھیء“ (دختر ارض) ، ”آؤں سچ“ (میں سچ) ، ”رت بھنا رابیل“ (لہو لہاں گل ہائے یاسمین) ، ”درد جو راکاس“ (درد کا راکشس) ، ”منہنجی دھرتی“ (میری دھرتی) ، ”مکاری“ ، ”منہنجو وطن“ (میرا وطن) ، ”گل ائیں ٹانڈا“ (پھول اور انگارے ) ، ”بج بج تھی ویو گیرو“ (ریزہ ریزہ ہو گئی فاختہ) ، ”ستایل سونہں“ (تکلیف زدہ حسن) ، ”کوڑو مرشد“ (جھوٹا مرشد) ، ”کیڈارو“ (رزمیہ باب) ، ”ہن دیس میں“ (اس دیس میں ) ، ”کینجھر میں کنول“ ، ”سچل جو پاڑیسری“ (سچل کا پڑوسی) ، ”سچ اکیلو“ (سچ اکیلا) ، ”درد کہانی“ ، ”امن جی گولا“ (امن کی تلاش) ، ”ارپنا“ (انتساب) ، ”ڈوہی کیر!

“ (مجرم کون) ، ”سچو شاعر“ (سچا شاعر) ، ”کرنڑن جی جنج“ (کرنوں کی بارات) ، ”وقت گزرے نتھو“ (وقت نہیں گزر پا رہا) ، ”عید“ ، ”سونہں، سچ، سرہانڑ“ (حسن، سچ، مہک) ، ”ہتھیارن جی ہوڈ“ (اسلحے پر گھمنڈ) ، ”زہریلی مرک“ (زہر آلود تبسم) ، ”سگیوں بھینر“ (سگی بہنیں ) ، ”عجب فلسفو“ (عجب فلسفہ) ، ”سچ جو ناں ءٌ بلاول“ (سچ کا نام۔ شہید مخدوم بلاول رحہ) ، ”کراچی۔ کلہہ ائیں اج“ (کراچی۔ کل اور آج) ، ”ایٹمی دور ائیں عورت“ (ایٹمی دور اور عورت) ، ”سوال“ ، ”سچل!

سندھ تنہں جی“ (سچل! تیری سندھ) اور ”مورڑے جے شہر میں“ (موڑرو مچھیرے کے شہر کراچی میں ) شامل ہیں۔ جبکہ آزاد نظموں کے باب میں شامل 13 منظومات میں ”روشنائیٔ جو شہر“ (روشنیوں کا شہر) ، ”سونو سج اندھیری دھرتی“ (خاور روشن، ارض تاریک) ، ”زندگی ائیں موت“ (زندگی اور موت) ، ”منہنجی دل“ (میرا دل) ، ”بوریت“ ، ”سچ کھے سجدو کریوں“ ۔ بنجامن مولائیزیٔ جے ناں ء ” (“ سچ کو سجدہ کریں ”۔ بنجمن مولائیزے کے نام“ ) ، ”محبت“ ، ”او دھاڑیل“ (او ڈاکو! ) ، ”وچن“ (وعدہ) ، ”مجبور مامتا“ ، ”مجبوری“ ، ”دہشت گردی“ اور ”سج سدائیں روشن رہندو“ (سورج ہمیشہ روشن رہے گا) شامل ہیں۔ اس کتاب کے نام کا انتخاب اسی مجموعے میں شامل ایک نظم کے عنوان ”رت بھنا رابیل“ سے کیا گیا ہے۔

اس مجموعۂ سخن کا انتساب، مقصود گل نے اپنے قریبی دوست، اندر لال کے نام کیا ہے، جو اپنی ذاتی مجبوریوں کی بنا پر سندھ چھوڑ کر بھارتی شہر ”اندور“ ہجرت کر کے چلے گئے اور وہیں پر ابھی تک مستقل سکونت پذیر ہیں۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک دیباچہ نہیں ہے، بلکہ تینوں ابواب کے آغاز میں محض اس صنف پر روشنی ڈالنے والے پیش لفظ دیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں، غزلیات کے حصے پر تاثرات، مقصود گل کے قریبی ادبی رفیق، اور سندھ کے نامور شاعر، مختار گھمرو نے ”سجنڑ ائیں سانڑیہہ“ (محبوب اور وطن) کے عنوان سے تحریر کر کے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ مقصود گل کا یہ مجموعۂ کلام، مطلوب کی تعریف و توقیر اور اس کے ساتھ اظہار محبت کے ساتھ ساتھ دھرتی کی محبت سے بھی سرشار ہے۔

پابند منظومات کے باب کے آغاز میں ان کی نظموں پر معروف سندھی شاعر، سرمد چانڈیو نے ”پربتن تے پیچرا“ (پہاڑوں کی جانب جاتی ہوئی پگڈنڈیاں ) کے عنوان سے پیش لفظ تحریر کیے ہیں۔ جبکہ آزاد نظم کے حصے کے آغاز میں حمیدہ قاضی نے ان کی آزاد نظم لکھنے میں قدرت و تخلیقی انفرادیت کے حوالے سے ”آزاد نظم جو پابند شاعر“ (آزاد نظم کا پابند شاعر) کے عنوان سے مختصر دیباچہ رقم کیا ہے، جس میں انہوں نے مثالوں سے ثابت کیا ہے، کہ کس طرح مقصود گل، آزاد نظم میں بھی اپنے آپ کو پابند رکھتے ہوئے ”پابند آزاد نظم“ تحریر کرتے ہیں۔

جبکہ کتاب کا بیک ٹائٹل (صفحۂ آخر) سندھ کے انتہائی معروف و مقبول شاعر استاد بخاری نے تحریر کیا ہے، جو مقصود گل کے قریبی ادبی رفیق بھی تھے۔ اس کتاب کا سرورق سندھ کے معروف مصور، فتاح ہالیپوٹو (شرجیل) نے ڈیزائن کیا ہے۔ 158 صفحات پر مشتمل مجموعی طور پر 104 تخلیقات سمیٹے اس کتاب کی قیمت، اس دور ( 32 سال قبل) کے لحاظ سے 24 روپے رکھی گئی تھی۔

اس کتاب کے بارے میں اور مقصود گل کی شخصیت کے حوالے سے مزید جاننے کے لئے، آئیے، استاد بخاری کے اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر تحریر شدہ تاثرات میں سے کچھ سطور پڑھ کے دیکھیں۔ فرماتے ہیں :

”شاعری کے حوالے سے کراچی تا کشمور، مشہور۔ اشاعتی سلسلے کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی، سندھ سے دور دور ہند تک پہنچتی ہے۔ “ رت بھنا رابیل ” (لہو لہاں بیلے کے پھول) غزل، نظم اور آزاد نظم کا ایک ایسا مجموعۂ کلام، جس میں مصنف نے ان تینوں محاذوں پر قلمی جہاد انجام دیا ہے۔ جہاد اس لئے کہ اس کتاب میں زیادہ تر مزاحمتی مواد شامل ہے، جو تاریک مارشل لائی دور کے ظلم و استبداد کے خلاف احتجاجی آواز ہے۔ ’گل‘ ، ہمہ صفت انسان، محافل کا مور، اہل دل بھی، اہلکار بھی۔ ملنسار، ہنس مکھ، زندہ دل ہونے کے ساتھ ساتھ رویے میں سنجیدہ، ہمدرد انسان۔ محنتی ادیب کے ساتھ ساتھ محبت کرنے والوں کا یار بھی۔ کلاکاری کے ساتھ لگاؤ اور ادبیات کے ساتھ سچا برتاؤ یہ رنگ لایا ہے، کہ وہ قومی دردمند، حساس دل رکھنے والے شاعروں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔“

اس کتاب میں شامل غزلیات کا ذائقہ محسوس کرنے کے لئے، آئیے! آپ کو صفحہ نمبر 46 پر طبع شدہ غزل کا منظوم ترجمہ پڑھواؤں :

دربدر الفتیں ہیں یہاں
معتبر کلفتیں ہیں یہاں
سچ، بے دوش مجرم بنا
جھوٹ کو قوتیں ہیں یہاں
خانقاہوں کے پردے کے پار،
اوج پر وحشتیں ہیں یہاں
ریشمی چادروں میں ڈھکی،
عورتیں تربتیں ہیں یہاں
عید کیا وہ منائے، مرض،
کی جسے الجھنیں ہیں یہاں
غربتوں کے دلوں میں دبی،
بے کفن حسرتیں ہیں یہاں
اس کو منزل ملے گی ضرور،
جس نے کی محنتیں ہیں یہاں
قسمتوں پہ کیے انحصار،
ملتی بس ذلتیں ہیں یہاں
آپسی سازشیں ہیں روا
غیر سے چاہتیں ہیں یہاں
دل کا دیپک نہ ”گل“ ہو کبھی
گر جواں جراتیں ہیں یہاں
کتاب میں شامل ایک اور غزل پڑھیے :
زندگی کا سفر مختصر دوستو
پھر بھی درکار ہے ہمسفر دوستو
بے شبہ رو ہے درپن دلوں کا مگر،
دیکھ پائیں گے اہل نظر دوستو
آہ مظلوم کی ہے شرر کے مثل
برق کا عین اس میں اثر دوستو
دعوت فکر دیتا رہا میں مگر،
تم مسلسل رہے بے خبر دوستو
وقت کے ساتھ چلنے کو کمریں کسو!
مڑ کے دیکھو نہ ہرگز ڈگر دوستو
عرش تک بھی رسائی ہے ممکن تری،
ہمتیں ساتھ ہوں گی اگر دوستو
راہ مشکل ہو، یہ عین ممکن سہی
دور منزل نہیں ہے مگر دوستو
”گل“ محبت کے بانٹو سبھی میں سدا
خار نفرت کے تم بھول کر دوستو

اس مٹی سے محبت کرنے والوں کو، مزاحمت کے کانٹوں میں لپٹی رومانوی جذبات کی عکاسی کرنے والی شاعری کے بیلے کے پھولوں کی سوندھی خوشبو سے معمور کتاب، ”رت بھنا رابیل“ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ جو اپنے دور کی مستند منظوم سیاسی اور سماجی تاریخ ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments