تائیوان میں کیا دیکھا؟


ساغر شکن ہے شیخ بلا نوش کی نظر
شیشے کو زیر دامن رنگیں چھپا کے لا
کیوں جا رہی ہے روٹھ کے رنگینئی بہار
جا ایک مرتبہ پھر اسے ورغلا کے لا

مختلف جگہوں سے گھومتے گھماتے تائپے ( Taipei ) شہر سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھاؤ ین ( Taoyuan ) شہر میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں پہنچ گئے جہاں کپڑے کی فینشنگ کا کام ہوتا تھا۔ یہاں ہم آٹھ پاکستانی اور تین انڈونیشیئن لڑکے تھے۔ یہ فیکٹری مالکان کی ذاتی زمین پر بنائی گئی تھی اور یہاں کام کرنے والے زیادہ تر ان کے اپنے رشتے دار ہی تھے۔ مالک کی دو بہنیں، ایک بھائی اور دیگر رشتے دار۔ فیکٹری مالک بدھ ازم کے اس فرقے سے تعلق رکھتے تھے جو سبزی خور ہے۔

فیکٹری کے ساتھ الگ سے ایک بلڈنگ بنائی گئی تھی جہاں اکثر اجتماعات ہوتے اور اس فرقے کے لوگ جمع ہو کر عبادت کرتے تھے۔ ہمیں اس بلڈنگ کے ہر کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جسم سے گوشت کھانے کی بو آتی ہے جو باقی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں بعد میں ان کمروں کو صاف کرنے کے لیے سپرے کرنا پڑتا ہے۔ یہ بدھ ازم کے ساتھ ساتھ کچھ علاقائی رسومات کو بھی رکھتے تھے مثلا ہر تقریب پر آتش بازی جس کا مقصد وہی تھا کہ بد روحوں کو پاس آنے سے روکا جائے۔

اس کی علاوہ بت کے سامنے روانہ اگربتی جلائی جاتی اور ماتھا ٹیکا جاتا۔ یہ ماتھا ٹیکنا بھی اپنی عاجزی اور کمزوری کا اظہار ہے اور کسی بالاتر ہستی کو تسلیم کرنا ہے۔ اور روح کے ہونے کو تسلیم کرنا بھی تو میٹا فزکس ہی ہے جو ماورائی شے ہیں۔ یہ تصورات کہاں سے آئے۔ شاید ان کے پاس بھی کوئی اس دوسرے جہاں کی خبر دینے والا آیا ہو اور تاریخ میں اس کی تعلیمات اور اس کی ہستی گم ہو گئی ہو۔ باقی ایک تصور یا خاکہ ہی بچا ہو۔

ویسے بھی قرآن اپنے مخاطبین کو صرف ان پیغمبروں کی روداد سناتا ہے جن سے وہ واقف تھے لیکن ساتھ یہ بھی کہتا ہے اور بھی ہیں جن سے تم واقف نہیں۔ یعنی آدم علیہ السلام جن سے سارے واقف، نوح، ابراہیم اور اسماعیل علیہ سلام اور باقی عرب جن میں ہود، صالح علیہ سلام وغیرہ۔ مسیح اور یہود بھی عرب میں موجود تھے کے سامنے ان کے پیغمبروں کی روداد پیش کرتا ہے۔ اور نبوت تاریخ کے روشن دور میں ختم کر دیتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی کہتا ہے ہر بستی میں ہم نے رسول بھیجا جو خبردار کرنے والا تھا۔ لیکن یہ شاید قبل از تاریخ کی بات ہو۔ ہم آج صرف کچھ نشانیوں سے قیاس ہی کر سکتے ہیں

مالک کی ایک بہن کے دو بچے تھے ایک بیٹا، ایک بیٹی اور وہ اپنے شوہر سے طلاق کے لیے گفت و شنید کر رہی تھی کہ وہ شراب پیتا ہے جواء کھیلتا ہے اور اس نے ایک گرل فرینڈ بھی رکھی ہوئی ہے اور اس پر پیسے لٹاتا ہے۔ یعنی اس کے نزدیک یہ سب کچھ بد اعمالی کے زمرے میں آتے تھے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا اس کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی تھی۔ لیکن طلاق حاصل کرنے کے بعد اس نے خود بھی ایک بوائے فرینڈ ( boy friend ) رکھ لیا اور اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ چونکہ وہ اب قانونی بندھن سے آزاد ہے اس لیے وہ یہ کرنے کے لیے بھی آزاد ہے۔

اس کی بیٹی اور بیٹا کالج کے ہاسٹل میں شفٹ ہو گئے اور ان کے اخراجات ان کے ماں باپ انہیں بھیج دیتے تھے۔ لیکن ایک اور احتیاج جو پیار محبت اور کیئر ( care ) کی صورت میں ان کا حق تھی وہ ان بچوں کو کوئی نہیں دے سکتا تھا۔ یہیں سے وہ معاشرتی المیہ جنم لیتا ہے، جو معاشرے کو مفید افراد کی بجائے صرف کمپلیکس ( complex ) کا شکار افراد دیتا ہے۔ ایسے بچے اپنی تعلیم پر بھی زیادہ توجہ نہیں دے سکتے۔

تائیوان میں ہماری آخری قیام گاہ یہی تھی۔ ایک مرتبہ چھٹی کے دن تائیوانی تہوار تھا اور سارے ورکر ادھر ادھر گھومنے نکل گئے اور میں پیچھے اکیلا رہ گیا۔ فیکٹری کے پیچھے کا ایک دروازہ کھیتوں میں کھلتا تھا میں وہ کھول کر بیٹھ گیا اور اس سارے عرصہ قیام میں جو کچھ دیکھا سنا اسے ذہن میں دہرانے لگا۔

مادی ترقی کے اس دور میں تائیوان نے بہت ترقی کی ہے۔ لیکن اس ترقی نے ان سے بہت کچھ چھین لیا، خاندان، رشتے ناتے اور معاشرتی اقدار نئے نئے روپ دھارنے لگیں، مغربی تہذیب نے ان پر بہت اثرات ڈالے ہیں۔ مادیت کا یہ عالم ہوا کہ ہر رشتہ دولت سے ماپا جانے لگا۔ شادی کا ادارہ ( institution ) بالکل ہی تباہ ہو کر رہ گیا اور طلاق معمول کی بات بن کر رہ گئی۔ ایک جوڑے سے سفر کے دوران میری ملاقات ہوئی، بعد ازاں وہ ایک دوست کے گھر میں بھی مجھے دو تین دفعہ ملے۔

میں انہیں میاں بیوی ہی سمجھتا رہا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دس سال سے اکٹھے ہیں لیکن شادی نہیں کی۔ وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ شادی کا کیا فائدہ، بعد میں طلاق تو ہو ہی جانی ہے۔ یہ آسان بات ہے کہ ہم اکٹھے رہیں جب محسوس ہو کہ نباہ نہیں ہو سکتا تو اپنا بوریا بستر سنبھالیں اور اپنے اپنے راستے ہو جائیں۔

یہاں آپ کو بروکن فیملیز (broken families ) کے اکثر بچے نظر آ جاتے ہیں جنہیں مرد عورت دونوں میں سے کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ انہیں دادی سنبھالتی ہے یا نانی یا کسی بچوں کی نگہداشت ( child care center ) کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے کمپلیکس ( complex ) کا شکار ہوتے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں یہاں تک کہ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ میں کئی ایسے بچوں سے ملا جو پندرہ سولہ سال کی عمر میں منشیات کے عادی بن گئے یا سیکس ورکر۔

ماں باپ کی توجہ اور محبت کے متلاشی۔ آپ انہیں بیٹھا کر پیار سے بات کریں تو ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جیسے انہیں یقین نہیں ہوتا کہ ان سے کوئی ان کے دکھ بھی سننے کے لیے تیار ہے۔ ایسے ہی ایک پندرہ سولہ سال کے لڑکے سے میری ملاقات ہوئی جو اپنے کلاس فیلو کو قتل کرنے کے جرم میں پکڑا گیا تھا، اسے اس نے سر پر پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی ایسی لڑکیوں سے ملا جن کی عمریں تیرہ چودہ سال سے زیادہ نہیں تھیں، وہ منشیات کی عادی ہو چکی تھیں۔ یعنی ان کے پاس زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں تھا۔

ان طلاق والی فیملیز ( broken families ) کے علاوہ وہ بچے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں جو بغیر شادی کے صرف جنسی تعلقات میں بے احتیاطی کے نتیجے میں دنیا میں آ گئے ہیں۔ نانا نانی یا دادا دادی صرف اپنے بڑھاپے میں ساتھ دینے کے انہیں پالتے ہیں۔ لیکن جو محبت اور جذبات اپنے والدین بچوں کو دے سکتے ہیں وہ کہاں سے دیں گے۔ زندگی کا کوئی مقصد نہ ہونے کی وجہ سے تائیوان میں خودکشی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اور آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔

فطری جذبات ہی ختم ہو رہے ہیں۔ صرف آسائش کے لیے دوڑ ہے اور وہ بھی جب تھکا دیتی ہے تو انسان بیٹھ کر سوچتا ہے کہ اس کے بعد کیا کرے گا تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ ان کے اپنے مذہب کی بنیادیں دلائل کی بجائے صرف توہمات پر کھڑی ہیں اس لیے نوجوان نسل انہیں قبول کرنے سے انکاری ہے۔ اس خلا کو مسیحیت سے پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یعنی جو جی چاہے کرو صرف کبھی کبھار چرچ آ جایا کرو۔ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کر تمہارے سارے گناہ بخشوا دیے اور مرنے کے بعد تمہارے لیے جنت خرید لی۔ موت ان سب خواہشات کو بالکل ہی ختم کر دے گی یہ انسان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

تائیوان میں مسلمان ساٹھ ہزار کی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ تعداد اب انڈونیشیا کے ورکرز کی وجہ سے بہت بڑھی ہے اس کے علاوہ جن لوگوں نے وہاں مقامی لوگوں سے شادیاں کی ہیں ان سے بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تائیوان حکومت کی طرف سے مذہب پر کوئی پابندی نہیں، وہ بھی مسلمان ممالک کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات بنانا چاہتی ہے۔ مساجد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن ایک خطرہ ہر ایک کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ اگلی نسل کا بچاؤ۔

سب سے پہلے جو مسلمان سترہویں صدی میں چائنا سے تائیوان کے شہر Tainan میں آ کر آباد ہوئے اور انہوں نے وہاں مسجد بھی قائم کی۔ اب وہ مسجد مندر بن چکی ہے، باہر دروازے پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے جبکہ اندر تاؤ ازم کے بت رکھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی اولادیں یہی کہتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد مسلمان تھے ہم نہیں۔ یہی خطرات ان لوگوں کے سروں پر بھی منڈلا رہے ہیں جنہوں نے اس دور میں وہاں شادیاں کی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سوچ اور عمل کی آزادی ہے اور بچوں کا غیر مسلموں کے ساتھ ہر طرح کا انٹر ایکشن ہے۔ اس کے بچاؤ کی ایک ہی تدبیر ہو سکتی ہے کہ توہمات کی جگہ اپنے عقائد کو دلائل کی بنیاد پر کھڑا کیا جائے۔ میرے کئی دوستوں نے وہاں شادیاں کیں اور اب ان کی اولادیں جوان ہو چکی ہیں۔ اب یا تو وہ اس فکر میں ہیں کہ اب کیا ہو گا یا پھر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ چکے ہیں کہ جو خدا کو منظور ہوا۔

مثلا میرے ایک عزیز جن کے بچے ماشاء اللہ اب جوان ہیں وہ بتا رہے تھے کہ ایک ہنٹر ( hunter ) نامی پاکستانی (اصل نام ان کی بیوی بچے بھی نہیں جانتے تھے ) کا کچھ عرصے پہلے انتقال ہوا تھا۔ انہوں سے وصیت کی تھی کہ ان کی میت مسجد کے حوالے کی جائے، وصیت کے مطابق بچے لاش لے کر مسجد پہنچ گئے۔ اس سے پہلے شاید ہی کسی نے انہیں مسجد میں دیکھا ہو۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ ایک اور پاکستانی بھائی ہیں ان کی بیٹی نے کسی تائیوانی سے شادی کر لی بقول ان کے وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ واللہ العالم۔ اب وہ دونوں چائنا میں ہیں۔

اس مسئلے سے وہاں کے مسلمان پریشان ہیں۔ دو سال پہلے انہوں نے مسجد میں بچوں کے لیے ہفت روزہ کلاس شروع کی تھی جس میں بچوں کی دلچسپی کی چیزوں کے علاوہ قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن کیا ہفتے میں ایک دو گھنٹے ان سات دنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو بچے ہفتے میں باہر سکول وغیرہ میں گزارتے ہیں۔ پھر جتنے کچھ آپ خود مسلمان ہیں اتنے ہی آپ کے بچے بھی ہوں گے۔ اس لیے وہی بات پہلے خود کو ری ایجوکیٹ (re educate ) کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس معاشرے میں بچوں کے عقائد کو دلائل کی بنیاد فراہم کی جا سکے۔ جن کا اپنا کوئی تعلق مسجد کے ساتھ نہیں، اکیلے ہی دوڑ رہے ہیں وہ اگلی نسل کو کیسے سنبھالیں گے۔

یہ فکر کہ اس مشکل کا حل کیا نکالا جائے۔ شاید ہی کسی کے پاس ہو کیونکہ یہ آسان کام نہیں ہے کہ پہلے آپ خود اپنے عقائد کو دلائل فراہم کریں ( re educate ) کریں اس کے بعد اپنی اولاد کو دین کی ایجوکیشن دیں۔ تبلیغی جماعت بھی مقامی طور پر کچھ کام کر رہی ہے۔ لیکن وہ شاید اس سوسائٹی میں ناکام ہے۔ جو قصے کہانیاں ان کے پاس ہیں وہ قصے ان سے زیادہ مزیدار تاؤ ازم اور بدھ ازم کے ہاں موجود ہیں۔ ان حالات میں ان کے ان قصوں کی اس مارکیٹ میں کیا ویلیو ہوگی۔

اس کے علاوہ بہت سے پاکستانی لڑکے لڑکیاں پی ایچ ڈی کے لیے تائیوان میں موجود ہیں۔ وہ اس معاشرے اور مذہب کے بارے میں کیا تاثرات دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ چائنا کے سفر کی روداد میں تفصیل سے عرض کروں گا۔ یہ لڑکے لڑکیاں ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تائیوان گئے تھے ان کے تاثرات جاننے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا، اس لیے سنی سنائی بات ہو جائے گی۔ چائنا والے سٹوڈنٹس میرے دیکھے ہوئے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments