تم بے سہارا ہو تو کسی کا سہارا بنو


ڈیوڈ سمپسن اور اس کی بیوی کیتھی فلیچر کو ایک دن ان کے بیٹے سانتیاگو نے بتایا کہ وہ اپنے ایک دوست کو جمعرات والے دن کھانے پر بلا رہا ہے جو بہت غریب ہے اور اکثر گھر میں کھانا نہ ہونے کے سبب بھوکا سو جاتا ہے۔

سانتیاگو کے والدین نے بڑی خوشی سے اپنے بیٹے کو سراہا اور اس کی ہمت افزائی کی کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں ہی ایک حساس دل رکھتا ہے اور دوسرے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ جمعرات کے دن ڈیوڈ اور کیتھی کو اس بھوکے بچے کو کھانا کھلا کر بہت اچھا لگا۔ انہوں نے پھر ہر جمعرات کو یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ کسی نہ کسی مستحق بچے کو بلاتے اور اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے اور میز پر سب مل کر کھانا کھاتے۔

رفتہ رفتہ یہ بات پھیلتی چلی گئی اور پھر ان کی میز کی لمبائی بھی۔ ہر جمعرات کو کم و بیش 15 سے 20 بچے جمع ہو جاتے اور ڈیوڈ اور کیتھی ان کو کھانا کھلاتے۔ ایک بچے سے شروع ہونے والا دسترخوان اب باقاعدہ آل آور کڈز (All our Kids) آرگنائزیشن میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ آرگنائزیشن بچوں کے بھوک کے مسائل سے لے کر دیگر نفسیاتی الجھنوں کا بھی ادراک کرتی ہے۔

اسی طرح کئی واقعات ہیں جو ایک چھوٹے سے عمل سے شروع ہونے تھے لیکن آج وہ ایک چھوٹا سا فعل لاکھوں انسانوں کی فلاح کا سبب بن رہا ہے۔ ایدھی

ٹرسٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عبدالستار ایدھی جب گیارہ سال کے تھے تو ان کی والدہ اسٹروک کے باعث معذور ہو گئیں۔ ایدھی اپنی والدہ کی آٹھ سال تک خدمت کرتے رہے اور جب وہ 19 سال کے ہوئے تو ان کی والدہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔

ایدھی نے اس دوران فیصلہ کیا کہ وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دے گیں۔ باقی تاریخ ہے!

انڈین فلم انورودھ کا مجھے ایک منظر یاد آ گیا کہ جب ونود مہرہ اپنی زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے سمندر میں جانے لگتا ہے تو اچانک قریبی آشرم سے اسے یہ کویتا سننے کو ملتی ہے اور وہ رک جاتا ہے۔

تم بے سہارا ہو تو کسی کا سہارا بنو
تم کو اپنے آپ ہی سہارا مل جائے گا
کشتی کوئی ڈوبتی پہنچا دو کنارے پر
تم کو اپنے آپ ہی کنارہ مل جائے گا
ہنس کر زندہ رہنا پڑتا ہے
اپنا دکھ خود سہنا پڑتا ہے
رستہ چاہے کتنا لمبا ہو
دریا کو تو بہنا پڑتا ہے
تم ہو ایک اکیلے تو
رک مت جاؤ چل نکلو
رستے میں کوئی ساتھی تمہارا مل جائے گا
تم بے سہارا ہو تو کسی کا، سہارا بنو
جیون تو ایک جیسا ہوتا ہے
کوئی ہنستا کوئی روتا ہے
صبر سے جینا آساں ہوتا ہے
فکر سے جینا مشکل ہوتا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں
جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اس میں سے ہم کو حصہ ہمارا مل جائے گا
تم بے سہارا ہو تو کسی کا سہارا بنو
تم کو اپنے آپ ہی سہارا مل جائے گا!
نہ بستی میں نہ ویرانوں میں
نہ کھیتوں میں نہ کلیانوں میں
نہ ملتا ہے پیار بازاروں میں
نہ بکتا ہے چین دکانوں میں
ڈھونڈ رہے ہو تم جس کو
اس کو باہر مت ڈھونڈو
من کے اندر ڈھونڈو
پریتم تمھارا مل جائے گا
تم بے سہارا ہو تو کسی کا سہارا بنو
تم کو اپنے آپ ہی سہارا مل جائے گا!

خود کشی کرنے والا ہیرو یہ کویتا سن کر آشرم کی طرف چل پڑتا ہے اور وہاں اس کی ملاقات یہ نظم گانے والے آشرم کے مالک سے ہوتی ہے۔ ہیرو کہتا ہے میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ یہ کویتا سنی تو رک گیا۔ آشرم کے مالک نے کہا اس کویتا میں کچھ ایسی ہی طاقت ہے۔ آؤ، میں تمہیں اس کے بول لکھ کر دے دوں جس پر ہیرو جواب دیتا ہے کہ یہ کویتا میں نے ہی لکھی ہے، بس ذرا بھول گیا تھا!

جی ہاں! کبھی کبھی ہم بھی بہت نزدیک کی چیزیں بھول جاتے ہیں اور بھٹک جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنی زندگی اور خوشی کا ہی سوچتے ہیں لیکن ہماری چھوٹی اور بہت معمولی سی بھلائی کسے کے دکھ کا درماں کر سکتی ہے، کسی کی زندگی بدل سکتی ہے۔

ایک بزرگ سے ان کے طالب علم نے پوچھا کہ یہ دنیا اتنی ظالم کیوں ہے؟ اتنی نفرت اور نا انصافی کیوں ہے؟ ہم میں کیا کمی ہے؟ بزرگ نے جوب دیا ہم خدا سے وہ نہیں مانگتے جو مانگنا چاہیے۔ طالب علم کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور اس کی بے چینی اور بڑھ گئی۔ بزرگ نے اس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے کہا کہ ہم خوشی، دولت، عزت، شہرت، پیار اور مرتبہ مانگتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ دعا مانگی کہ اے رب مجھے اور رحم دل بنا، مجھے اور مہربان بنا دے؟

ہم سب اپنے آپ کو اپنی ذات میں بہت مہاتما سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس دعا سے کیا سروکار کہ ہمیں رحم دل بنا؟ ہمیں مہرباں بنا؟ حالانکہ انسانیت کی روح ان ہی دو چیزوں پر مشتمل ہے جو کہ کسی بھی نسل، رنگ اور مذہب سے بالاتر ہوتی ہے۔

جب آپ اپنا یا اپنے بچوں کا علاج کرانے اسپتال جاتے ہیں تو کیا ڈاکٹر سے اس کا مذہب، اس کا عقیدہ پوچھتے ہیں؟ اگر آپ کی کشتی الٹ جائے اور آپ ڈوب رہے ہوں تو اچانک ایک بچانے والا آپ کے پاس آئے اور آپ کو ساحل تک لانا چاہے تو کیا پہلے آپ اس سے ہندو، عیسائی، مسلمان، احمدی، سنی، شیعہ پارسی ہونے کا سوال اٹھائیں گے؟

ہم نفرت کے سفر میں بہت دور نکل آئیں ہیں۔ ہم جتنے مذہبی ہوتے جا رہے ہیں اتنے ہی انسانیت سے دور۔ جب کہ اگر کوئی حقیقی معنوں میں مذہب کو سمجھے تو اس کی اصل روح وہی ہے یعنی رحم، مہربانی۔ جس کا اقرار ہم اٹھتے بیٹھتے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی شکل میں کرتے ہیں۔

باہمی محبت، انسانیت اور رحم دلی میں ہی ہماری بقا اور نجات ہے۔ ایک دوسرے کو پتھر مار کر قتل کرنا، کافر کافر کا نعرہ لگانا، ایک دوسرے کی جان، مال، عزت سے کھیلنا، یہ ہم نے کہاں سے سیکھ لیا؟

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments