تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات اور اسٹیبلشمنٹ


پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی سمت اور بیانیہ درست تھا۔ استعفیٰ نہ دینے کا بہانا بنا کر پہلے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس دے کر پی ڈی ایم چھوڑنے پہ مجبور کرنے والے اب اسی بلاول بھٹو زرداری کے موقف کے مطابق ایک دھاندلی زدہ، مسلط کردہ سلیکٹڈ حکومت کو آئینی طریقے سے گھر بھیجنے کی حکمت عملی اختیار کرنے پہ مجبور ہو گئے۔

تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز سمیت نون لیگ کی قیادت سے ملاقات کے بعد ایک دم زور پکڑ گئیں۔ پیپلز پارٹی نے نون لیگی قیادت کو باور کرایا کہ اپوزیشن اگر متحد ہو کر اپنے اپنے تعلقات اور رابطے تیز کردے تو مصنوعی منافقانہ سہاروں پہ کھڑی یہ کٹھ پتلی عوام دشمن حکومت زمین بوس ہو جائے گی۔ اسی سلسلے میں پچھلے دس بارہ دن ملکی سیاست میں خاصے گرم رہے اور سیاسی ہلچل مسلسل اپنے نقطۂ عروج کو چھونے لگی۔

ملک کی اپوزیشن اور حکومت کے اتحادی آپس میں ملاقاتیں کر کے مستقبل کی سیاست اور اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق حکمت عملی مرتب کرنے میں خاصے سرگرم نظر آتے ہیں، خاص طور پر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں خاصی پرامید ہے جبکہ سیاسی تجزیہ نگار بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کی قیادت کی سرگرمیاں دیکھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اسی دوران حکومت نے بھی اپوزیشن کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کی تگ و دو شروع کر دی ہے۔

وزیراعظم عمران خان چوروں، ڈاکوؤں، چپڑاسیوں اور دہشتگردوں کی جائز ناجائز خواہشات کو پورا کرنے ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم اب بھی مخمصے کا شکار نظر آتی ہیں اور طاقتوروں کے اشاروں کے منتظر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کی ق لیگی قیادت سے ملاقات، میاں شہباز شریف کی دہائیوں کے بعد چودھری برادران سے ملاقات اور پھر مولانا فضل الرحمان کی گجرات حاضری کی وجہ سے ق لیگ کے کیمپ میں بھی خاصی چہل پہل نظر آتی ہے۔

ان ملاقاتوں کا فائدہ ق لیگ کو اس طرح ہوا کہ وہ مونس الٰہی جسے وزیراعظم عمران خان کرپٹ کہہ کر پہلے وزارت دینے سے انکاری تھے پھر مجبوراً انہیں وزارت دی اب وہی مونس الٰہی ان کو اپنی کابینہ میں کارکردگی کے حساب سے جہاد کرتے نظر آ رہے ہیں حالانکہ جہادی وزیر جہاد کے باوجود ایوارڈ سے محروم رہے مگر مرتے کیا نہ کرتے انہیں جہادی کہنا پڑا، دوسری طرف مونس الٰہی بھی وزیراعظم کو ساتھ کھڑے رہنے کی گولیاں دے رہے ہیں۔

وزیراعظم کے مثالی کارکردگی ایوارڈ کا مستحق سوائے شیخ رشید کے کوئی اتحادی وزیر قرار نہ پایا مگر اپوزیشن کی متحرک سرگرمیوں کی وجہ سے اتحادیوں کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ خان صاحب اپنی اندرونی توڑ پھوڑ پہ بھی خاصے پریشان ہیں ان کے پسینے چھوٹے ہوئے ہیں رہی سہی کسر بہت پیاروں راج دلاروں میں کارکردگی ایوارڈ کی تقسیم نے پوری کردی، اب دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح اپوزیشن کی ممکنہ کارروائی کا جواب دیتے ہیں۔ بات کریں

اسٹیبلشمنٹ کی تو وہ بھی کسی وزیراعظم کے خلاف ملکی تاریخ کی ممکنہ دوسری تحریک عدم اعتماد میں آزمائی جانے والی ہے۔ اس بار یہ تحریک عدم اعتماد کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی حکومت کے خلاف ہے۔ اس بار ملک کے سیکیورٹی ادارے بھی غیر جانبداری کی کسوٹی پہ پرکھے جائیں گے، جبکہ آئی ایس آئی کے ملک کے سیاسی معاملات میں کسی سیاسی کردار کے ہونے یا نہ ہونے کا بھی ممکنہ طور پر پتہ لگنے والا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی منتخب عوامی جمہوری حکومت کے خلاف پہلی تحریک عدم اعتماد 26 اکتوبر 1989 میں اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور تمام ریاستی اداروں کی گٹھ جوڑ سے جمع کرائی جس پر یکم نومبر 1989 کو ووٹنگ ہوئی اور متحدہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ کو 12 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحریک عدم اعتماد میں صرف دس ماہ پہلے اقتدار میں آئی ایک منتخب عوامی جمہوری حکومت کے خلاف انتہائی گھناؤنی مکروہ سازش تیار کی گئی، جس کے روح رواں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف مرحوم جنرل حمید گل تھے جبکہ ان کی جانب سے آئی ایس آئی کی تاریخ کے دو مکروہ کردار برگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر اس ساری سازش کے سرگرم کردار تھے۔

اس وقت کے آرمی چیف جنرل سلم بیگ ریٹائرڈ نے تحریک عدم اعتماد سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، مگر اس وقت کے ہی وزیر داخلہ جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر نے برگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کے خلاف آڈیو ویڈیو ثبوتوں کے بنیاد پہ سابق آرمی چیف کو دونوں سازشی ریاستی افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز فراہم کیا جنہوں نے تاریخ کے دونوں مکروہ کرداروں، عوامی جمہوری حکومت کے خلاف ”آپریشن مڈ نائٹ جیکلز“ نام کی سازش تیار کرنے والوں کو جبری ریٹائر کیا۔

آج حالات بہت مختلف ہیں، ملک پہ ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جس پہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا ٹھپا لگا ہوا ہے یا جان بوجھ کر لگایا گیا ہے۔ یہ وہ حکومت ہے کہ جس کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اپنا قومی وقار، غیر جانبداری اور عوامی ساکھ تقریبا کھو چکی ہے، وزیراعظم عمران خان نے اپنی غیر دانشمندانہ سیاست اور طرز حکمرانی سے ریاستی اداروں کی عوامی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ خان صاحب چار چھ ووٹوں کی اکثریت پہ حاکم بنے ملک و قوم کی تقدیر اور معیشت کے ساتھ پچھلے ساڑھے تین سال سے کھلواڑ کرنے میں مصروف ہیں۔

اسی دوران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پہ ہیں کی گردان اتنے تواتر سے تانی گئی ہے کہ اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ یہ راگ الاپنے کا مقصد ہی اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کی ساکھ اور غیر جانبداری کو متنازعہ بنانا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے موقع پہ جو کردار ادا کیا اس نے بھی ریاستی اداروں کی ساکھ کو گزند پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب وہی ساکھ ایک بار پھر داؤ پہ لگی ہوئی ہے، اس بار دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ 1989 کی طرح کسی ایک فریق کی پشت پناہی کر کے اپنی ساکھ کو مٹی میں ملاتی ہے یا ملکی سیاسی معاملات میں غیر جانبدار رہ کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس بحال کرنے کے ایماندارانہ اقدامات اٹھانے کی کوشش کرتی ہے، یہ آنے والے چند ہفتے طے کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments