عورت مارچ کے خلاف وزیراعظم کو خط: ’مطالبات کو متنازع بنانے کا مقصد ہماری آواز دبانے کا بہانہ ہے‘

اعظم خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط میں ’عورت مارچ‘ کو سماجی روایات اور مذہبی اقدار کے مطابق کرنے کا پابند بنانے جیسی تجاویز دی ہیں۔ تاہم پاکستان کی پارلیمان سمیت عورت مارچ کے منتظمین نے اس ’سرکاری خط‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس سے قبل بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوسوں میں محضوص پیغامات والے پوسٹرز، بینرز اور نعروں کو گذشتہ پانچ برس سے عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر پہلی بار سرکاری سطح پر اس طرح کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

عورت مارچ کے منتظیمن پہلے ہی یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف جس طرح کی منفی مہم چلائی جاتی ہے اس کے بعد ان کی زندگیوں تک کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اب اس طرح کے خط سے ان کے لیے مسائل مزید بڑھیں گے اور ایسے اقدامات کا مقصد خواتین کی طرف سے پیش کیے جانے والے مطالبات کو متنازع بنانا ہے۔

نورالحق قادری نے خط میں کیا مطالبہ کیا ہے؟

نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگلے مہینے آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین پر کسی بھی طبقے کو ’عورت مارچ‘ یا کسی بھی دوسرے عنوان سے اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی، پردہ و حجاب وغیرہ پر کیچڑ اچھالنے یا ان کا تمسخر و مذاق اڑانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کیونکہ ایسا کرنا مسلمانانِ پاکستان کے لیے سخت اذیت، تکلیف اور تشویش کا باعث بنتا ہے۔

خط میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ آٹھ مارچ کو ہی منائے جانے والے ’حیا ڈے‘ کو دنیا کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اور انڈیا میں مسلم خواتین سے لباس کی وجہ سے کیے جانے والے امتیازی سلوک کی طرف متوجہ کیا جائے اور بین الاقوامی برادری سے انڈین حکومت کے اس رویے کو ختم کرانے کا مطالبہ کیا جائے۔

اس خط کی ایک کاپی صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو بھی بھیجی گئی ہے۔

بی بی سی نے وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کی جانب سے وزیر اعظم کو عورت مارچ کے حوالے سے لکھے گئے خط کے متعلق ان سے اور عورت مارچ کی منتظمین سے تفصیلی بات کی ہے۔

’خط میں عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا‘

وفاقی وزیر مذہبی امور نے اپنے خط سے متعلق بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے مختلف مکاتب فکر سے مشاورت کے بعد یہ تجاویز دی ہیں مگر مارچ پر سرے سے پابندی کا مطالبہ قطعاً نہیں کیا ہے۔

ان کے مطابق سال بھر ان کو مختلف کانفرنسز اور مشاورتی اجلاسوں میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے عورت مارچ کو باوقار بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی تجاویز دیں۔ ان کے مطابق انھوں نے پھر یہ تجاویز ایک خط کی صورت میں وزیر اعظم کو بھیج دیں مگر ان میں کہیں بھی عورت مارچ پر مطلق پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اقدار کا پاس رکھنے کی بات ہوئی ہے۔

نورالحق قادری کے مطابق یہ خط گذشتہ تین چار سال کے دوران ہونے ولے عورت مارچ میں لائے جانے والے پوسٹرز اور پلے کارڈز اور ان پر جیسے نعرے درج کیے گئے اس بنیاد پر لکھا۔ ان کے مطابق ’یہ پوسٹرز اور نعرے معاشرے اور روایات، کلچر، مذہب سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق ملک میں اس وقت دو طبقات کی انتہاپسندی، انتشار کا باعث بن رہی ہے۔ ان کے مطابق ایک طرف مذہبی انتہاپسندی ہے تو دوسری طرف لبرل انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے مطابق جو بھی مطالبات یا مسائل ہیں ان کا مناسب انداز میں اظہار کیا جائے۔ ’ہمارا موقف ہے کہ (حقوق کے لیے آواز) متوازن طور پر اٹھائی جائے‘۔

ان کے مطابق اس مارچ کو باوقار انداز میں کیا جانا جائے تاکہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہو سکیں بجائے اس کے پھر بے ہودہ قسم کی بحث چل نکلے۔

’ہم نہتی عورتیں ہیں، بندوقیں اٹھا کر مارچ نہیں کر رہی ہوتی ہیں‘

بی بی سی نے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے منتظمین سے بات کی ہے۔ ان خواتین نے یہ کہہ کر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کا کہا ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ’اس کے بعد پھر ان کے خلاف مہم شروع کرا دی جاتی ہے اور ان کے خلاف اعلانات تک کرائے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بحث کے ہمیشہ مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عورت مارچ میں جو نکات اور مطالبات رکھے جاتے ہیں وہ متنازع نہیں ہوتے بلکہ انھیں متنازع بنایا جاتا ہے۔

’یہ لوگ نہیں چاہتے کہ خواتین اپنے حقوق پر بات کریں۔‘ ان کے مطابق عورت مارچ میں پیش کیے جانے والے مطالبات کو متنازع بنانے کا مقصد ہماری آواز دبانے کا بہانہ ہے۔

ان کے مطابق ’ہم نہتی عورتیں ہیں، بندوقیں اٹھا کر مارچ نہیں کر رہی ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق تشدد، جرم اور لڑائی تو مرد کرتے ہیں۔ اس معاشرے کا اتنظام تو مردوں کے پاس ہے۔ شیما کرمانی کے مطابق عورتیں امن پسند ہوتی ہیں، وہ پرامن معاشرہ چاہتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام کیا۔ ان کے مطابق قائد اعظم نے بھی یہ واضح کیا تھا کہ اگر خواتین آزاد نہیں ہوں گی تو ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی عورت مارچ کی کی ایک منتظم کے مطابق ہر شہر میں عورت مارچ پر جلسے اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر مارچ میں کسی کے آنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے اور اگر کوئی اپنے تجربات بیان کرتا ہے تو اسے روکا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے کے منافی ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے ذاتی تلخ تجربات ہیں تو وہ اس کا اظہار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق خواتین پر کام کا کافی بوجھ ہوتا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں میڈیا کو بھی عورت مارچ پر خواتین کے بنیادی ایشوز کو زیادہ کوریج دینی چاہیے۔

ہر برس خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کو درپیش چیلنجز پر یہ مارچ کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں اس برس عورت مارچ کا انعقاد گھروں میں رہ کر گھر کا نظم و نسق اور بچوں کی نگہدشات کرنے والی خواتین کی محنت و مزدوری کے موضوعات پر کیا جائے گا۔ منتظمین کے مطابق ہو حکومت سے خواتین کی اس محنت کو تسلیم کرنے اور اس کی سوشل سکیورٹی دینے کا مطالبہ کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ لاہور میں تشدد کے واقعات میں انصاف کے حصول کے موضوع پر ہو گا۔

وزیر مذہبی امور کے خط پر سینیٹر شیری رحمان کا ردعمل

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا آٹھ مارچ کو عورت مارچ پر پابندی عائد کرنے سے متعلق وزیراعظم کو خط قابل تشویش ہے کیونکہ ’پاکستان میں خواتین کو حجاب کا دن منانے پر کسی نے پابندی نہیں لگائی۔‘ انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی وزیر کی طرف سے اس طرح کی بات حیران کن ہے اور آٹھ مارچ عالمی سطح پر عورتوں کا دن منایا جاتا ہے۔ ’آپ نہتی عورتوں کے مارچ پر پابندی لگا کر کیا کیا ثابت کریں گے۔‘

پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت کم آگاہی ہے اور خواتین کا گھریلو تشدد کا نشانہ بننا، اُن کی زبردستی شادی ہونا اور جنسی ہراسانی کا نشانہ بننا معمول کی بات ہے۔ ملک میں خواتین کو عزت کے نام پر قتل بھی کیا جاتا رہا ہے۔

شیری رحمان کے مطابق ’ایک طرف ہم انڈیا کے رویہ کی مذمت کرتے دوسری طرف آپ نہتی خواتین کے عورت مارچ پر پابندی کی باتیں کر رہے۔ خواتین کا عالمی دن ہر طبقے کی عورت کے نام ہوتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کا مقصد معاشرے میں عورتوں کے خلاف جینڈر اسٹیریو ٹائپ اور تعصبات کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے۔ آپ عورتوں کے عالمی دن پر ہی ان کی آزادی اور حقوق سلب کرنے کی سازشیں کر رہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ پانچ برس سے پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے جلوس نکالے جاتے ہیں، جنھیں خوب پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ یہ عورت مارچ خواتین کے حقوق کے لحاظ سے خاص حیثیت رکھتا ہے۔

ان جلوسوں میں لہرائے جانے والے پوسٹرز اور نعرے بھی خوب توجہ کا مرکز بنے، جن پر عوامی سطح پر تنقید بھی کی گئی۔

پاکستان میں اس سے پہلے بھی عورتیں بڑی تعداد میں ایسے جلوسوں میں شرکت کر چکی ہیں۔

ان مظاہروں میں طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہو کر شرکت کی جاتی ہے، جس میں ہم جنس پرست مرد اور خواتین کہ علاوہ مخنث یا ایل جی بی ٹی کہلانے والی کمیونٹی کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں۔ عورت مارچ کے ان جلوسوں میں بنائے گئے پلے کارڈز اور پوسٹرز جنسی موضوعات پر بھی تیار کیے گئے تھے اور اس قدامت پسند معاشرے میں انھوں نے ایک شدید ردِ عمل پیدا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments