اپوزیشن کی ناکامیاں


سابقہ چند ادوار سے اپوزیشن کی کمر جو ٹوٹی وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی اور شاید ٹھیک بھی کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ جیسے چل رہا ہے ویسے ہی چلتے رہنا مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ معاملات ٹھیک ہوں مگر انفرادی حد تک۔ ذاتی مفادات کی تکمیل کو عوام کی جنگ کا نام دے کر دکانیں چمکائی جا رہی ہیں۔

حکمران طبقے کی حد درجہ نا اہلیت، بدعنوانی، لاقانونیت، مہنگائی کے باوجود اپوزیشن کی پے درپے ناکامیاں اس بات کا ثبوت نہیں کہ حکومت مضبوط ہے بلکہ حزب اختلاف حد درجہ کمزور ہے۔ اپوزیشن میں شامل تمام ہی جماعتیں ایک دوسرے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ سب ایک دوسرے کو چور سمجھتے ہیں۔ نیت کسی کی صاف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مثال سانپ اور نیولے جیسی ہے۔ جب موقع ملے گا ایک دوسرے کو ڈس لیں گے۔

مولانا صاحب کا دکھ تو سب کو سمجھ آتا ہے کہ وہ اس دفعہ کلین بولڈ ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں دمادم مست قلندر کرنا چاہتی ہے۔ نون لیگ نواز شریف اور مریم نواز کو بچانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی اپنی ہی الگ نرالی سیاست ہے جو آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ جبکہ دیگر جماعتیں اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کسی کو عوام کے دکھ و تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہے۔ نہ اس وقت جب وہ حکمران تھیں نہ اب۔ تمام دعوے اور ہمدردیاں سب خام خیالی سے ہے۔ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ پبلک ان کے ساتھ ہے اور عوام کو روز اول سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ عمران حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے کام کر رہی ہے۔ ممکن ہے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کے اثرات کچھ سالوں کے بعد رونما ہوں مگر عوام کی کمر بالکل ٹوٹ چکی ہے اس کا خیال رکھنا، علاج کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اسے وینٹی لیٹر مہیا نہ کیا گیا تو معاملات زیادہ تشویشناک ہوسکتے ہیں اور اس کا خمیازہ بھیانک ہو سکتا ہے۔

عمران حکومت کا موٹو تھا احتساب۔ اس میں وہ سو فیصد ناکام ہے۔ کسی ایک شخص کو بھی کوئی سزا نہیں ہوئی اور نہ ہی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں جمع ہوئی۔ قرضہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ قرضوں پر سود ادا کرنا۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملک دیوالیہ کے قریب ہے۔ حکومت اپنی خرمستیوں میں مصروف ہے اور اپوزیشن اپنی دکانیں چمکانے میں۔ ہونا دونوں سے ہی کچھ نہیں ہے۔

اس ملک کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک اداروں کے اندر سے انانیت، بد عنوانیت اور حاکم و محکوم کے عناصر کو ختم نہیں کیا جاتا۔ عدالتی نظام، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں انقلابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔

بلدیاتی نظام کو جب تک مضبوط نہیں کیا جائے گا، گراس روٹ لیول سے قیادت کبھی بھی نہیں نکل سکتی۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے بادشاہت نہیں، جو صرف چند خاندانوں کی اجارہ داری پر مشتمل ہو۔ آج تیری تو کل میری باری ہے۔ موروثی سیاست کو منوں مٹی تل دفن کرنا ہو گا۔ باپ کے بعد بیٹا، بیٹی، کیا بائیس کروڑ عوام میں صرف 10 لوگ ہی حکمران بننے کے اہل ہیں؟

عدالتی نظام اور بیوروکریسی کی غفلت کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اگر یہ دو ادارے اپنے فرائض کو دیانت داری اور ایمانداری سے ادا کرتے تو آج پاکستان کی یہ حالت قطعی نہیں ہوتی۔ نظریہ ضرورت اور اقرباء پروری نے اس نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ وہ دیمک ہے جو اس نظام کو تباہ و برباد کرچکی ہے۔ جو چیف جسٹس خود شراب کی بوتل کو ثابت نہ کروا سکے وہ کیا انصاف فراہم کرے گا۔ 450 ارب کی کرپشن کا کیس کئی سالوں سے چل رہا ہے اس کا فیصلہ نہیں کرسکے تو ایسے قانون اور عدالتی نظام کو پوٹلی میں باندھ کر سمندر برد کر دینا چاہیے۔

جس افسر شاہی کے نظام میں ایک چپڑاسی افسر سے زیادہ طاقتور ہو، اس کی جیب گرم کیے بغیر افسر سے ملنا ناممکن ہو تو ایسے نظام سے فلاح کی کوئی صورت کبھی نہیں نکل سکتی۔ ہر ادارہ اور محکمہ بد عنوانیت اور لاقانونیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلے اس بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو ازسرنو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کامیابیاں و ناکامیاں اس نظام کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ ایسے بوسیدہ اور فرسودہ نظام میں اگر فرشتے بھی اتارے جائیں تو وہ بھی ناکام و نامراد ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments