پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ، اغراض و مقاصد اور توقعات


پچھلے سال جب پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی پیپلز پارٹی واحد اتحادی جماعت تھی جس نے گراس روٹ لیول تک مارچ کامیاب بنانے اور نیازی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تیاریاں بڑے زور و شور سے شروع کردی تھیں، مگر اس وقت جن وجوہات کی بنا پر لانگ مارچ کو منسوخ کر دیا گیا تھا آج ان پہ بحث کے بجائے پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ 27 فروری کے لانگ مارچ کے اغراض و مقاصد، مارچ سے متعلق عوامی توقعات اور مارچ کی کامیابی کے امکانات پہ بات کرتے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، ساتھ ساتھ ملک کے تمام صوبوں میں کسان ٹریکٹر ٹرالی ریلیاں نکالنے کا بھی اعلان کیا اور خود حیدرآباد میں ایک عظیم الشان کسان ریلی سے دھواں دھار خطاب بھی کیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے لانگ مارچ کا اعلان کرتے وقت مارچ کے اہم مقاصد اور اہداف بھی بڑے واضح اور واشگاف اور تفصیل سے بیان کیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”ملک کے تمام مشکلات و مسائل کا حل فوری طور پر صاف و شفاف غیرجانبدارانہ و منصفانہ انتخابات ہیں، عمران خان کی حکومت نے غریب سے جینے کا حق، ان سے چھت بھی چھین لی ہے۔

عمران خان نے ملک کی سیاست، معیشت اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، اب ملک کی عوام کو مزید ان فاشسٹ حکمرانوں کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑا جاسکتا“ چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کی عوام اپوزیشن کی جانب دیکھ رہی ہے اور ہم اپنی عوام کو اس انتہائی مشکل و کٹھن صورتحال سے نکالنے کے لیے 27 فروری کو مزار قائد سے اسلام آباد تک جائیں گے، اور اس دوران ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے عوام کا جم غفیر عمران خان کی حکومت کو ایوانوں سے نکال باہر کرنے کے لیے اسلام آباد میں اکٹھا کریں گے ”

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری کو لانگ مارچ کا اعلان کیا مگر ان سے پہلے پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کر دیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کئی بار کہا ہے کہ پیپلز پارٹی دھرنوں کی سیاست پہ یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ آئینی طریقوں سے حکومت کو چلتا کرنے پہ یقین رکھتی ہے اور ہر وہ ممکن آئینی جمہوری راستہ اختیار کرے گی جس سے عمران خان کی حکومت کو فارغ کیا جا سکے۔ چیئرمین بلاول عمران خان حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنے کے آئینی طریقے پہ ایک انتہائی مضبوط بیانیہ رکھتے ہیں اور آج ان ہی کے اس مضبوط دو ٹوک موقف پہ تمام اپوزیشن جماعتیں بالآخر اکٹھی ہو چکی ہیں اور اس حقیقت کو قبول کر چکی ہیں کہ کسی غیر آئینی مہم جوئی کے بجائے اگر متحدہ اپوزیشن مل کر اپنی تمام تر توانائیاں، اپنے سیاسی رابطے اور تعلقات عمران خان کی بیساکھیوں پہ کھڑی حکومت کو گرانے پہ لگائے تو ایسا ہونا بہت حد تک ممکن ہے اور اب اپوزیشن جن میں پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی جماعتیں شامل ہیں اپنے اپنے لانگ مارچ سمیت تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں جت گئی ہیں۔

پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے پہلے پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ ہے جس کی تیاریاں انتہائی زور و شور اور پرجوش طریقے سے جاری ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود پارٹی کی اعلیٰ سطح کی قیادت سے لے کر ضلعی سطح کی قیادت و کارکنان سے بذات خود رابطے میں ہیں، میٹنگز کا سلسلہ مسلسل شب و روز جاری ہے۔ چیئرمین بلاول سندھ میں اپنی قیادت و کارکنان سے ملاقاتیں، ورکرز کنونشنز، طلباء، وکلاء، اراکین پارلیمان سمیت ہر مکتبہ فکر سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں کر کے لانگ مارچ اور اس سے وابستہ توقعات کو کامیابی کی صورت دینے کی ہر ممکن کوششوں میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

چیئرمین بلاول صبح کو سندھ میں کوئی اجلاس کر رہے ہوتے ہیں تو شام کو پنجاب یا پھر کے پی کے اور بلوچستان کی پارٹی قیادت کو انگیج رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوتیں دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی سے ملاقاتیں خاصی نتیجہ خیز رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے باقاعدہ طور پر پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ نون کا ردعمل بھی خاصہ مثبت رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا سب سے اہم پہلو اس مارچ میں عام پاکستانیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہر دوسرے روز ایک جعلی سروے کے ذریعے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ عمران خان عوام میں بہت مقبول ہیں اور ان کی حکومت کے اقدامات پہ پاکستان کے عوام مطمئن ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری ضرور ہے مگر عوام کی اکثریت عمران خان کو ایماندار دیانتدار سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ وہ ان مشکلات سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حالانکہ حالات ان سروے رپورٹس کے بالکل الٹ ہیں، مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، پاکستان مہنگائی میں دنیا میں تیسرے اور خطے میں پہلے نمبر پہ ہے، کرپشن انڈیکس میں ترقی کرتا ہوا 140 ویں نمبر پہنچ چکا ہے، معیشت تاریخ کی بدترین سطح پہ ہے، افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے، اور وزیراعظم عمران خان کے وزراء کرپشن میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عوامی مسائل سے چشم پوشی ملک و قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے، یہی وجہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لانگ مارچ کر کے عمران خان حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی عوام کے مصائب و آلام کا کوئی بہتر اور مستقل حل نکالا جا سکے اور انہیں مہنگائی، بھوک، بیروزگاری اور بدحالی کی دلدل سے نکالنے کی کوئی سعی کی جا سکے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نئے انتخابات چاہتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نئی منتخب عوامی جمہوری حکومت ہی ملک کو اس دلدل سے نکال سکتی ہے، وہ پیپلز پارٹی کو عوام کی مشکلات کو حل کرنے، ملک کی سیاسی، معاشی، خارجی و داخلی مسائل کے حل کے لیے اہل سمجھتے ہیں۔ اس لانگ مارچ کے لیے پیپلز پارٹی کے اغراض و مقاصد بالکل واضح ہیں اور وہ ہیں ملک کو تباہی و بربادی کی دلدل سے نکالنا، عوام کو مکروہ تبدیلی کے شیطانی اثرات سے نجات دلانا اور پاکستان کو ایک بہتر، ترقی یافتہ روشن خیال پاکستان بنانا، جہاں زندگی سب کے لیے آسان ہو خوبصورت ہو۔ جہاں بھوک بدحالی کا دور دور شائبہ تک نہ ہو۔ اس عوامی لانگ مارچ کے نتائج کیا نکلتے ہیں یہ ابھی کہنا قبل از وقت ہے مگر عوامی جوش و خروش اور پذیرائی بتاتی ہے کہ پاکستانی عوام اب عمران خان کی فسطائیت اور ظالم حکومت سے اب تنگ آ چکے ہیں اور اس سے فوری طور پر چھٹکارا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments