جورڈن اپنے گھر سے کیوں بھاگی؟


 

یہ واقعہ ہے امریکی ریاست کیلی فور نیا کے نواحی شہر پیرس کا ۔ اتوار چودہ جنوری 2018ء، کی صبح اور 5:49کا وقت۔ ابھی سورج کا روشن چہرہ نمودار نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں تیرہ اور سترہ سالہ دو بہنیں اپنے گھر کی کھڑکی سے لان میں کودتی ہیں۔ دونوں کا جسم کمزور، پیلا ہٹ لیے ہوئے سفید رنگت اور بال براؤن رنگ کے تھے۔ منصوبہ تو دونوں کا ہی ساتھ بھاگنے کا تھا مگر چھوٹی بہن، باوجود بڑی بہن کی ہمت افزائی کے، خوف سے منجمند، کھڑکی سے چڑھ کے واپس گھر لوٹ جاتی ہے جبکہ بڑی بہن بلا توقف سرپٹ سڑک پہ دوڑنا شروع کر دیتی ہے کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے پاس وقت نہیں۔ اگر اس کے والدین نے دیکھ لیا تو وہ اسے جان سے مار ڈالیں گے۔

وہ کبھی اس طرح سے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ سڑک پہ کہاں بھاگ رہی ہے۔ اس کی مٹھی میں دبا ایک ایسا ناکارہ فون تھا جس سے وہ صرف911 ہی کال کر سکتی تھی۔ اس نے انتہائی خوف کے عالم میں بھی اپنی ہمت کو مجتمع کرتے ہوئے لرزتے جسم اور کانپتی انگلیوں کے ساتھ نمبر دبایا۔ اسے نہ گھر سے باہر نکلنے کا تجربہ تھا اور نہ ہی کسی سے فون پہ بات کرنے کا ۔ وہ گھبرائی ہوئی آواز میں 911 کال ریسیو کرنے والی خاتون کو بتاتی ہے کہ اس کا نام جورڈن ٹرپن ہے اور وہ اپنے گھر سے بھاگی ہوئی ہے۔

اس کے گھر میں پندرہ (13 بہن بھائی اور ماں باپ) لوگ رہتے ہیں۔ وہ اس لیے کال کر رہی ہے کہ اس کے والدین بچوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔ وہ مارتے ہیں، ایک کمرے سے اٹھا کر پھینک دیتے ہیں اور بال نوچتے ہیں۔ ہم انتہائی گندگی میں رہتے ہیں۔ ہمیں نہانے کی سال میں بس ایک دفعہ اجازت ہے۔ اور ہم بھوکے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی چھوٹی بہنیں اس لیے زنجیروں میں قید ہیں کہ انہوں نے ماں کے کھانے کی چوری کی تھی۔ وہ ہم سے نفرت کرتی ہے۔

پھر جب پولیس فون پہ جورڈن سے اس کا پتہ پوچھتی ہے تو وہ اپنے پاس محفوظ ایک کاغذ کے پرزے پہ لکھے پتے کو اٹک اٹک کر پڑھتی ہے۔ جب کال کرنے کے سترہ منٹ بعد شیرف کی کار اس تک پہنچتی ہے تو سہمی ہوئی جورڈن نے پولیس سے اپنی گھبرائی ہوئی آواز میں کچھ اس طرح بات کی کہ پولیس کو لگا کہ وہ شاید کسی نشہ ور دوا کے اثر میں ہے۔ لیکن پولیس کو جورڈن کی سچائی کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس نے زنجیروں میں قید بہنوں کی وہ تصاویر دکھائیں جو اس نے والدین سے چوری چھپے لیں تھیں۔

یہ غالباً اپنی نوعیت کا واحد کیس ہو گا، جہاں والدین نے اپنی سگی اولادوں کو ، جن کی عمریں 2 سے 29سال کے درمیان تھیں، اس حد تک اپنے ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ماسوا دو سالہ بچے کے تمام اولادیں انتہائی ناقص غذا اور کم خوراکی کی وجہ سے صحت کی خرابی کا شکار تھیں۔ اگر وہ والدین کی مرضی کے خلاف ایک بات بھی کریں تو تشدد کیا جاتا اور انہیں زنجیروں میں بلکہ خاص طور پہ بنائے پنجروں میں رکھا جاتا۔ ان کے والدین خود پیٹ بھر کے کھانا کھاتے مگر بچوں کو ان کھانے مثلاً پیزا، پائی اور دوسرے لذیذ کھانے دیکھنے کی تو اجازت تھی مگر کھانے کی نہیں۔

والدین نے اسکول بھیجنے کے بجائے اسٹیٹ کے ہوم اسکولنگ کی اجازت لی ہوئی تھی۔ اس اسکول کا نام ”سینڈ کاسل ڈے اسکول“ رکھا گیا۔ جس کے پرنسپل خود ڈیوڈ ٹرپن اور ٹیچر لوئیس ٹرپن تھی۔ چونکہ کیلی فور نیا اسٹیٹ میں ہوم اسکول کے معائنہ کا کوئی قانون نہیں لہٰذا ان بچوں کی تعلیم کا بھی کوئی پرسان حال نہ تھا۔ جتنا کچھ بھی پڑھایا گیا بڑے بچے چھوٹوں کو اپنے تئیں پڑھاتے۔ البتہ بچوں سے جرنل ضرور لکھوایا جاتا۔ پولیس کی گرفتاری کے بعد اس گھر سے ڈھائی سو کے قریب جرنل نکلے۔

گھر سے بھاگ کر پولیس کو فون کرنے کا منصوبہ تو جورڈن اپنی 29 سالہ بہن جینیفر کے ساتھ دو سال سے بنا رہی تھی مگر اس پر عمل کے لیے ہمت چاہیے تھی۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے سوچا کہ ابا سے کچھ کر گزرنا ہی ہے۔ یا آر یا پار۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کو والدین کی قید سے نکالنے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھی۔ اس کے بھائی بہن زنجیروں میں قید تھے۔ جورڈن کا ان کے زخموں کی وجہ سے تکلیف سے رونا نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اس دوران ایک اور واقعہ بھی ہوا۔ جورڈن کو اس کی ماں نے ایک پرانے سیل فون پہ مشہور نوجوان سنگر جسٹن بیور کا چوری چھپے گانا سنتے ہوئے دیکھ لیا جس پر اس کی ماں نے نہ صرف بہت مارا بلکہ گلا دبا نے کی بھی کوشش کی۔

بقول جورڈن گلوکار جسٹن بیور کی دنیا ہی الگ تھی جس میں اس کے دوست تھے، موسیقی و شاعری تھی اور ان میں محبت کا فلسفہ تھا۔ ایک ایسی دنیا جو اس کے قید خانے سے مختلف تھی۔ اس کے گانوں نے جورڈن کو خواب دیکھنے کا حوصلہ دیا۔ وہ شعر کہنے لگی جو اس کے جذبات کی ترجمانی کرتے اور جب اس کے والدین نہیں ہوتے تو چوری چھپے ان اشعار کی ادائیگی گانے کی صورت کرتی۔ اور یو ٹیوب پہ آپ لوڈ کرتی۔ ماں کی سختی کی وجہ سے جورڈن نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب معاملہ زندگی یا موت کا ہے۔ اور یہ اسکی جرات مندی تھی کہ جس نے گھر سے فرار کا بڑا قدم اٹھایا۔ اس واقعہ کے چار سال بعد امریکہ کے مشہور پروگرام 20/20 میں جورڈن نے اپنی کیمرہ فوٹیج کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا کہ آخر سالوں سے گھر میں بیٹھے رہنے کے باوجود وہ اتنی تیز کیسے بھاگی؟

تشدد کے اس کیس نے امریکہ میں ایک تہلکہ سا مچا دیا تھا۔ عدالت نے اس رویہ کو قتل کے مترادف قرار دیتے ہوئے والدین 57سالہ ڈیوڈ اور 49 سالہ لوئیس ٹرپن کو پچیس سال سے تا عمر قید کی سزا سنائی۔ ان پہ ان کی اولادوں کو قید رکھنے اور جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی سطح پہ تشدد اور دنیا سے کٹ کر زندگی بسر کرنے اور بنیادی تعلیم سے محروم کرنے کا الزام تھا۔ جس کی گواہی ان کی اولادوں نے دی اور کیس لڑنے والے وکیل نے عدالت میں ان جرائم کو ثابت کیا۔ جب عدالت میں بچوں نے اپنے جذباتی بیان پڑھے تو ڈیوڈ اور لوئیس زار و قطار رو رہے تھے۔ اور اپنے رویہ کی معافی مانگی۔

سالوں اپنے ہی گھر کی بدبو دار اور حبس آلود قید سے بازیاب بچوں کے معائنے کے بعد ڈاکٹرز اور نرسز بھیرو پڑے۔ کیونکہ والدین نے سات بالغ اور پانچ نابالغ بچوں (ماسوا دو سالہ بچہ کے ) کو کبھی رسیوں سے باندھا گیا تو کبھی بھاگنے کی صورت میں زنجیروں میں تالے لگا کے قید میں رکھا۔ اکثر ان کو باتھ روم جانے کی اجازت نہیں ملتی لہٰذا گھر فضلے کی بدبو سے اٹا ہوا تھا۔ معمولی باتوں پہ جسمانی تشدد عام تھا۔ جس کی وجہ سے اعصابی طور پہ مضر اثرات ہر بچے پہ نمایاں تھے۔

سال میں صرف ایک دفعہ نہانے کی اجازت تھی۔ انکو بھوکا رکھا جاتا اور صرف ایک وقت کا کھانا ملتا۔ کمزوری کے باعث اکثر بچے ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے تھے۔ بہت سے بچوں کی عقلی استطاعت میں اس حد کمی تھی کہ ان میں بنیادی معلومات کا فقدان تھا۔ یہ بچے دانت اور آنکھ کے ڈاکٹر کے علاوہ معمول کے ڈاکٹری معائنے کے لیے بھی سالوں سے نہیں گئے تھے۔

دنیا سے ناتا توڑنے کے لیے بچوں کا دن کو سونے اور رات کو جاگنے کا معمول بنایا ہوا تھا۔ ان کو اجنبیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ تاکہ گھر کی باتیں آشکار نہ ہوں۔ اسکول گھر میں تھا لہٰذا چائلڈ پروٹیکٹو سروسز والوں سے خطرہ نہ تھا۔ اور والدین بلا خوف و خطر بند دروازوں کے اندر غیر انسانی رویہ برقرار رکھ سکیں۔

اس موقعہ پہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پڑوسیوں نے باوجود اس گھر کے باسیوں کا مشکوک رویہ ہونے کے اپنے طور مدد کی کوشش نہیں کی۔ مثلاً ایک پڑوسی نے کہا کہ اگر کبھی بچے باہر نظر آتے تو ان سے بدبو آنے کی وجہ سے دوسرے بچے نہیں کھیلتے تھے۔ ایک پڑوسی نے کہا کہ بارہ بجے رات کے بعد اس نے قطار میں بچے دیکھے جو کھڑکی سے صاف نظر آرہے تھے۔ ایک عورت نے کہا کہ اس نے ایک بچی کے ہاتھ اور کلائی کی رنگت میں اتنا فرق دیکھا کہ وہ سمجھی کہ بچی دستانہ پہنی ہوئی ہے۔ پوچھنے پہ پتہ چلا کہ پورا ہاتھ دھونے پہ اسے ڈانٹ پڑتی ہے کہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ یہ ساری باتیں ایسی تھیں کہ پڑوسیوں کو تشویش ہونی چاہیے تھی۔ مگر کسی نے بھی مزید جاننے کی زحمت نہیں کی۔

البتہ ٹرپن والدین سال دو سال میں بچوں کو ڈزنی ورلڈ ضرور لے جاتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہاں جاتے وقت ان سب کے کپڑوں کا رنگ ایک ہی ہوتا۔ اپنے خاندان کی تصاویر کھنچ کے وہ رشتہ داروں کو بھیجتے۔ تاکہ ان مسکراتی تصویر کے پیچھے چھپی اصل حالات کی تصویر نہ دیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ یہ جوڑا اکثر اپنی شادی کے سالگرہ پہ تجدید وفا کی تقریب چرچ میں کرتا۔ اس میں بھی سب بچوں کے کپڑوں کے رنگ یکساں ہوتے۔ سب کو ڈانس کی مشق کروائی جاتی اس ہدایت کے ساتھ کہ کوئی غلطی نہ ہو۔ تقریب سے آتے ہی بچوں سے کپڑے اتروا کر گندے اور پرانے کپڑے پہنا دیے جاتے۔ 2015ءمیں انہوں نے اپنی شادی کی تیسویں سالگرہ اپنے تیرہ بچوں کے ساتھ لاس ویگس کے ایلوس چیپل میں دھوم دھام سے منائی۔

لوئیس کو کپڑے، کھلونے اور گیمز خریدنے کا خبط تھا مگر ڈھیروں ٹیگ لگے کپڑے، کھلونے اور گیمز ڈبوں میں پیک رہتے کیونکہ کسی بچے کو انہیں استعمال کرنے یا چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس طرح غذا کی قلت کے ساتھ بچے صحت، تعلیم اور تفریح سے محرومی کا شکار تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان والدین نے اپنی اولادوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ان کے اس سنگدلانہ رویہ کا سبب کیا تھا۔ کیا اس کی جڑیں خود والدین کے بچپن سے پیوستہ ہیں؟

لوئیس ٹرپن کی دو چھوٹی بہنوں کے مطابق گو ان کا گھرانا سخت مذہبی تھا اور باقاعدگی سے چرچ جاتا تھا مگر لوئیس سمیت سب بہنیں ایک ایسے فرد سے جنسی استحصال کا شکار ہوئی تھیں۔ جو بچیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا عادی تھا۔ یہ استحصال ان کی ماں کی مرضی سے ہوتا تھا جو اس کمائی کے عوض گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ لوئیس سب سے بڑی تھی اور اس جنسی استحصال سے نہ صرف نفرت کرتی تھی۔ بلکہ چھوٹی بہنوں کو بچانے کی کوشش بھی کرتی تھی۔

جب لوئیس کی ملاقات پندرہ برس کی عمر میں ڈیوڈ سے چرچ میں ہوئی جو اس سے آٹھ سال بڑا ذہین انجنیئر اور چرچ کی سرگرمیوں میں فعال تھا تو دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ دونوں نے ایک سال کے بعد ہی شادی کرلی۔ ڈیوڈ کی نوکری ٹیکساس میں ایک اچھے ادارے میں بطور انجنیئر تھی۔ شادی کے بتیس سالوں تک وہ روایتی شوہر کی طرح کمائی کرتا اور لوئیس ہاؤس وائف۔ دونوں قدامت پسند مذہبی تھے۔ بچوں کی پیدائش میں کنٹرول ان کی مذہبی تعلیمات کا حصہ نہ تھا۔ بلکہ دونوں بچوں کی تعداد خدا کی رضا سمجھ کر فخر کرتے تھے۔ سب سے بڑی بیٹی جینیفر کے انٹرویو کے مطابق وہ بچوں سے کہتے کہ بائیبل کے احکام کے مطابق وہ اولاد کی حکم عدولی کی صورت میں انہیں جان سے مارنے کا بھی حق رکھتے ہیں۔

جب بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا وسائل میں کمی واقع ہوتی گئی۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈیوڈ کے ہاتھ سے کمائی کا کنٹرول چلا گیا۔ اور اس نے بینکرپسی فائل کردی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ان سالوں میں معاشی تنگدستی ڈیوڈ اور لوئیس کی ڈپریشن کا باعث بنی ہو۔ اور اتنے بچوں کے کھانے اور دو سری ضروریات میں کمی معاشی حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہو۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پولیس گرفتاری کے وقت وہ بیروزگار تھا۔

لوئیس کا بچپن تنگدستی اور بڑی عمر کے مرد کے ہاتھوں جنسی استحصال میں گزرا۔ اسے بچپن میں تحفظ نہیں ملا تھا۔ اکثر ایسے لوگ جذباتی طور پہ بے بسی کے اس اسٹیج میں قید ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے مقابلے میں کمزور لوگوں پہ کنٹرول کر کے طاقت محسوس کرتے ہیں۔

ان دونوں کی ذہنی کیفیت کی کیا تشخیص ہے ہم اس کو کسی ذہنی معالج کے سپرد کرتے ہیں۔

گو وجہ کچھ بھی ہو۔ دونوں میاں بیوی کے اذیت پسند رویے کا کوئی جواز نہیں اور وہ قانون کی نگاہ میں ناقابل معافی ہیں۔ کیونکہ اس رویے کے دور رس منفی نتائج انگزائیٹی، ڈپریشن، پی ٹی ایس ڈی اور پرسنیلٹی ڈس آرڈرز کی صورت مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً ان بچوں نے کہا کہ وہ اس سے متعلق دستاویزی فلم کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ سارا گزرا وقت اس لمحہ میں دو بار زندہ ہوجاتا ہے۔ جو پی ٹی ایس ڈی کی علامت ہے۔

ٹرپن والدین اب اپنے رویہ کی تلافی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے لگائے زخم بہت گہرے ہیں۔ لیکن یہ کہانی ہمیں برے سے برے حالت میں بھی امید کا سبق دیتی ہے۔

آج ٹرپن والدین کی قید اور ان کے بچوں کی رہائی کو چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان کی بالغ اولادیں اپنی زندگی کی جدوجہد میں مبتلا ہیں جبکہ نابالغ چھوٹے بچے کچھ مہربان خاندانوں نے اپنا لیے ہیں۔ کل کو کس نے دیکھا ہے مگر آج یہ بچے آزاد ہیں۔ کھلی روشن اور مہکتی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

میں ان کی سب سے بڑی اولاد جینیفر (جو اب 33 سال کی ہے ) کے کہے کچھ جملے لکھنا چاہوں گی۔

”میرے والدین نے مجھ سے میری پوری زندگی لی مگر میں اب اپنی زندگی واپس لے رہی ہوں۔ زندگی شاید بری رہی ہو مگر اس سے مجھ میں بہتر تبدیلی آئی ہے۔ میں مقابلہ کرنے والی ہوں، میں مضبوط ہوں۔ اور میں زندگی کے ذریعے لڑوں گی۔“

https://www.google.com/search?q=turpin+in+court&ie=UTF-8&oe=UTF-8&hl=en-us&client=safari#fpstate=ive&vld=cid:ff1f35c6,vid:h2dWrRlwZbU,st:0


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).