شادی کب کر رہے ہیں؟ ابتدا


اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو میرا درد بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اور اگر کہیں با روزگار کنوارے ہیں تو پھر تو یقیناً دنیا میں ہم دو ہی بچے ہیں۔ ایسا میرا نہیں، ان بزرگوں کا کہنا ہے۔ جو بدقسمتی سے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ اصل میں ان کی اپنی بد نصیبی یہ ہے کہ خود شادی شدہ ہیں۔ اور اب ہماری خوشیاں ان سے دیکھی نہیں جاتیں۔ جہاں ملتے ہیں، شادی کے نام پر بے طرح ذلیل کرتے ہیں۔ گو ہم بھی بھرپور جواب دینے والوں میں سے ہیں۔ مگر ان کا وہ ایک ہی سوال کہ

”ہاں بھئی، شادی کب کر رہے ہو؟“
”اور سناؤ ولیمہ کب کھلا رہے ہو؟“

اب بندہ کتنی دفعہ نارمل جواب دے۔ سو، کئی دفعہ ہم ہتھے سے اکھڑے اور منہ ماری کرنے والوں نے درج ذیل جواب ”موصول“ پائے :

”یہ دو چار دن تو مصروف ہوں۔ اگلے ہفتے فری ہو کے سوچتا ہوں۔“
”آپ بتائیں، کب Available ہیں؟“
”اگلے ویک اینڈ پہ فری ہوں۔ تبھی!“

اگر کسی عزیز کی شادی میں شریک ہوں تو ان طعنوں میں شدت آ جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک دوست کی شادی میں ہم شہ بالے تھے۔ دیگر شہ بالوں سے بھی ہماری گاڑھی چھنتی تھی۔ ہمارے سوا ان میں سے قریب قریب سب ہی بیوی کو پیارے ہو چکے تھے۔ مگر حیرت یہ ہوئی کہ مائیوں، مہندی، بارات تک بات پہنچ گئی لیکن ہم سے کسی نے شادی کے بارے میں استفسار نہ کیا۔ آخر کہاں تک صبر ہوتا۔ ہم نے خود ہی ایک انتہا پسند کو اکسایا:

”آج پوچھا نہیں کہ میں نے شادی کب کرنی ہے؟“
اس کے کان ٹھنکے :
”کہیں منگنی ونگنی تو نہیں کر بیٹھے نا؟“
”نہیں! ایک جواب سوچ کے بیٹھا ہوں“
وہ متجسس ہوئے :
”اچھا، بتاؤ، شادی کیوں نہیں کر رہے؟“
اور ہم نے ریہرس کیا گیا جواب دہرا کر حاضرین سے داد پائی:

”شادی بھی کوئی کرنے کی چیز ہے؟ کچھ کرنا ہی ہے تو بندہ دوستی کرے۔ دشمنی کرے۔ چیٹنگ کرے۔ چیٹنگ کرے۔ سیاست کرے۔ حکومت کر لے! ہاں بس شادی محبت نہ کرے!“

اب وہ ہمارا پنچ ایسے کیسے برداشت کر جاتے۔ گھور کر بولے :
”نا؟ وہ کس لیے نہ کرے؟“
ہم دوسرے حملے کے لیے تیار تھے :

”آپ نے وہ شعر نہیں سنا کہ
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے ”

احتشام میرا کولیگ تھا اور عمر میں چھوٹا بھی۔ اب اس کی شادی ہوئی تو سب کی توپوں کا رخ ہماری طرف گھوم گیا۔ باس اس کے بے حد حامی تھے۔ کسی بات پر ہمیں دعوت کھلانی پڑی تو کھانے کے بعد بھری محفل میں طعنہ دیا :

”کب شادی کر رہے ہو؟ احتشام سے ہی کچھ سیکھو“

بس یہیں ان سے غلطی ہو گئی۔ ہم نے یہ سچوئیشن بہت پہلے فرض کر رکھی تھی :
”سر! جلدی کا کام دو لوگوں کا ہوتا ہے، یا شیطان کا اور یا احتشام کا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں“
جواب ایسا تسلی بخش تھا کہ باس اور احتشام نے اس کے بعد طنز نہیں کیا۔

یہ نہیں کہ اس کے بعد سب لوگ باز آ گئے۔ صرف دو اشخاص کے چپ ہونے سے کیا ہونا تھا۔ یہاں تو ان گنت موجود تھے۔ اب یار لوگوں نے سیدھے سبھاؤ بات کرنے کی بجائے گھما پھرا کر پوچھنا شروع کر دیا۔

کچھ چھٹیوں کے بعد ہم واپس آئے تو ایک کولیگ نے ہمدردی دکھائی:
”بال سفید ہو رہے ہیں۔ جلدی سے ہاتھ پیلے کر لو۔“
ہمیں جوابی پتھر ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگی:
”ہاتھ پیلے کرنے سے بہتر نہیں کہ میں بال ہی کالے کر لوں؟“
To be continued…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments