انسان دوستی کی قوس قزح


چونکہ میری MAZDAگاڑی کی پلیٹ پر۔ HUMANIST۔ لکھا ہے اس لیے مجھ سے اکثر یہ سوال پوچھے جاتے ہیں کہ ہیومنسٹ کون ہوتا ہے؟
ہیومنزم کا فلسفہ کیا ہے؟ آپ کس قسم کے انسان دوست ہیں؟

میرے لیے ایسے سوالوں کا ایک جملے یا چند الفاظ میں جواب دینا مشکل ہوتا ہے اور اگر جواب دیتا بھی ہوں تووہ تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ میں ان سوالوں کا تفصیلی جواب لکھوں اور یہ بھی رقم کروں کہ میرے نظریات باقی ہیومنسٹوں کے خیالات سے کیسے مختلف ہیں۔

میرے انسان دوستی کے فلسفے کی قوس قزح کے سات رنگ ہیں۔ میں یہاں ان سات رنگوں کا اختصار سے ذکر کرنا چاہوں گا۔

پہلا رنگ HUMANIST PHILOSOPHY

ایک روایتی نقطہ نظر اور مذہبی فلسفہ حیات سے ایک انسان دوست ماہر نفسیات بننے کا سفر طویل بھی تھا اور جانگسل بھی لیکن اب ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو فیض کا یہ شعر یاد آتا ہے

 فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
اس نظریاتی اور فلسفیانہ سفر میں جن دانشوروں اور جن علوم سے میں نے استفادہ کیا ان میں
چارلز ڈارون کی BIOLOGY
سگمنڈ فرائڈ کی PSYCHOLOGY
کارل مارکس اور یووال ہراری کی SOCIOLOGY
سٹیون ہاکنگ کی COSMOLOGY
اور
برٹنڈ رسل اور ژاں پال سارتر کی PHILOSOPHY

شامل ہیں۔ میں نے ان دانشوروں کی تحریروں اور تخلیقات سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے مجھے نئے انداز سے سوچنے کی ترغیب دی۔ اس طرح میرا زندگی کے بارے میں رویہ بدلا اور دھیرے دھیرے میں نے مذہبی رویے کو خیرباد کہہ کہ ایک سائنسی اور نفسیاتی رویہ اپنایا اور اپنے زندگی کے

تجربے۔ مشاہدے۔ مطالعے اور تجزیے کی بنیاد پر اپنا انسان دوستی کا جداگانہ فلسفہ تخلیق کیا جس نے مجھے ایک پرسکون اور خوشحال زندگی گزارنے میں مدد کی۔

دوسرا رنگ HUMANIST PERSONALITY

مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ بہت سے لوگوں کے فلسفہ حیات اور شخصیت میں بہت بعد ہے۔ ان کے BELIEFS AND BEHAVIORSمیں بہت فاصلہ ہے۔ اس فرق کی آگہی کے بعد میں نے کوشش کی کہ میرا انسان دوستی کا فلسفہ میری شخصیت کا حصہ بھی بن جائے تا کہ قول و فعل کا فاصلہ کم ہو۔ جب میں نے اس موضوع پر مزید غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ چاہے مذہبی لوگ ہوں اور چاہے دہریے ان کی دو طرح کی شخصیت ہو سکتی ہے

شدت پسند FUNDAMENTALIST PERSONALITY
صلح جوHUMANIST PERSONALITY

جب میں نے انسان دوستی شخصیت کا نقطہ نظر اپنے ہیومنسٹ دوستوں کے ایک سیمینار میں پیش کیا تو انہوں نے بہت حیرانی کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے ہیومنسٹ کتابوں میں اس کا ذکر نہیں سنا تھا۔ میں نے ان سے کہا ہم مذہبی اور لا مذہبی انسانوں کو چار گروہوں میں بانٹ سکتے ہیں

پہلا گروہ ایسے مذہبی لوگوں کا ہے جو بہت شدت پسند اور بنیاد پرست ہیں میں انہیں RELIGIOUS FUNDAMENTALISTSکہتا ہوں

دوسرا گروہ ان لا مذہبی لوگوں کا ہے جو اپنی دہریت میں بھی شدت پسند ہیں اور ہر محفل میں مذہبی لوگوں سے الجھ پڑتے ہیں اور موقع ملے تو دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ جب آپ ایک مذہبی شدت پسند اور ایک دہریہ شدت پسند کا مکالمہ سنیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے نظریات بہت مختلف ہونے کے باوجود ان کی شخصیت ایک جیسی ہی ہے۔ میں ایسے لا مذہبی لوگوں کوATHEIST FUNDAMENTALISTSکہتا ہوں

تیسرا گروہ ان مذہبی لوگوں کا ہے جو خدا اور مذہب پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن بہت امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر سنت سادھو اور صوفی منش ہوتے ہیں۔ وہ جیو اور جینے دو کے فلسفے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کسی بھی مسئلے پر آرام اور اطمینان سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ وہ جب دہریوں سے بھی تبادلہ خیال کر رہے ہوتے ہیں تو بہت شانت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پختہ اور سچے ایمان کو کسی دہریے کے نظریات سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ میں ایسے لوگوں کو RELIGIOUS HUMANISTSکہتا ہوں

چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو خدا اور مذہب کو تو نہیں مانتے لیکن ان کی شخصیت میں امن آشتی اور سکون ہوتا ہے۔ وہ جب مذہبی لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں تو عزت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میں ایسے لوگوں کو SECULAR HUMANISTSکہتا ہوں۔

میں نے پچھلے بیس برس میں یہ کوشش کی کہ میرا فلسفہ ہی نہیں میری شخصیت میں بھی انسان دوستی پیدا ہو۔
تیسرا رنگ۔ HUMANIST LIFESTYLE

جب میں نے انسان دوستی کا فلسفہ بھی اپنا لیا اور انسان دوستی کی شخصیت بھی اپنانے کی کوشش کی تو پھر میری یہ خواہش تھی کہ میرا طرز زندگی بھی انسان دوستی کا ہو۔ میں نے یہ جانا کہ جب انسان دوسرے انسانوں سے ملتے ہیں تو ان کا دو طرح کا نفسیاتی اور سماجی رد عمل ہوتا ہے

پہلا رد عمل JUDGEMENTAL ہوتا ہے اور وہ دوسرے کے نظریے پر فتویٰ لگانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے دوسرا شخص اکھڑ جاتا ہے اور ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

دوسرا رد عمل ACCEPTANCEہے۔ اس رویے میں انسان کسی دوسرے کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی اس کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ وہ دونوں AGREE TO DISAGREE WEکے فلسفے پر عمل کرتے ہیں۔

جب سے میں نے انسان دوستی کا طرز زندگی اپنایا ہے اب میری مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے دوستی ممکن ہوئی ہے۔ اب میرے دوستوں کے حلقے میں جسے میں فیمیلی آف دی ہارٹ کہتا ہوں

کمیونسٹ بھی ہیں اینارکسٹ بھی
شیعہ بھی ہیں سنی بھی
یہودی بھی ہیں سکھ بھی
عیسائی بھی ہیں ہندو بھی

ایک وہ زمانہ تھا جب میں سمجھتا تھا کہ دنیا میں ایک ہی سچ ہے اور وہ سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی آنکھیں۔ جب سے میں نے یہ طرز زندگی اپنایا ہے میرے لیے اتفاق نہ کرنے کے باوجود لوگوں کو دوست بنانا آسان ہو گیا ہے۔

چوتھا رنگ۔ HUMANIST PSYCHOTHERAPY

جب میں کینیڈا کے نفسیاتی ہسپتالوں میں کام کرتا تھا تو اپنے مریضوں کا روایتی انداز سے علاج کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے میں نے اپنا انداز بدلا اور انسان دوستی کے فلسفے کو اپنایا۔ میں نے اپنے کلینک میں گرین زون فلسفے کی بنیاد پر ایک SELF HELP PROGRAMمرتب کیا۔ اس پروگرام سے سینکڑوں مریض اور ان کے خاندان استفادہ کر چکے ہیں۔ گرین زون فلسفے کی تیاری میں کارل روجرز ’رولو مے‘ وکٹر فرینکل ’ایرک فرام اور ابراہم میسلو جیسے انسان دوست ماہرین نفسیات کی تخلیقات نے بہت مدد کی۔

چند سال پیشتر میں انٹرنیٹ کے ایک انگریزی کے رسالے CHOWK۔ COMپر ہر ماہ ایک کالم لکھا کرتا تھا۔ مدیروں نے میرے کالموں کے سلسلے کا نام MINDSPACEرکھا ہوا تھا۔ میں اس انٹرنیٹ میگزین پر پانچ سال لکھتا رہا۔ چونکہ وہ میگزین روشن خیال اور ترقی پسند نظریات کا نمائندہ تھا اس لیے وہ مذہبی شدت پسند اور بنیاد پرست قاریوں کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔

اور پھر ایک دن وہ میگزین انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔ ان مذہبی شدت پسندوں نے اس میگزین کو HACKکر دیا اور اس طرح میرے کالموں سمیت اس میگزین کے ہزاروں لاکھوں کالم ضائع ہو گئے جس کا مجھے بہت دکھ ہوا۔

اب میں پچھلے پانچ سالوں سے انٹرنیٹ میگزین۔ ہم سب۔ پر لکھ رہا ہوں اور اس سلسلے نے مجھے دوبارہ اردو میں انسان دوستی کے فلسفے اور نفسیات کے موضوعات پر لکھنے کی ترغیب دی ہے۔

پانچواں رنگ۔ HUMANIST EDUCATION

ایک ماہر نفسیات بننے کے بعد جب میں نے مذہبی مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ شدت پسند مذہبی تعلیم و تربیت کی وجہ سے وہ احساس گناہ کا شکار ہو گئے تھے۔ اور اس احساس گناہ و احساس ندامت نے ان کی اینزائٹی اور ڈپریشن کو اور بھی بڑھا دیا تھا۔ ایسے مریضوں کے علاج سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کو انسان دوستی کی تعلیم دینی چاہیے تا کہ وہ نہ صرف احساس گناہ سے بچیں بلکہ دوسرے مسلک اور مذہب کے بچوں کو قبول کر کے ان سے دوستی بھی کر سکیں۔ میری نگاہ میں سکول میں مختلف رنگ و نسل ’زبان و مذہب کے بچوں کا اکٹھے تعلیم حاصل کرنا ان کی شخصیت کو بہتر خطوط پر تشکیل دیتا ہے۔

میری نگاہ میں ہمیں بچوں کو صرف ایک مذہب اور ایک فلسفے کی تعلیم نہیں دینی چاہیے بلکہ بتانا چاہیے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف معاشروں میں مختلف مذاہب اور فلسفے مقبول ہوئے۔ ان تمام مذہب اور فلسفوں کو جاننے سے ہم ان کے پیروکاروں کا احترام کرتے ہیں اور کنفیوشس کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہیں کہ دوسروں سے ایسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ وہ تم سے کریں اور ایسا طرز زندگی صرف انسان دوستی کی تعلیم سے معرض وجود میں آ سکتا ہے۔

چھٹا رنگ۔ HUMANIST COMMUNITY

ایک ماہر نفسیات بننے کے بعد جب مختلف اداروں اور آرگنائزیشنز نے مجھے انسان دوستی کے موضوع پر تقریر کرنے کی دعوت دی تو مجھے احساس ہوا کہ انسان دوستی کا فلسفہ خاندانوں اور سکولوں سے نکل کر گلیوں ’بازاروں‘ مختلف کاروباروں اور ریاستی اداروں میں بھی مقبول ہونا چاہیے تا کہ کسی بھی معاشرے کے سب افراد عزت نفس سے زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے عوام و خواص کو انسانی حقوق کی تعلیم دینی چاہیے تا کہ وہ حقوق و مراعات کے فرق کو جان سکیں اور اپنے حقوق کو حکومت کے اداروں سے مانگ سکیں اور اگر وہ حقوق انہیں نہ ملیں تو احتجاج کر سکیں۔

جوں جوں انسانی حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے ہم دنیا میں ایسے ممالک اور معاشرے تخلیق کر رہے ہیں جہاں سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ ایک انسان دوست معاشرے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم عورتوں ’بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔

ساتواں رنگ۔ HUMANIST WORLD

ایک انسان دوست دنیا تخلیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف ممالک کے رہنما اور پیروکار اپنے مذہبی ’سیاسی‘ معاشی اور سماجی تضادات باہمی گفتگو اور مکالمے سے حل کریں۔ خانہ جنگی اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کسی بھی قوم کے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک پرامن اور پرسکون ماحول تخلیق کریں جہاں انہیں یہ خطرہ لاحق نہ ہو کہ سیاسی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے کوئی انہیں قتل کر دے گا۔

انسان دوست دنیا کا قیام میرا اور ساری دنیا کے انسان دوستوں کا ایک دیرینہ خواب ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ جوں جوں انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر ارتقا کے اگلے قدم اور دانائی کی طرف قدم بڑھائیں گے وہ کرہ ارض پر ایک پر امن اور انسان دوست دنیا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔

جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا مذہبی اور لا مذہبی انسان مل کر کام کر سکتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جب میں نفسیاتی ہسپتالوں میں کام کیا کرتا تھا تو میں مذہبی انسان دوست نرسوں ڈاکٹروں اور پادریوں سے مل کر کام کرتا تھا۔ ہم اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مریضوں کی خدمت کرتے تھے۔ میرا موقف ہے کہ مخلص مذہبی انسان دوست اور سیکولر ہیومنسٹ پرامن معاشرہ قائم کرنے کے مقصد کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments