ریحام خان کیوں نہیں، محسن بیگ کیوں؟


ہتھکڑیاں پہنے دہشت گردی کے مقدمات سننے والی عدالت میں سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ، اخباری نمائندوں کو جواب دیتے ہوئے یہی سوال کی شکل میں یہی جواب محسن بیگ نے بھی دیا تھا کہ مراد سعید، ریحام خان پر کیس کردے جس نے یہ سب کچھ اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

آپ کے دل میں بھی یہی سوال اٹھتا ہو گا کہ محسن بیگ کو ایک سرسری ذومعنی اشارہ پر اس حال تک پہنچانے والے ریحام خان کو کیوں کسی عدالت میں لے کر نہیں جاتے؟ میں نے بھی یہی سوال خود سے اور اس سوال کا مناسب جواب دینے والوں سے کیا لیکن خاطر خواہ تسلی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ مراد سعید صاحب سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اس سوال کو نیم تشنہ رکھا۔

محسن بیگ خان صاحب کا دوست تصور ہوتا ہے اگرچہ اقتدار کے سینے میں دل اور کتاب میں دوست کوئی نہیں ہوتا بس مفادات اور اس پر مبنی تعلقات ہوتے ہیں۔ اندرونی حلقے تصدیق کرتے ہیں کہ خان صاحب کا حوصلہ الزام تراشی کے اس بیہودہ سلسلے پر سخت سیخ پا ہیں جو ان کے اردگرد قریبی رشتوں اور دوستوں کے خلاف روز بروز تیز تر ہو رہا ہے۔ میری نظر میں یہ وہی سلسلہ اور طریقہ کار ہے جسے حکومت ملنے سے تھوڑی مدت پہلے ریحام خان کی کتاب کے ذریعے شروع کیا گیا تھا اب مہنگائی بد انتظامی اور کرپشن کی وجہ سے حکومت پھر ڈانواں ڈول ہے اس لیے پی ٹی وی کے پرانے ڈراموں میں ٹوٹنے والے رابطوں کی طرح جہاں سے الزام تراشیوں کا یہ سلسلہ ٹوٹا تھا وہی سے دوبارہ جوڑ کر جاری ہے۔ خان صاحب کے لئے بہترین حکمت عملی خاموشی اور ردعمل سے پرہیز کرنا ہے، کیونکہ اس طرح اس کی توجہ عدم اعتماد اور ’باہمی اعتماد کی بحالی‘ سے ہٹ کر محسن بیگوں اور ماضی کی بیگیج کی طرف ہو کر منتشر ہو جائے گی۔

گندی سیاست کا کھیل پاکستان میں شروع سے کھیلا جاتا رہا ہے۔ جس میں کبھی مخالف کے عقیدے پر کبھی اس کی شخصیت پر گند اچھالا جاتا رہا ہے۔ جناح صاحب ہوں یا ان کے مخالفین سب کسی نہ کسی طرح دشنام طرازی کے شکار ہوئے۔ مرد سیاستدانوں کے علاوہ فاطمہ جناح، رانا لیاقت علی خان، نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو، بیگم نسیم ولی خان اور اب مریم نواز شریف اور موجودہ خاتون اول سب سیاسی کم ظرفی کے ہاتھوں کیچڑ کی زد میں آئے۔

ریحام خان جتنے پراسرار انداز اور تیزی سے عمران خان کی نکاح میں آئی اتنی تیزی سے نکال دی گئی۔ بقول ریحام خان کے انہیں علیحدگی کی خبر عمران خان نے واٹس ایپ کے ذریعے دی۔

بقول پی ٹی آئی کے کرتا دھرتاؤں کے، ریحام خان نے بعد میں جو کتاب لکھی، وہ شریف خاندان کے کہنے اور اعانت سے لکھی۔ لیکن ریحام خان نے عمران خان صاحب کے ساتھ اپنا حساب کتاب بھی برابر کرنا تھا۔ جب اس نے اپنی کتاب لکھی تو ابھی وہ چھپی نہیں تھی کہ اس کا مبینہ مسودہ لیک ہو گیا۔ اس لیک کی کئی کہانیاں ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے قابل قبول کہانی یہ ہے کہ یہ لیک ریحام خان کی مرضی سے ہوئی تھی کیونکہ اس نے اس کے ذریعے عمران خان کی شہرت کو نقصان پہنچانا، اپنی توہین کا بدلہ لینا اور اپنا ’حق مہر‘ وصول کرنا تھا۔

اس لیک شدہ مسودے میں کئی دھماکہ خیز خبریں تھیں۔ جس میں پردہ نشینوں کے ساتھ ساتھ بڑے مشہور لوگوں کے بارے میں بھی بہت ”ناپسندیدہ“ مواد موجود تھا۔ مثال کے طور پر اس مسودے میں گلوکار حمزہ عباسی، موجودہ وزیر مواصلات اور عمران خان کے ڈائی ہارڈ سپورٹر مراد سعید اور کرکٹر وسیم اکرم پر سخت حملے کیے گئے تھے۔ اگر ریحام خان چاہتی تو وہ سارا مواد کتاب میں ڈالتی جس سے اس کی کتاب بہت مشہور ہوجاتی۔ لیکن پھر اس کی پاداش میں اسے بیرون ملک کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا جس کی وجہ سے وہ مالی طور پر کنگال ہوجاتی، اور ایسا کرنے کی کم از کم دو دھمکیاں اسے مل چکی تھیں، جن میں ایک وسیم اکرم اور دوسری جمائما گولڈ سمتھ نے دی تھی۔

ریحام خان بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی بہت ہے۔ اس لئے اس نے کتاب میں وہ سب کچھ رکھنے اور اپنی کتاب کو مشہور بنانے کی بجائے کتاب میں وہ سب کچھ نہیں بھی رکھا اور مشہور بھی بنایا۔ کیونکہ کتاب چھپنے تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتاب میں وہ سب کچھ موجود نہیں جس کی جھلکیاں لیک شدہ صفحات میں موجود تھیں۔ پھر لیک شدہ صفحات کی وجہ سے اس نے عمران خان کو اپنی شرائط منوانے پر آمادہ بھی کیا۔

جب وہ عمران خان کی اہلیہ تھی اس دوران مبینہ طور پر اس نے موقع ملنے پر خان صاحب کے مخصوص اور ذاتی بلیک بیری کو کلون کر کے بہت سارا ایسا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا جو خان صاحب کے خیال میں کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے تھا۔ اور جس کو عام کرنے سے ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔

کتاب کی مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریحام خان، خان صاحب کے گھر بیوی سے زیادہ ایک اینلسٹ کی حیثیت سے ہر چیز ہر حرکت ہر بات چیت ہر جملے کو پرکھ کر نتائج اخذ کرتی رہی تھیں۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اسے ’موقع‘ دیا گیا تو وہ کتاب ضرور لکھے گی۔ جس میں وہ سب کچھ شامل ہو گا جو خان صاحب دنیا سے چھپاتا ہے۔ تبھی تو ان دنوں ٹی وی پر بیٹھے کچھ جغادری ریحام خان کو ایم آئی سیکس کی ایجنٹ کہہ رہے تھے۔

اسی بلیک بیری کی وجہ سے خان صاحب کی پوزیشن اس کی پارٹی کا مستقبل اور اس کی سیاسی زندگی سب اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ اس لئے حمزہ عباسی کو ٹی وی پر بٹھا کر وہ سب کچھ پہلے سے ڈسکس کیا جانے لگا جو کتاب میں موجود تھا یا ہو سکتا تھا۔ جو وقوع پذیر ہونے والی بلیک میلنگ کا ڈنک نکالنے کے لئے ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔ یعنی جن رازوں کو کوئی بلیک میلر استعمال کر کے بلیک میل کرتا ہے، شکار پہل کاری کے ذریعے بلیک میلر کے ہاتھ سے وہ سبقت لے کر خود سب کچھ ظاہر کر دیتا ہے۔ حمزہ عباسی نے ٹی وی پر بیٹھ کر، کیس کرنے کے ساتھ ساتھ اس ہر موضوع پر بات کی جس کا عمران خان کو ڈر تھا یا جس سے ان کو ذاتی یا سیاسی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ یہ علاج کا ایک طریقہ تھا جو اختیار کیا گیا۔ دوسرا طریقہ مبینہ طور پر زلفی بخاری اور بعد میں جہانگیر ترین کے ذریعے بروئے کار لایا گیا۔

یوں ریحام خان کی کتاب سب نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم اور جمائما گولڈ سمتھ کی عدالتی دھمکیوں اور حمزہ عباسی کے ٹی وی پروگرامز کے ذریعے چھپنے سے پہلے سب تک پہنچ گئی۔ ہر پڑھنے والے کی خواہش بنی کہ کتاب چھپتے ہی خریدے۔ بین الاقوامی جرائد میں آنے والی کتاب پر تبصرے شائع ہوئے۔ ریحام خان کو ہر مشہور بین الاقوامی چینل نے پاکستانی سیاست اور کتاب پر تبصرے کرتے ہوئے آن ائر لیا۔ اس کے انٹرویوز نشر ہوئے۔ یوں کتاب میں کیا ہو گا نہ جانتے ہوئے بھی، پہلے سے مشہور ہو گئی، جو ریحام خان اور اس کے پرنٹر کا اولین مقصد تھا۔ اس زبردست مارکیٹنگ کی وجہ سے میں نے ابتداء میں لکھا کہ وہ ایک عقلمند خاتون ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کتاب میں وہ سب کچھ تھا جو لیک مسودے میں شامل تھا؟ اس کتاب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریحام خان نے برطانیہ میں عدالتی کارروائی سے بچنے کے لئے ڈر کے مارے کتاب میں ترمیم کی یا وہ لیک شدہ مسودہ کتاب کا حصہ ہی نہیں تھا۔ لیکن میرا تجزیہ کہتا ہے کہ وہ لیک شدہ مسودہ غالباً ریحام خان نے خود لیک کیا تھا۔

میرے اس تجزیے کی بنیاد یہ ہے کہ کتاب لکھنے کا مقصد اپنے قاری کو اپنے خیالات تجربات مشاہدات اور حقائق پہنچانا ہوتا ہے، مذکورہ مسودہ لیک کر کے ریحام خان نے بڑی چالاکی سے وہ سب کچھ کر دیا۔ خان صاحب کا خفیہ چہرہ خانگی اور نجی زندگی لوگوں کے سامنے عیاں کرنی تھی اور اس نے وہ کردی۔ عدالتی کارروائی سے خود کو بچانا تھا وہ بھی اس نے کر دیا۔ اگر الزامات درست ہیں اور یہ کتاب مبینہ طور پر شریف خاندان کا منصوبہ تھا تو ظاہر ہے اس سے بھی اس نے مالی مفادات حاصل کیے ہوں گے ۔

حال ہی میں محسن بیگ نے اس کتاب کے بارے میں ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ایک سرسری ذومعنی اشارہ کیا تو پہلے اس کی گیس پانی بجلی کے کنکشن کاٹے گئے اور پھر سبق سکھانے کی خاطر اس کی درگت بنائی گئی۔ لیکن دوسری طرف کتاب لکھنے والی مصنف کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا۔ یہی سوال ہے جو ابتدا میں نے آپ کی طرف سے پوچھا اور لکھا کہ بہت سوں کے دماغ میں آتا ہو گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسی کوئی بیہودہ بات نہیں جس کا حوالہ محسن بیگ نے دیا یا جو سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوتا رہتا ہے۔ ایسی باتیں اس لیک شدہ مسودے میں موجود تھیں جس کو بعد میں ریحام خان نے اپنی کتاب کا حصہ ماننے سے انکار کیا۔ اور چھپنے کے بعد اس کی کتاب میں بھی موجود نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر ریحام خان اور جناب وزیراعظم صاحب کے درمیان طلاق کے بعد کے معاملات حل کرنے والوں نے یہ بات طے کی تھی کہ کتاب کو لے کر ریحام خان کو کسی عدالت میں نہیں لے جایا جائے گا۔ جس کے بدلے میں ریحام خان نے وہ سارا مواد اپنی کتاب سے نکالا جو بقول اس کے اس کا ’نہیں‘ تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی اس وقت کی خبروں کے مطابق جب یہ معاملات گرم تھے، اس وقت زلفی بخاری کے علاوہ جہانگیر ترین نے ان معاملات کے حل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سب جانتے ہیں جہانگیر ترین کا جہاز اور پیسہ پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لئے بہت کھلے دل کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔ چونکہ ریحام خان کی کتاب بھی پی ٹی آئی کو حکومت ملنے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی، اس لیے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے بھی جہانگیر ترین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو جہانگیر ترین انگلینڈ آیا جایا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق جہانگیر ترین نے کتاب کی اشاعت کے معاملے کو ہینڈل کیا تھا۔

ممکن ہے محسن بیگ اس قسم کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے بارے میں ٹی وی چینل پر دھمکیاں دے رہا ہو۔ ویسے بھی محسن بیگ خان صاحب کے اندرونی محافل کا حصہ رہا ہے اور محدود و مخصوص حلقے کے اندرونی بہت سارے رازوں سے واقف ہے۔ وہ عمران خان صاحب کی شہرت کو کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے یہ تو وہ اور وزیراعظم صاحب جانتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے زیر تفتیش ملزم سے تھانے میں تفتیش کے ساتھ ساتھ منہ بند رکھنے کے لئے بارگین بھی جاری ہوگی جبکہ اس وقت جہانگیر ترین کی خدمات خان صاحب کو حاصل نہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments