الطاف حسین ہیٹ اسپیچ کر کے بھی کیسے بچ نکلے؟


برطانوی عدالت میں الطاف حسین کے وکیل دفاع نے کمال ہوشیاری اور عیاری سے الطاف حسین کی ان تشدد، جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت پر اکسانے والی تقریروں کو ”ایک جذباتی فرد“ کی تقریر قرار دیا اور یہ نکتہ سامنے لائے کہ ”تقریر کے بعد الطاف حسین نے تشدد پھوٹ پڑنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا“

یاد رہے کہ وکیل دفاع نے ”تقریر کے بعد“ والی بات کی تھی لیکن اس کے باوجود اگر برطانیہ کی عدالت نے الطاف حسین کو بری کر دیا ہے تو یہ بات سمجھ لی جانی چاہیے کہ بھائی کسی ”عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ“ ہے جسے بچانے کے لیے انہوں نے برطانوی عدالتی نظام کی ساکھ تک کو داؤ پر لگانے میں دیر نہ کی ہے؟ کیونکہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص تشدد پر اکسانے کی بھرپور راہ اختیار کروائے، ملکی اداروں کے دفاتر پر حملہ کے لیے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو 5 لاکھ تک بندے لانے کا ٹارگٹ سونپے اور کھلے عام یہ کہے کہ

”ان اداروں کے سربراہان کو جتھے گھسیٹ کر باہر سڑکوں پر لائیں اور ان کی توہین کرتے ہوئے سڑکوں پر گھسیٹیں ماریں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ملکی الیکٹرانک میڈیا کے اہم ترین چینلوں جیو، اے آر وائی اور سماء وغیرہ کو بھی نہ بخشیں“

اور پھر جب ان کی ایسی ہیٹ اسپیچ کا نوٹس لے کر ان کے خلاف عدالتی دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو وہاں آرام سے کہہ دیں کہ ”یہ تو فقط پرجوش خطابت کا اظہار تھا اور کچھ نہیں“

اپنے کارکنوں کو مشتعل اور ہنگامہ خیز جتھے پورے نہ کرنے پر گالیاں دلوانے والے اس مہان رہنما نے کمال یوٹرن لیا اور اپنی سب باتوں سے مکرنے میں بالکل بھی دیر نہ کی اور برطانوی عوام، میڈیا اور دنیا بھر کے انسانی و عورتوں کے حقوق سے جڑے لوگوں کو کمال ہوشیاری سے ”بلیک میل“ کرتے ہوئے بھائی نے خود کو ”لبرل، ترقی پسند، طالبان مخالف اور عورتوں کے حقوق کا چیمپیئن“ بنا کر پیش کرنے کی چال بھی چلی اور مارکیٹ میں اچھے داموں بکتے چورن کے اچھے دکاندار کے طور پر اپنی پہچان بھی پیدا کرلی، حالانکہ بھائی کا ماضی ان سب چیزوں کی بالکل مخالفت میں رہا ہے اور ان کی جماعت کا کبھی بھی ”سافٹ امیج“ نہ رہا ہے ان پر بوری بند لاشوں کے الزامات خاصے سنجیدہ رہے ہیں اور ریاستی اہلکاروں پر ان کے جنوبی افریقہ سے آنے والے ٹارگٹ کلروں کے حملے بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں، ہزاروں لاکھوں کلاشنکوفوں کی کہانیاں بھی ان کی جماعت ہی سے جڑی ہوئی ملتی ہیں اور بظاہر لبرل اور ترقی پسند کہلوانے والے بھائی صاحب اپنی تقریروں میں اپنے کارکنوں کو گھر کا سامان بیچ کر اسلحہ خریدنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو صحافیوں کو ”ٹھوکنے اور خاموش“ کرانے کے لیے بھی ان کی تقریریں ہمارے ٹی وی چینلز کے ریکارڈ رومز کا حصہ ہیں اور عورتوں کے حقوق کے دعوے دار پر تحریک انصاف کی رہنما آپا زہرا شاہد کے قتل کا الزام ہے، اب یہ اور بات ہے کہ کل کی قاتل اور ٹارگٹ کلر جماعت کہ جس پر موجودہ وزیراعظم عمران خان پابندی لگوانے کے لیے برطانیہ تک جانے کو کہا کرتے تھے اب ان کی ایسی محبوب اتحادی بنی ہے کہ اس کے منسٹرز کو وہ چوبیس گھنٹے ”نفیس ترین“ کہتے نہ تھکتے ہیں۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے الطاف بھائی ہیٹ اسپیچیز ”میں اپنے“ مقصد کے حصول ”کے لیے سو دو سو بندوں کی ہلاکت کو بھی معمولی بات سے تعبیر کر رہے تھے لیکن اپنا حال یہ ہے کہ اس کی گئی تقریر سے بھی مکر گئے کہ جس میں وہ اداروں اور ان کے عہدے داروں کو آہنی ہاتھوں سے ذلیل کروانے پر تلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی خواہش کے مطابق خبریں اور پروگرام پیش نہ کرنے والے چینلز بھی زمین بوس ہوجائیں اور منہ پھٹ صحافیوں کی زبانوں کو بھی ان کے نام لیوا ہتھ چھٹ کارکن“ خاموش ”کرا دیں لیکن وہ بہادری، بغاوت اور قانون شکنی جس کا وہ اپنے چاہنے اور ماننے والوں کو درس دے رہے تھے اس کا مظاہرہ وہ برطانوی عدالت میں کرنے سے قاصر رہے اور تقریباً لم لیٹ ہو گئے مگر کیا یہ بھائی صاحب کی“ معصومیت ”کی سند کہی جا سکتی ہے کہ وہ بری ہو گئے؟

ایسا سوچنا بھی غیر ضروری ہو گا کیونکہ وہ اپنے الفاظ اپنے منہ سے ادا کرچکے تھے اور اب یہ اور بات ہے کہ وہ ان الفاظ کے مفہوم کو کچھ اور لبادہ پہناتے ہوئے مل رہے ہیں اور یہ پہلی بار نہیں ہوا وہ بیسیوں بار پہلے بھی ایسی حرکات سے مکر چکے ہیں۔ جو شخص پاکستان کے بانیوں کی اولاد ہونے کا کریڈٹ لے اور پھر اسی پاکستان بارے دھڑلے سے“ پاکستان مردہ باد ”بھی کہے تو کیا اس کی ذہنی حالت بارے شک نہیں کرنا چاہیے؟ موصوف ماضی میں ہندوستان میں کھڑے ہو کر پاکستان بنانے کو نہ صرف ایک سنگین غلطی قرار دے چکے ہیں بلکہ ہندوستانی لیڈروں سے یہ بھی پوچھ چکے ہیں کہ

”اگر ہم واپس ہندوستان ہجرت کرنا چاہیں تو کیا آپ ہمیں قبول کر لیں گے؟

اب ایسا شخص غیروں کی زمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کی ریاست کو کھلے عام تماشا بناتا ہے اور ہماری بے بسی ہے کہ ہم اس سے بازپرس تک نہ کر سکتے ہیں، سزا وغیرہ دینا تو بہت بڑی بات ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف ایسی تقریریں کرنے والا شخص ہمارے ہاں ایک لیڈر کی شناخت بھی رکھتا ہے اور اس پر سوائے ماتم کرنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments