جوگی جہلمی۔ ایک درویش صفت پنجابی شاعر (1 )


جہلم پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ ہندوستان پر بیرونی حملہ آوروں کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے اس شہر پر فارسی، یونانی، ہندو، بدھ، مسلم، سکھ اور برطانوی تہذیب کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس علاقے کی صدیوں پرانی تاریخ مہا بھارت کے نیم افسانوی دور سے ملتی ہے جس کا ثبوت کٹاس راج کے قدیم مندروں کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یونانی بادشاہ الیگزینڈر اور راجہ پورس کی فوجوں کے درمیان مشہور زمانہ جنگ اسی تاریخی شہر سے چند میل دور دریائے جہلم کے کنارے پر لڑی گئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق جہلم الیگزینڈر بادشاہ کے گھوڑے کا نام تھا جس کی یاد میں یہ شہر اس نے آباد کیا۔ موجودہ شہر کے نزد یک ہی سولہویں صدی کا تعمیر کردہ تاریخی قلعہ ً روہتاس ً بھی واقع ہے۔

جہلم طویل عرصہ تک مسلح افواج کے لئے بھرتی کا ایک اہم میدان رہا ہے۔ زمانہ قدیم، برطانوی راج اور پاکستانی مسلح افواج میں عسکری خدمات سر انجام دینے والوں کا تعلق زیادہ تر اسی علاقے سے ہے اسی لئے جہلم کو سپاہیوں کا شہر اور شہیدوں و جنگجوؤں کی سر زمین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس شہر کی پہچان ماضی میں راجہ پورس تھا۔ مشہور انڈین وزیر اعظم اندر کمار گجرال اور بھارتی اداکار سنیل دت کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ مشہور شاعر گلزار کا تعلق بھی اسی جہلم سے تھا۔ جہلم سے تعلق رکھنے والے مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل آصف نواز جنجوعہ اور اعلی فوجی افسران کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ڈاکٹر نذر محمد، سید ضمیر جعفری اور تنویر سپرا کا تعلق بھی اسی علاقہ سے تھا۔

پنجابی شاعری کے ایک بڑے اور درویش صفت شاعر جوگی جہلمی بھی جہلم شہر کی پہچان ہیں۔ قیام پاکستان کی جد و جہد کے درمیان انقلابی نظمیں لکھنے اور پڑھنے والے جوگی جہلمی کا تعلق اسی تاریخی شہر سے ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم اندر کمار گجرال اپنی خود نوشت ً صوابدیدی معاملاتMatters of Discretion ”An Autobiographyً میں لکھتے ہیں کہ میرے دورہ جہلم کے درمیان بڑے قد کاٹھ کے ایک درویش صفت مقامی شاعر جوگی جہلمی مجھ سے گلے ملے اور پوچھا۔

جناب آپ نے مجھے پہچانا؟ گو کہ اس کے انداز اور آواز کو زمانے کے حوادث نے بوڑھا کر دیا تھا لیکن میں نے جوگی جہلمی کو پہچان لیا تھا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے ابھی تک آپ کی برطانوی سامراج کے خلاف لکھی ہوئی نظمیں اور نعرے یاد ہیں جو آپ جوبلی گھاٹ کے عوامی جلسوں میں پڑھتے تھے، جن کی پاداش میں آپ کو دو سال کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جوگی جہلمی پنجابی کے ایک بہت بڑے شاعر ہیں لیکن مجھے اس لئے بھی بہت پسند ہیں کیونکہ ان کا تعلق میری جنم بھومی کھڑی سے تھا۔ وہ 1903 ء میں میرے آبائی علاقے کھڑی شریف آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے ہی کھڑی شریف سے ہجرت کر کے جہلم میں جا آباد ہوا تھا۔ انہوں نے راج گیری کا کام سیکھ کر اپنا آبائی پیشہ اختیار کیا اور پھر ساری زندگی راج گیری اور شعر کہنے میں گزار دی۔ وہ اپنے پیشہ سے اچھی خاص کمائی کر سکتے تھے لیکن زندگی کے بارے میں ان کا ایک اپنا نقطہ نظر تھا۔ ان کے نزدیک مال متاع اور اہل و عیال کے ساتھ زندگی نہیں بنتی اور نہ ہی زندگی اور موت کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت تھا۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔

ممتاز شاعر و افسانہ نگار اور ماہر تعمیرات ڈاکٹر غافر شہزاد ان پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جوگی جہلمی بیسویں صدی کے پنجابی کے نہایت اہم شاعر تھے جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک شعر و ادب میں اپنا مقام بنائے رکھا۔ پنجاب کا کوئی بھی مشاعرہ ان کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا تھا۔ یہ کالج اور یونیورسٹیوں میں ہونے والے مشاعروں کے علاوہ ادبی تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں کی بھی جان ہوا کرتے تھے۔ ان کی زوردار شخصیت، اسرار سے بھری لال انگارہ آنکھیں، بڑی بڑی موچھیں، جوگیوں جیسا حلیہ اور شاعری کی مقبولیت انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ نہایت شفیق اور دوسروں کا ادب و احترام کرنے والے پنجابی زبان کے قد آور شاعر تھے جن پر جہلم کو ہمیشہ فخر رہے گا۔

جوگی جہلمی کا ایک شعری مجموعہ ً مندراں ً کے نام سے 1978 ء میں اس وقت کے جہلم کے ادب شناس ڈپٹی کمشنر کامران رسول کی وساطت سے شائع ہوا۔ اس وقت ان کا شعری مجموعہ مارکیٹ میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس مضمون کی تیاری کے لیے میں نے مندراں کو جہلم کے بہت سارے کتب خانوں میں تلاش کیا۔ بک کارنر کے جناب گگن شاہد کی بھرپور مدد کے باوجود ان کا یہ شعری مجموعہ دستیاب نہیں ہوا۔ لیکن میری تلاش سچی تھی اس لئے ریختہ کی ویب سائٹ سے بالآخر یہ مل ہی گیا۔ مندراں کا سرورق جہلم کے معروف مصور عزیز دہلوی نے تیار کیا تھا۔

انہوں نے بڑی سادہ زندگی بسر کی۔ ان کی وضع قطع بھی جوگیوں جیسی تھی۔ انہوں نے اگرچہ تمام عمر کسمپرسی میں گزاری، غربت اور عسرت نے ان کو زندگی کے آخری ایام تک گھیرے رکھا مگر انا اور خودداری کے ایسے پیکر تھے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ وہ عام محفلوں میں خاموش اور چپ چاپ بیٹھے رہتے مگر ان کی شخصیت کا ہالہ اتنا جاندار تھا کہ لگتا تھا انہوں نے اپنے اردگرد ایک حصار بنا رکھا ہے۔ لیکن قریب جانے پر پتہ چلتا تھا کہ وہ تو ایک بہت ہی شفیق ادب نواز اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔

جوگی جہلمی نے بہت سی رباعیاں کہی ہیں۔ رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ رباعی کی جمع رباعیات ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصروعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ درج زیل بھی شمع اور پروانے کی زندگی پر ان کی ایک خوبصورت رباعی ہے۔

شمع اک دھوکھے دا ناں اے ایس دھوکھے دنیا ماری
ایسے دھوکھے وچ پروانے ساڑی جند پیاری
دیوا بتی تیل پرایا کچھ نہ ایہدا اپنا
شام پوے تے روشن ہووے لے کے اگ ادھاری

( شمع تو ایک دھوکے کا نام ہے اور اس دھوکے نے ساری دنیا کو تباہ کیا ہے۔ شمع کے اسی دھوکے نے پروانوں کی جان لی ہے جو شمع کی لو پر اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔ اس شمع نے دیا، اس کی بتی اور اس میں جلنے والا تیل سب کچھ ادھار لیا ہوا اور اس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب شام ہوتی ہے تو یہ روشن ہونے کے لیے آگ بھی ادھار لیتی ہے۔ جوگی کہتے ہیں کہ شمع سرا سر ایک دھوکہ ہے اس کا کچھ بھی اپنا نہیں ہے لیکن اس نے پروانوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے جو اس پر پانی جان نچھاور کر رہے ہیں )

رباعیوں اور نظموں کے علاوہ انہوں نے بہت سی خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں۔ بے وفائی عورت کا بہت پرانا وصف خیال کیا جاتا ہے جس کو مختلف شعرا نے اپنے اپنے خیال میں باندھا ہے۔ اسی خیال پر ان کی ایک خوبصورت غزل۔

اس پتلائے جفا نوں جفا آؤندی اے
میں بندۂ وفا نوں وفا آؤندی اے
اتھے جا جا ٹکراں خیال اپنا کھاوے
جتھوں نہ جتھے دی ہوا آؤ ندی اے
اوہ پردے دے وچہ وی نہ پردے نوں چاوے
حیا کولوں اس نوں حیا آؤندی اے
جنہوں تک کے تے میں خدا بھل گیا ساں
آج اوہ تک کے یاد خدا آؤندی اے
قضا نوں کوئی تیر قضا لگ گیا اے
بلایاں وی نہ ایہہ بلا آؤندی اے
توں دشنام دے کے تے خوش ایں جے جوگی
دعا گو تیرے نوں دعا آؤندی اے

(جوگی جہلمی اپنے محبوب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ میرا محبوب جفا کا پتلا ہے اور سختیاں کرتا ہے کیونکہ اسے زیادتی اور ظلم کرنا آتا ہے لیکن میں تو وفا کا پتلا ہوں اور مجھے صرف وفا نبھانا آتا ہے۔ میرا خیال اس کے در کی ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن میرے خیال کو بھی میرے محبوب کی خبر نہیں ملتی۔ میرا محبوب پردوں میں بھی اپنا گھونگھٹ نہیں اتارتا۔ اپنا آپ چھپا کر رکھتا ہے۔ وہ تو اتنا شرمیلا اور حیا والا ہے کہ اسے تو حیا سے بھی حیا آتی ہے۔

جس کو دیکھ کر میں اپنے رب کو بھول گیا تھا آج اس کو دیکھ کر مجھے خدا کی یاد آجاتی ہے۔ لگتا ہے کہ موت کو بھی موت کا تیر لگ گیا ہے۔ موت کو بھی موت آ گئی ہے کیونکہ اب یہ بلا بلانے پر بھی نہیں آتی۔ میں محبوب کی جدائی کی وجہ سے موت کا طالب ہوں لیکن وہ نہیں آتی ایسے لگتا ہے کہ موت کو بھی موت آ گئی ہے۔ اے جوگی اگر تم مجھے تنگ کر کے اور گالیاں دے کے بھی خوش ہوتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ میں تمہارے لئے دعاگو ہوں کیوں کہ مجھے تو دعائیں دینا ہی آتا ہے۔ میری فطرت میں دعائیں دینا ہے۔ )

عشق میرا کوئی سمجھیا نہیں یا کوئی فرق رہ گیا اے بیان دیوچ
جے بیان وچ فرق میں چھوڑیا نہیں تاں تاثیر نہیں میری زبان دیوچ
رونا عشق دا روندا ہاں رو رو کے نمک خوار میں اشک پرسان دیوچ
اے پر نغمۂ بلبل نوں اجے جوگی نہیں کوئی سمجھیا اس گلستان دیوچ

( جوگی جہلمی کی رباعیاں زیادہ تر لمبی بحر کی ہیں لیکن انہوں نے حرفوں کو اس فنکاری سے ایک دوسرے سے جوڑا ہے کہ وہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ نظر آتے ہیں۔ اس رباعی میں وہ اپنے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا عشق میرے محبوب کی سمجھ میں آیا ہے یا کہ میرے بیان میں کوئی فرق رہ گیا ہے۔ اگر میں نے اپنے بیان میں کوئی فرق نہیں چھوڑا تو پھر میرے لفظوں کی تاثیر میں فرق ہے ان کی تاثیر کم ہو گئی ہے۔ میری زبان اور میرے الفاظ میں وہ چاشنی نہیں رہی جو کسی کی سمجھ میں آ سکے۔ میں تو اپنے عشق کا رونا رو رو کے بیان کرتا ہوں کیونکہ میں تو ان جاری اشکوں کا نمک خوار ہوں۔ لیکن جوگی لگتا یہی ہے کہ اب تک اس بلبل کا نغمہ اس چمن میں کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ )

وہ اپنی رباعیوں میں بڑی سچی اور کڑوی باتیں بھی کر جاتے تھے جو کچھ سننے والوں کو بری بھی لگتی تھیں لیکن انہوں نے کسی کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ ایک مختلف خیال میں ان کی اور بہت اچھی رباعی۔

شوق سجدیاں دا اج میں کراں پورا بندگی دی چھڑی جنگ نہ ریہہ
اتنے کراں سجدے سنگ در اتے یا جبیں نہ ریہہ یا اوہ سنگ نہ ریہہ
قائم امن اس حال وچ ہو سکدا اے یا تے شمع نہ ریہہ یا پتنگ نہ ریہہ
جوگی جہیا رنگیا رنگ یار وچ جا تیرے رنگ وچ غیر دا رنگ نہ ریہہ

(میں اپنے رب کے آگے سجدے کرنے کا شوق آج پورا کر لوں۔ رب کے حضور اتنے زیادہ سجدے کروں اور بندگی کی اس جاری جنگ کو ختم کر دوں۔ تا کہ یہ جنگ نہ رہے۔ میں اس کی چوکھٹ پر اتنے سجدے کروں کہ اس سے میری پیشانی گھس جائے۔ یا تو میری پیشانی نہ رہے اور یا پھر چوکھٹ کے پتھر ہی میرے سجدوں کی زیادتی سے گھس کر ختم ہو جائیں۔ شمع اور پتنگ کے بیچ جاری جنگ میں امن تبھی ہو سکتا ہے کہ یا تو شمع نہ رہے اور یا پھر پروانہ ختم ہو جائے۔ ورنہ جب تک شمع روشن رہے گی پروانے دیوانہ وار اس پر جان دینے کے لیے آتے رہیں گے۔ جوگی اپنے سجن کے رنگ میں اس طرح رنگ جاؤ کے کسی غیر کا رنگ تمہارے اوپر دکھائی نہ دے۔ اپنے رب کی یاد میں اس طرح غرق ہو جاؤ کہ باقی ساری دنیا کی یاد بھول جاؤ۔ )

جوگی جہلمی کا یہ ایک خوبصورت گیت ہے جس میں انہوں نے دنیا کی سچائی اور حقیقت بیان کی ہے۔ یہ دنیا چار دن کی ہے۔ اس کو دوام نہیں ہے۔

جو اک واری چڑھ ٍ کے تے فیر اکو واری لہہ گیا
میں ویکھدا ای رہ گیا میں ویکھدا ای رہ گیا
جوبن جوانی چار دن ایہہ خوش بیانی چار دن
ایہہ زندگانی چار دن ساری کہانی چار دن
ایہہ وی جوانی دا مزا اوہ کوئی سی جو لے گیا
میں وی ویکھدا ای رہ گیا میں ویکھدا ہی رہ گیا
ڈاہڈا ستایا عشق نے دردر پھرایا عشق نے
ٹلے پہنچایا عشق نے جوگی بنایا عشق نے
پر ہیر سی جو دوستو اوہ سیدا کھیڑا لے گیا
میں ویکھدا ای رہ گیا میں ویکھدا ہی رہ گیا

(جوگی کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک دفعہ ہی آنا ہے۔ جو ایک دفعہ چڑھ کر اتر گیا میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ جوانی کا جوبن ڈھل جانے والا ہے اس کی بہار چار دن تک ہے۔ یہ اچھی باتیں بھی چند دن کی مہمان ہیں ان کو بھی زوال آ جائے گا۔ یہ دنیا بھی فانی ہے یہ سب کہانی ختم ہونے والی ہے۔ دنیا کی بہاریں چار دن کی ہیں۔ اس زندگانی کی جوانی کا مزا تو کوئی اور لے گیا ہے۔ میں تو دیکھتا ہی رہ گیا مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔

اس عشق نے ہمیں بہت ستایا ہے بہت دکھ دیے ہیں۔ ہمیں گھر گھر رسوا کیا ہے۔ ہمیں جوگی بننے پر مجبور کر کیا ہے اور ہمیں جنگلوں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ہیر تو سیدے کھیڑے کے حصہ میں آئی اور میں دیکھتا ہی رو گیا۔ ہمارے حصے میں کچھ نہیں آیا) ( جوگی جہلمی کی شاعری کی کچھ اور باتیں اگلی قسط میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments