ڈکیتیوں کے دوران قتل اور اجتماعی آبرو ریزی کی بڑھتی وارداتیں


کہتے ہیں کہ ایرانی بادشاہ نادر شاہ درہ خیبر کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا، اس وقت تیرہواں مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا تخت نشین تھا، اسے جب نادر شاہ کے دلی کی جانب حملہ کرنے کی نیت سے بڑھنے کی اطلاعات دی جاتی تھیں تو وہ کہتا تھا۔ ہنوز دلی دور است، محمد شاہ رنگیلا، ایک عیاش اور نشہ کی لت میں گرفتار تن آسان مغل بادشاہ تھا، جو صبح بٹیروں کی لڑائی سے دل بہلاتا تھا تو رات عیش و طرب کی محفل میں گزارتا تھا نتیجہ وہی ہوا کہ جس کی امید کی جا سکتی تھی، جب نادر شاہ نے حملہ کیا تو صرف تین گھنٹے میں جنگ کا فیصلہ ہو گیا اور نادر شاہ، محمد شاہ کو قیدی بنا کر دلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔

پھر کیا ہوا یہ ایک طویل داستان ہے جو اس وقت مطمح نظر نہیں۔ اس مثال سے صرف یہ باور کرانا مقصود تھا کہ خواب غفلت طاقتور ترین اور سہولیات کے انبوہ کثیر کے باوجود کسی کو بھی تباہی اور ذلت سے دوچار کر سکتا ہے۔ اب ہم اگر اپنے قومی اداروں پر نظر ڈالیں تو کیفیت مغلیہ دور حکومت جیسی نظر آئے گی، طاقت ہے، جاہ و جلال ہے، مطلق العنانی ہے، انا ہے، خودسری ہے مگر نہ محنت ہے نہ ایمانداری ہے۔ اور یہ محض ایک دو اداروں یا چند لوگوں تک محدود نہیں بلکہ قریب قریب سب ہی ادارے اور ان میں کام کرنے والے نوے فیصد لوگ ان اخلاقی بیماریوں کا شکار ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ اخلاقی تنزلی اور پیشہ ورانہ بے ایمانی اداروں میں Terrace Farming کی طرح درجہ بہ درجہ پھیلی ہوئی ہے، اور اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی انداز فکر کے تابع نظر آتے ہیں۔ جنھیں برائی برائی نہیں دکھائی دیتی، جرم کی اعانت ثواب لگتا ہے اور مجرم معاشرہ کا کارآمد ترین فرد لگتا ہے۔ ان حالات میں اچھائی کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے چیل کے گھونسلے میں مانس تلاش کرنا۔

حالات اب اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں عام آدمی کی جان، مال، عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں، ساتھ ساتھ قومی اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں عام لوگوں پر گولیاں چلا دینا، حبس بے جا میں قید کرلینا، منشیات فروشوں کی اعانت کرنا، ڈاکوؤں، اجرتی قاتلوں اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہونا عام بلکہ عمومی امر ہے۔ جس کا غلغلہ روز اٹھتا ہے اور بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوجاتا ہے۔

مندرجہ بالا حالات کے اثرات کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی، ڈکیتی کرنے والے اب اجتماعی آبروریزی بھی کرنے لگے ہیں، ڈکیتی کی واردات کے دوران گھر کے دروازے پر قتل کیا جانے والا دولہا، جس کا شام کو ولیمہ تھا، کا قاتل کوئی اور نہیں پولیس والا نکلا۔

پنڈی میں ٹیوشن پڑھ کر آنے والے نو عمر طالب علموں پر فائر کھول دیا جس سے نوعمر طالب علم موت کی دہلیز تک پہنچ گیا۔ میڈیکل کالج میں طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر ان کا قتل کر دیا جانا اور قتل کو خودکشی ظاہر کرنا، سرجانی ٹاؤن میں ڈکیتی کے دوران، سترہ سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی، گھر والے التجائیں کرتے رہے، مگر ناکام، یہ سب کچھ اداروں کی نا اہلی اور ان میں پلنے والے خون آشام درندوں کی کھلی نشاندہی کرتا ہے، مگر یہ سب کچھ ٹھیک کیسے ہو، جبکہ بلے کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا گیا ہو۔ کوئی مجرم خود بھلا کس طرح خود کو گنہگار اور سزا کا حقدار قرار دے گا۔

اگر کوئی مجرم پکڑا بھی جائے تو کچھ عرصہ بعد با عزت بری ہو جاتا ہے، اب یہ سند یافتہ مجرم بن چکا ہوتا ہے جو تھوڑا بہت دل میں خوف تھا وہ بھی جاتا رہتا ہے، اب یہ عذاب بن کر عوام پر ٹوٹ پڑتا ہے اور مرنے تک لوگوں کے لئے موت کا سامان بنا رہتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ دراصل لوگوں کو نہ خوف خدا ہے نہ ہی کسی ادارے کا ڈر لہذا معاملات مغل شہنشاہوں جیسے بنے ہوئے ہیں مگر مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ مغل شہنشاہوں کی عقل ٹھکانے لگانے وقفے وقفے سے کبھی بیرونی اور کبھی اندرونی ڈنڈا بردار آ جایا کرتے تھے جو انہیں فتح بھی کرتے تھے اور جوتے بھی مارتے تھے، تو کچھ دنوں کے لئے ان کی عقل ٹھکانے آجاتی تھی، مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا لہذا معاملات مسلسل بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں بہت ہی سخت اور خاص اخلاقی تربیت کا اہتمام کیا جائے، سزا اور جزا کا خصوصی نظام تیار کیا جائے اور اسے اداروں میں بلاتفریق سختی سے رائج بھی کیا جائے۔ یہ نظام سب پر یکساں لاگو ہو، بڑے چھوٹے کی یا رشتہ داری و پیٹی بھائیوں کی تفریق نہ ہو۔ سزا سب کے لئے برابر اور جزا سب کے لئے برابر ہو۔ ہر مجرم کو چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری، کسی عہدے پر ہو یا چاہے جتنا بڑا سیاستدان، تاجر، سردار، وڈیرا، کچھ بھی ہو، اسے جرم پر سزا ملنے کا پکا یقین ہونا چاہیے، اور اس پر پوری ایمانداری سے بار بار عمل کیے جانے سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ اگر جرم کیا تو سزا سے نہیں بچ سکیں گے چاہے کسی رتبہ یا عہدے پر فائز ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ ان اقدامات کے نتیجہ میں حالات میں کچھ بہتری لائی جا سکے۔ مگر فی الحال ایسا کچھ ہوتا نظر آ نہیں رہا اور نہ ہی امید کی جا سکتی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، تو بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments