احساس سے عاری وجود


اگر ایک شخص اپنی عینک پر سیاہ شیشہ لگا نے کے بعد کوئی منظر دیکھتا ہے تو یقیناً اسے سب کچھ سیاہ نظر آئے گا۔ اس سیاہ چشمہ یعنی تعصب کی عینک کو مخصوص افراد کی سوچ کا ایک منفی انداز بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر انفرادی اور اجتماعی طور پر سوچ بچار کا انداز تبدیل کر لیا جائے تو نہ صرف ہماری زندگی بلکہ معاشرے کی سمت بدل جاتی ہے۔ درحقیقت کچھ ”گلٹ“ ہماری شخصیت کے ادھورے پن کا اظہار بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ انہیں سمجھ جائیں تو یہ رائی بن جاتے ہیں اور اگر انہیں سمجھنا دشوار ہو جائے تو ان کا وجود پہاڑ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک شرک کے سوا انسان کے ہر طرح کے گناہ اور قصور درگزر کر دیتا ہے لیکن ناسمجھ انسان اپنی خطاؤں کو معاف نہیں کرتا، معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لئے اپنے آپ اور دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں، خود کو معاف کرنا بھی کار خیر ہے۔ جو خود کو معاف نہیں کرتا وہ دوسروں کے لئے بھی اپنا دل صاف نہیں کر سکتا۔ ہر وقت خود کو مجرم سمجھنا اور کوسنا انتہائی مجرمانہ روش ہے۔ اپنے آپ اور اپنوں سے پیار کریں۔ نفسیات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، ماہرین اسے ”آٹو سجیشن“ کا نام دیتے ہیں، ہماری قومی زبان میں اس کو خود کلامی کہا جاتا ہے۔

اس طریقہ علاج کو آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آپ صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد اور رات سونے سے پہلے اپنا دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھیں اور پورے انہماک، استغراق اور ارتکاز کے ساتھ خود کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی زبان سے دس بار یہ فقرہ ادا کریں ”میں نے خود کو معاف کیا اور میں اپنے آپ سے بہت محبت کرتا ہوں“ ۔ صرف چند دن کی مشق کے بعد آپ اپنے آپ کو احساس جرم اور احساس گناہ سے آزاد محسوس کریں گے۔

ایتھرا پالوجی انسان کے رویوں اور مزاج کا علم ہے، یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ ”سیکھنا“ ہماری جبلت میں شامل ہے، ہم شعوری یا لاشعوری طور پر علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی لیکن ہم اپنے سیکھے ہوئے غلط علم کو بھی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے نتیجہ میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں سیکھا ہوا علم، ایسے جملے جن سے ہم متاثر ہوں اور ایسی باتیں جو ہم نے کسی ایسے شخص سے سنی ہوئی ہوں، جس سے ہم متاثر ہوں تو یہ سب کچھ ہمارے اندر عقائد کو جنم دیتا ہے اور ہمارے عقائد ہماری شخصیت میں وہ معیار اور اصول بنا دیتے ہیں جن سے ہم نے خود کو اور دوسروں کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے۔

ایک بات بہت اہم ہے کہ ”گلٹ“ (Guilt) اور ندامت میں بنیادی فرق ہے۔ ندامت ایک مثبت احساس ہے، اس مثبت احساس کی بدولت آپ کے اندر خود کو تبدیل کرنے کی سوچ ابھرتی ہیں، لیکن احساس گناہ، قصور وار یا خطاء کار ہونے کے احساس میں آپ اپنی اصلاح کا نہیں سوچتے اور کئی برسوں تک اس شرمندگی کے احساس کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، ایسا انسان دوسروں سے بیزار اور دوسرے اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ زندگی کی اساس اصل میں احساس پر قائم ہے۔

زندگی وہی کچھ تو ہے، جس طرح اسے سمجھ اور مان لیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں جیسا ہمارا احساس ہو گا ویسی ہماری زندگی ہو جائے گی۔ جس طرح ہماری آنکھیں بے شمار مناظر دیکھتی ہیں، بڑی بڑی عمارتیں، پہاڑ، دریا، صحرا، سونا چاندی، جواہرات، محلات، الغرض بھانت بھانت کی اشیاء ہماری نظر سے گزرتی ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں کیا دیتی ہیں؟ جی ہاں! جواب واضح طور پر احساس ہی ہو گا۔

بے حسی پر مبنی رویہ انسان اور انسانیت دونوں کا دشمن ہے۔ انسان کے پیدا ہونے کا دن وہ ہے جس دن اس کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے۔ احساس سے محرومی دنیا کی سب سے بڑی محرومیوں میں سے ایک ہے۔ اسلام بھی انسان کی زندگی میں جو بہت بڑا کام کرتا ہے وہ یہ کہ اسلام انسان میں ضمیر کو جگاتا اور احساس کو بیدار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، یہاں تک کہ اگر ایک مسلمان تکلیف میں ہو تو دوسرے مسلمان کا بے چین ہو جانا اسلام کا تقاضا ہے۔

اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا درد محسوس اور اس درد کو دور کرنے کی سعی کرنا ہی تو احساس ہے۔ اب جو چیزیں ہماری ہیں یا کسی بھی اور انسان کی ہیں تو کیا ہم یا وہ انسان ہر وقت ان چیزوں کو اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے، بالکل نہیں۔ ہمارے یا اس انسان کے پاس کیا چیز ہر وقت رہتی ہے یا رہ سکتی ہے؟ اس چیز کا نام احساس ہے۔ یاد رکھیں احساس سے عاری انسان، انسان نہیں ہوتا۔ جس انسان کے اندر احساس کا دم گھٹ جائے وہ جیتے جی مر جاتا ہے لہٰذاء اپنے احساس کو زندہ رکھیں اور خود بھی زندہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments